Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 41
قَالَ نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ اَتَهْتَدِیْۤ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَهْتَدُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا نَكِّرُوْا : وضع بدل دو لَهَا : اس کے لیے عَرْشَهَا : اس کا تخت نَنْظُرْ : ہم دیکھیں اَتَهْتَدِيْٓ : آیا وہ راہ پاتی (سمجھ جاتی) ہے اَمْ تَكُوْنُ : یا ہوتی ہے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ لَا يَهْتَدُوْنَ : راہ نہیں پاتے (نہیں سمجھتے)
سلیمان نے کہا اس کے تخت کو اس کے لیے ناپسندیدہ بنا دو دیکھتے ہیں کہ (وہ حقیقت حال کو) پہچانتی ہے یا ان میں سے ہوتی ہے جو ہدایت (سمجھ بوجھ) پانے والے نہیں ہوتے
حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تخت کو نقشہ کے مطابق پایا اور پھر اس میں کچھ ترمیم کا حکم دیا : 41۔ (نکروا) کی اصل ن ک ر ہے اور جمع مذکر حاضر امر معروف اس کے معنی دو طرح ہو سکتے ہیں تم اس کی حالت کو بدل دو تم اس کو ناپسندیدہ کر دو ، اس تخت کو جب آپ نے دیکھا تو بلاشبہ اسی نقشہ کے مطابق پایا جو اس کتاب میں دکھایا گیا تھا لیکن بعض چیزیں چونکہ آپ کو اس میں ایسی نظر آئیں جو اسلامی نقطہ نگاہ سے درست نہ تھیں آپ نے انکو بدل دینے کا حکم دیا اور تاکید کی کہ اس کو اسی طرح بدل دیا جائے کہ اس کا ظاہری حسن بھی پہلے سے دوبالا ہوجائے اور یہ چیزیں جو غیر شرعی ہیں وہ اس میں نظر نہ آئیں کیونکہ ہم کو تخت درکار ہے ایسا تخت جو اس کے تخت سے بہتر ہو اور یہ درکار نہیں کہ بالکل اس کے نقشہ کے مطابق ہو ۔ دوسرے مفہوم کے مطابق یہ بھی معنی کئے جاسکتے ہیں کہ اس تخت کا اتنا بہتر بناؤ کہ ملکہ سبا کے لئے اس کا وہ تخت جس پر اس کا ناز ہے اس کو دیکھ کر ناپسندیدہ ہوجائے یعنی اس کی کوئی وقعت اس کی نگاہ میں نہ رہے ۔ پھر جب ہم اصلاحا اس کو بدل رہے ہیں تو اگر وہ سمجھدار ہوگی تو اس تخت کو دیکھتے ہی سمجھ جائے گی کہ اس تخت میں اور اس کے اصل تخت میں جو فرق رکھا گیا ہے وہ محض اس لئے ہے کہ دین اسلام میں اس چیزوں کی ممانعت ہے اور ممنوع چیز کے نزدیک ایک سچا مسلمان کبھی نہیں جاتا اور اگر وہ اشارہ سے وہ بات جو ہم سمجھانا چاہتے ہیں نہ سمجھ سکی تو بات خودبخود واضح ہوجائے گی کی کہ وہ کتنے علم اور کتنی صلاحیت کی مالک ہے کیونکہ یہ مثل تو عام ہے کہ ” عاقل را اشارہ کافی است۔ “
Top