Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 41
قَالَ نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ اَتَهْتَدِیْۤ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَهْتَدُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا نَكِّرُوْا : وضع بدل دو لَهَا : اس کے لیے عَرْشَهَا : اس کا تخت نَنْظُرْ : ہم دیکھیں اَتَهْتَدِيْٓ : آیا وہ راہ پاتی (سمجھ جاتی) ہے اَمْ تَكُوْنُ : یا ہوتی ہے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ لَا يَهْتَدُوْنَ : راہ نہیں پاتے (نہیں سمجھتے)
کہا ( سلیمان (علیہ السلام) نے) تبدیل کر دو اس ( بلقیس) کے لیے اس کا تخت ، تا کہ ہم دیکھیں کہ یہ سمجھتی ہے یا ان لوگوں میں سے جو نہیں سمجھتے
ربط آیات گزشتہ آیات میں سلیمان (علیہ السلام) کے شرف اور آپ کی غیر معمولی قوت کا ذکر تھا جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی تھی ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے درباریوں سے کہا کہ میرے پاس ملکہ سبا کا تخت کون لائے گا ۔ ایک سر کش جن نے کہا کہ میں آپ کی مجلس برخاست ہونے سے قبل تخت کو لاسکتا ہوں ۔ مگر سلیمان (علیہ السلام) اس سے بھی جلدی کے خواہش مند تھے۔ چناچہ ایک عالم کتاب شخص نے کہا کہ میں وہ تخت آنکھ جھپکنے سے پہلے لاسکتا ہوں ، چناچہ ایسا ہی ہوا ملکہ کا تخت ملک سبا سے فوراً یروشلم پہنچ گیا ۔ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل ہے وہ ہمارا امتحان لینا چاہتا ہے کہ ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں یا نا شکرگزاری کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ شکر ادا کرنے سے اللہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اس میں خود شکر گزار کا ہی فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے نفس کی بہتری اور فضلیت ثابت ہوتی ہے۔ اس کو درجہ ملتا ہے اور وہ مزید نعمت کا مستحق بن جاتا ہے۔ گویا سلیمان (علیہ السلام) اللہ کے نہایت ہی شکر گزار بندے تھے۔ صاحب صحیفہ نبی اور رسول تھے اور اللہ نے آپ کو بےمثال حکومت عطاء فرمائی تھی۔ ملکہ سبا کا پہلا امتحان جیسا کہ گزشتہ درس میں بیان کیا جا چکا ہے کہ ملکہ سبا سلیمان (علیہ السلام) سے ملاقات کے لیے بنفس نفیس ملک سبا سے روانہ ہوگئی ۔ اس کے ساتھ اس کے عمائدین سلطنت لشکر اور بہت سا سازو و سامان بھی تھا۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھی کہ اس کا تخت پہلے ہی سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اب سلیمان (علیہ السلام) ملکہ بلقیس کی آمد پر اس کو بعض امور پر آزمانا چاہتے تھے تا کہ پتہ چل سکے کہ وہ کس صلاحیت کی مالک ہے آپ کا خیال تھا کہ اگر وہ صاحب عقل و دانش ہوگی تو ایمان قبول کریگی ورنہ ہدایت سے محروم رہے گی چناچہ ملکہ کی آمد سے قبل ہی سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے حواریوں کو حکم دیا ۔ قال نکروالھا عرشھا کہنے لگے ملکہ کے تخت میں کچھ تغیر و تبدل کر دو تا کہ ہم اس کی عقل کا امتحان لے سکیں ۔ مقصد یہ ہے ننظر اتھندی امر تکون من الذیا لا یھتدون کہ ہم دیکھیں کہ وہ سمجھ رکھتی ہیں یا بےسمجھ لوگوں میں سے ہے۔ اگر عقل مند ہوگی تو فوراً سمجھ جائے گی کہ یہ تو اسی کا تخت ہے جسے وہ اپنے محل میں بند کر کے آئی ہے۔ فلما جاء ت پھر جب ملکہ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچ گئی تو آپ کے دربار والوں نے اس کا بڑے اچھے طریقے سے استقبال کیا اور اس کو بڑا اعزا دیا ۔ ملکہ نے سلیمان (علیہ السلام) کا دربار ، آپ کے کارندے اور وہاں پر موجود ہر چیز کو بغودیکھا تو حیران رہ گئی ۔ وہ خود ایک متمدن حکومت کی ملکہ تھی ۔ اس کے پاس بھی ضرورت کی ہر چیز موجود تھی ۔ مگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے انتظامات دیکھ کر اسے اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگا ۔ ظاہر ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت تو بےمثال تھی جسے انہوں نے خود اللہ تعالیٰ سے یہ کہہ کر طلب کیا تھا وھب لی وَہَبْ لِیْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْم بَعْدِیْ (ص : 53) مولا کریم مجھ ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد کسی کو نصیب نہ ہو۔ ملکہ سبا کی آمد کے بعض حالات کا ذکر نہیں کیا گیا ، البتہ اصل مقصد کی بات کی گئی ہے ، چونکہ ملکہ سبا کا امتحان مطلوب تھا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے دریافت کیا ۔ قیل اھکذا عرشک دیکھوٖ ہمارے پاس یہ تخت ہے ، کیا تمہارا تخت بھی ایسا ہی ہے جس پر بیٹھ کر تم امور سلطنت انجام دیتی ہو قالت کا نہ ھو کہنے لگی گویا کہ یہ ہو بہو ویسا ہی ہے ۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ تو وہی میرا تخت ہے جس میں سلیمان (علیہ السلام) نے کچھ تبدیلی کر کے میرے سامنے پیش کیا ہے۔ ملکہ کا اعتراف حقیقت اس کے علاوہ ملکہ نے یہ اعتراف بھی کیا کہ واوتینا العلم من قبلھا اس بات کا علم تو ہمیں پہلے ہی ہوچکا ہے ۔ ہم نے آپ کے کمال کے متعلق اپنے وفد کے ذریعے سے پہلے ہی سن رکھا ہے کہ اللہ نے آپ کو بےمثال برتری عطا فرمائی ہے۔ یہ اسی بات کا کرشمہ ہے کہ ہمارا تخت ہمارے پہنچنے سے پہلے یہاں موجود ہے حالانکہ ہم اسے محل میں مقفل کر کے روانہ ہوئے تھے ، مطلب یہ کہ ہمیں آپ کے کمالات کا علم دے دیا گیا تھا۔ وکنا مسلمین اور ہم تو پہلے ہی سرتسلیم خم کرچکے تھے ، ہم آپ کی صداقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ آپ عام دنیا کے بادشاہوں کی طرح نہیں بلکہ آپ کے فضائل و کمالات منجانب اللہ ہیں ۔ اسی لیے ہم نے جنگ و جدل کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے تسلیم و رضا کا پہلو اختیار کیا ہے۔ اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملکہ بلقیس اتنی ہی سمجھ دار عورت تھی اور وہ حقیقت کو پہلے ہی پا چکی تھی تو پھر اس نے وہیں پر اس کا اظہار کیوں نہ کیا اور اس نے سلیمان (علیہ السلام) کے پاس آ کر اسلام کیوں قبول کیا ؟ اللہ نے آگے اس کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے وصلھا ما کانت تعبد من دون اللہ اس کو روک دیا تھا ایمان لانے سے ان چیزوں نے جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتی تھی انھا کانت من قوم کفرین ، بیشک وہ کافر قوم کی ایک فرد تھی ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کافر قوم کے کفریہ اور شرکیہ رسم و رواج اور طور طریقوں نے ملکہ کو ایمان لانے سے روک رکھا تھا ۔ اکثر لوگ اپنی جاہلانہ رسم و رواج میں پھنس کر ہی ہدایت سے محروم رہتے ہیں ۔ اس زمانے کا حال بھی مختلف نہیں ۔ پوری کی پوری قوتیں محض رسم و رواج کی پابند ہو کر رہ گئی ہیں ۔ کوئی اکادکا سمجھدار آدمی ہو بھی تو وہ بھی انہی کے طور طریقوں پر چلنے پر مجبورہوتا ہے۔ آج بھی لوگ کسی حقیقت کو سوچنے سمجھنے کی بجائے لکیر کے فقیر بن کر ہدایت سے محروم ہیں ۔ عالم قوموں ، فرقوں اور جماعتوں کا بھی یہی حال ہے۔ بعض آدمیوں کے بارے میں حیرت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے دانشور ، بیرسٹر اور باریک بین ہونے کے باوجود کفر و شرک میں مبتلا رہتے ہیں ۔ وجہ یہی ہے کہ ملکی اور خاندانی رسم و رواج ان کے مزاج میں رچ بس چکا ہوتا ہے ۔ جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا ۔ ہندوئوں میں گاندھی کوئی بیوقوف آدمی تو نہیں تھا۔ نہرو بین الاقوامی حیثیت کا حامل تھا ہمارے ہاں ظفر اللہ قادیانی بڑا قابل آدمی تھا ، مگر یہ سب لوگ باپ دادا کے رسم و رواج پر ہی اڑے رہے ، ہدایت کی بات پر غور ہی نہیں کیا ۔ حضرت مولانا شیخ الہند وصدھا کا کانت تعبد من دون اللہ کا ترجمہ یہ کرتے ہیں ’ سلیمان (علیہ السلام) نہ روک دیا اس عورت کو اس چیز سے جس کی وہ عبادی تھی اللہ کے سوا گویا آپ نے بلقیس پر واضح کردیا کہ اب کفر و شرک کی بات نہیں چلے گی اور نہ سورج کی پرستش ہوگی ، جو ایسا کرے گا سزا پائے گا ، تا ہم پہلے معنی زیادہ متبادر ہیں کہ ملکہ کو غیر اللہ کی پوجا کرنیوالی چیزوں نے ایمان لانے سے روک رکھا تھا “ ۔ ملکہ کا دوسرا امتحان ملکہ پہلے امتحان میں تو پاس ہوگئی کہ اس نے اپنے تخت کو بھی پہچان لیا ۔ اور پھر اعتراف حقیقت کر کے ایمان لے آئی ۔ اب سلیمان (علیہ السلام) نے اسے دوسرے امتحان میں ڈالا ۔ قیل لھا ادخلی الصرح اس سے کہا گیا کہ اس محل میں داخل ہو جائو ۔ فلما راتہ جب اس نے اندر داخل ہو ک دیکھا حسبتہ لجۃ تو اس کو پانی کی موج گمان کیا ۔ محل کا فرش اس طرح لگایا گیا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ ایک پانی کا تالاب ہے جس میں مچھلیاں اچھل کود رہی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ پانی میں سے گزرتے وقت انسان اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہے تا کہ بھیگنے نہ پائیں ۔ چناچہ ملکہ نے بھی ویسا ہی کیا وشفت عن ساقیھا اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اوپر اٹھا لیا ۔ اس امتحان میں وہ ناکام ہوچکی تھی ۔ دراصل اسے پانی میں سے نہیں گزرنا تھا بلکہ شیشے کے بنے ہوئے فرش پر سے گزرنا تھا جس کے نیچے بہتا ہوا پانی صاف نظر آ رہا تھا۔ قال انہ صرح ممرد من قواریں سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سے کہا کہ تمہیں غلطی لگی ہے کہ یہ ایسا محل ہے جس میں شیشے جڑے ہوئے ہیں ۔ یعنی محل کا فرش ہی شیشے کا بنا ہوا ہے جس کے اوپر سے گزرنا ہے ، لہٰذا یہاں پر پنڈلیاں کھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ملکہ پانی سے گزارنے کا مقصد یہ تھا کہ سلیمان (علیہ السلام) ملکہ کی پنڈلیاں دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ انہوں نے سن رکھا تھا کہ اس کی پنڈلیوں پر بال بہت زیادہ ہیں ۔ ملکہ کو جنبیہ کی بیٹی بھی کہا گیا ہے ۔ بہر حال یہ سب تفسیری روایات ہیں جن کے متعلق یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ملکہ کا اسلام سے آنا جب ملکہ اس دوسرے امتحان میں ناکام ہوگئی تو اسے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا تو قالت کہنے لگی رب انی ظلمت نفسی پروردگار ! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے کہ میں اب تک کفر و شرک میں مبتلا رہی ہوں ۔ اور کفر شرک کی حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک دھوکہ ہے جس طرح ملکہ کو پانی کا دھوکہ ہوا اسی طرح کافروں اور مشرکوں کو دھوکہ ہوتا ہے وہ ایسی چیزوں کو مبود بنا لیتے ہیں ، ان کی غائت درجہ کی تعظیم کرتے ہیں ، ان کے سامنے نذر ونیاز پیش کرتے ہیں ۔ جن میں کوئی صلاحیت نہیں ہوتی اور اس طرح وہ خدا تعالیٰ سے غافل ہوجاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک بنانا یا اس کے اختیار میں شریک بنانا سب دھوکہ ہے۔ بعض نادان سمجھتے ہیں کہ یہ معبود ہماری کشتی کو پار لگا دیں گے ، کوئی مریض کی شفا یابی کے لیے غیر اللہ کی پوجا کرتا ہے۔ کوئی جنوں اور انسانوں سے مدد مانگتا ہے کوئی قبروں پر ماتا رگڑتا ہے کوئی اولیاء ، اللہ کے نام کی دہائی دیتا ہے۔ کوئی اضہام و اشجار کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتا ہے ، کوئی پانی ، ہوا اور سورج کی پوجا کرتا ہے ، کوئی ستاروں کو با اختیار سمجھتا ہے ۔ غرضیکہ شرک کے ہزاروں راستے ہیں جو کہ سراسر دھوکہ ہے۔ بلکہ سبا نے بھی ایسا ہی دھوکہ کھایا ، مگر فوراً سنبھل گئی اور اپنے آپ پر ظلم کرنے کا اعتراف کرلیا ۔ اور پھر واضح طور پر اقرار کیا ۔ واسلمت مع سلیمن للہ رب العالمین اب میں سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ پروردگار عالم پر ایمان لا چکی ہوں ۔ اپنی سابقہ غلطی کا اقرار کرتی ہوں اور اعلان کرتی ہوں کہ اللہ رب العالمین کے سوا کوئی قادر مطلق ہے اور نہ نافع اور ضار ۔ اس کے سوا کوئی خالق نہیں کسی مریض کو کوئی شفا نہیں دے سکتا اور نہ کسی کی کوئی بگڑی بنا سکتا ہے ۔ تمام اختیارات اللہ رب العزت کے پاس ہیں اور میں نے اسی کے سامنے سر ناز خم کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ واقعہ یہاں تک ہی بیان فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی باتیں تفسیری اور تاریخی روایات میں بھی ملتی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ ملکہ کا نکاح سلیمان (علیہ السلام) سے ہوگیا تھا۔ بعض اس کا انکار کرتے ہیں ۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ کو اپنے واپس لوٹا دیا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ وہاں جا کر نکاح کرلینا مگر اس نے عذر پیش کیا کہ میری برابری کا تو کوئی شخص نہیں ہے میں نکاح کس سے کروں ۔ سلیمان (علیہ السلام) نے اسے سمجھایا کہ اسلام میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ تم جہاں چاہو نکاح کرسکتی ہو۔ چناچہ ملکہ کا نکاح یمن کے شہزادے تبع سے ہوا جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے ، پھر سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی طرف سے جنات کو مامور کردیا کہ ان کی خدمت کریں اور ضروریات کی اشیاء بہم پہنچائیں ۔ یہ سب تفسیری اور غیر یقینی روایات ہیں ، پکی بات وہی ہے جو اللہ نے قرآن میں بیان کردی ہے کہ اللہ نے سلیمان (علیہ السلام) کو بےمثال حکومت عطا فرمائی تھی اور یہ کہ ملکہ سبا نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور آخر میں کفر شرک سے بیزار ہو کر ایمان لے آئی۔
Top