Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 24
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ١ۖۚ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ کرسکو وَلَنْ تَفْعَلُوْا : اور ہرگز نہ کرسکو گے فَاتَّقُوْا النَّارَ : تو ڈرو آگ سے الَّتِیْ : جس کا وَقُوْدُهَا : ایندھن النَّاسُ : آدمی وَالْحِجَارَةُ : اور پتھر أُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْکَافِرِیْنَ : کافروں کے لئے
پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا اور تم یقینا ہرگز ایسا نہ کرسکو گے تو پھر اس آگ سے ڈرتے رہو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں وہ آگ منکروں کیلئے تیار کی جا چکی ہے۔1
1۔ اور اگر تم کو اس کتاب کے بارے میں جو ہم نے اپنے خاص بندے محمد ﷺ پر نازل فرمائی ہے کچھ شک و شبہ ہو کہ یہ ہم نے نازل نہیں کی بلکہ اس کتاب کو ہمارے بندے نے بنایا ہے تو تم اسکی مثل ایک چھوٹی سی سورت ہی بنا کرلے آئو اور تم اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے تمام مدد گاروں اور حمایتوں کو بلا لو اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو ۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اس کتاب کی مثل کوئی چھوٹی سی سورت باوجود اپنے حمایتوں کے بنا کر نہ لائے اور ہم کہتے ہیں کہ تم اس قرآن کا جواب بنا کر لا بھی نہ سکو گے تو پھر اس آگ سے بچنے کی فکر کروجس آگ کا ایندھن بجائے لکڑی اور کوئلے کے آدمی اور پتھر ہیں اور وہ آگ کافروں اور دین حق کے منکروں کے لئے تیار کی جا چکی ہے۔ ( تیسیر) ریب اصل میں نفس کے اضطراب اور قلق کو کہتے ہیں اور ظاہ ہے کہ جب دل میں اضطراب اور قلق ہوتا ہے تو طبیعت کسی ایک بات پر نہیں ٹکتی اور اسی کو شک کہتے ہیں ۔ ہم نے ابتدا میں بتایا تھا کہ کسی چیز میں شک کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ایک تو یہ کہ اس چیز میں واقعتہ ً شک ہو دوسرے یہ کہ کوئی شخص اپنی عقل کو کوتاہی اور ضد سے شک کرے ، چناچہ لا ریب فیہ میں پہلی صورت کی نفی تھی اب اس دوسری صورت کی نفی فرماتے ہیں کہ اگر تم کو واقعی اس کتاب کے منجانب اللہ ہونے میں شک ہے اور تم اس قرآن کو محمد ؐ کا خو د ساختہ کلام سمجھتے ہو تو تم بھی اس قرآن کی مثل ایک ممدو د ٹکڑا اور چھوٹی سی سورت بنا لائو جو فصاحت و بلاغت اور پند و نصائح اور تاریخ امم ماضیہ اور غیب کی خبروں وغیرہ میں اس قرآن جیسی ہو آخر تم لوگ بھی عربی ہو عرب ک رہنے والے ہو عربی زبان سے واقف ہو پھر ہم تمہارے ساتھ اتنی رعایت اور کرتے ہیں کہ تم اپنے مدد گاروں کو بھی بلا لو اور تم سب مل کر ہمارے اس مطالبہ اور تحدی کا جواب دو شہید کے بہت سے معنی ہیں مجلس کا حاضر باش، مددگار ، گواہ ، امام ، مقتول فی سبیل اللہ وغیرہ۔ اس آیت میں شہدا سے مراد حمایتی اور اہل مجلس ہیں اور ہوسکتا ہے کہ معبود ان باطلہ مراد ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گواہ مراد ہوں تا کہ وہ یہ گواہی دیں کہ کفار مکہ جو جواب بنا کر لائے ہیں وہ واقعی قرآن کا جواب ہے اور یہ جو فرمایا من دون اللہ تودون کے اصل معنی تو قریب کے ہیں لیکن اس کے معنی میں توسیع ہوگئی ہے ۔ اب اس کے معنی ایک حد سے دوسری حد تک تجاوز کرنے کے آتے ہیں جیسا کہ تیسرے پارے میں ارشاد فرمایا ہے لا یتخذ المؤمنون الکافرین اولیاء من دون المؤمنین ۔ یعنی مسلمانوں کی موالاۃ اور دوستی سے کافروں کی دوستی کی طرف تجاوزنہ کرو یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی اپنے سب شہداء کو دعوت دے دو ۔ اگر تم سچے ہو ، پھر بطور پیشین گوئی کے فرماتے ہیں اگر تم نے ایسا نہ کیا اور چھوٹی سی سورت اس قرآن کی مثل نہ لائے اور تم لا بھی نہ سکو گے تو پھر اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی پتھر ہیں ، جیسا کہ سورة انبیاء میں فرمایا ۔ انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم یعنی تم اور تمہارے وہ معبود جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو سب دوزخ کا ایندھن ہیں ۔ وقود اس چیز کو کہتے ہیں جو آگ بھڑکانے کیلئے آگ میں ڈالی جائے ۔ جن بتوں کو یہ پوجا کرتے تھے وہ عام طور سے پتھر کے ہوتے تھے اس لئے ان بتوں کو بھی ان پجاریوں کے ساتھ جہنم میں جھونکا جائے گا تا کہ مشرکوں کو مزید عبرت ہو کہ یہ کیسے کمزور اور ذلیل معبود تھے کہ ہم کو تو کیا عذاب سے بچاتے خود بھی اسی عذاب میں مبتلا ہیں جس میں ہم گرفتار ہیں ۔ وہ آگ کافروں کے لئے تیار کی جا چکی ہے جیسا کہ محققین کا مسلک ہے کہ جنت و دوزخ اس وقت موجود ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب قرآن کا جواب تمام دنیا کے کافر مل کر نہیں دے سکتے اور سب عاجز ہیں تو یہ قرآن نبی کریم ﷺ کا ایک ایسا معجزہ ہے جو قیامت تک جاری رہنے والا ہے ۔ پھر آپ ﷺ کے رسول برحق ہونے میں اور قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں کون سے شک اور تردد کی گنجائش باقی ہے پھر اگر اس صاف دلیل اور واضح حجت کے بعد بھی پیغمبر ﷺ کی رسالت اور قرآن کی صداقت کے منکر ہوتے ہو تو پھر اس عذاب سے ڈرو جو کافروں کے لئے تیار کیا جا چکا ہے ، یہ انجام تھا نہ ماننے والوں کا۔ اب آگے پیغمبر ﷺ کی رسالت اور قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرنے والوں اور ان کے حکم کی تعمیل کرنے والوں کو اپنے پیغمبر کی معرفت بشارت اور خوش خبری دیتے ہیں ۔ تنبیہ آیت وان کنتم فی ریب میں من مثلہ کی ضمیر نبی کریم ﷺ کی جانب بھی پھر سکتی ہے ۔ اگر ضمیر کو حضور کی جانب پھیرا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جیسا یہ ہمارا بندہ امی اور ان پڑھ ہے ۔ اسی جیسے شخص سے تم سب مل کر ایک چھوٹی سی سورت بنوا لائو ۔ یعنی مفسرین نے اس معنی کو اختیار کیا ہے اور من مثلہ سے من مثل عبدنا مراد لی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ( تسہیل
Top