Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 24
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ١ۖۚ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ کرسکو وَلَنْ تَفْعَلُوْا : اور ہرگز نہ کرسکو گے فَاتَّقُوْا النَّارَ : تو ڈرو آگ سے الَّتِیْ : جس کا وَقُوْدُهَا : ایندھن النَّاسُ : آدمی وَالْحِجَارَةُ : اور پتھر أُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْکَافِرِیْنَ : کافروں کے لئے
لیکن اگر (ایسا) نہ کرسکو اور ہرگز نہیں کرسکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہونگے، (اور جو) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْاوَلَنْ تَفْعَلُوْا : (اگر تم نہ کرسکو اور تم ہرگز نہ کرسکو گے) سابقہ آیات سے ربط : ربط : جب ان کی رہنمائی اس جہت کی طرف کردی، جس سے نبی اکرم ﷺ کی سچائی پہچان سکیں تو انہیں فرمایا، اگر تم مقابلہ نہ کرسکو، اور تمہاری عاجزی ظاہر ہوجائے تو پھر (اصولاً ) اس کی تصدیق واجب ہوگئی۔ پس تم ایمان لائو۔ اور اس عذاب سے ڈر جائو۔ جو اس کے مکذبین اور معاندین کے لیے تیار کھڑا ہے۔ دو دلائل : اس میں اثبات نبوت کی دو دلیلیں ہیں۔ نمبر 1: جس سے چیلنج دیا جا رہا ہے وہ معجزہ ہے۔ نمبر 2: یہ خبر دے دینا کہ وہ مقابلے کی تاب نہیں لاسکتے۔ یہ غیب ہے جس کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں۔ کلمہ شک کی وجہ : جب ان کا عجز تأمل سے قبل ہی مشکوک کی طرح تھا اس لیے کہ ان کو اپنی فصاحت پر بھروسہ اور بلاغت پر اعتماد تھا۔ تو کلام ان کے ساتھ ان کے گمان کے مطابق کیا گیا۔ اور۔” اِنْ “ لائے جو شک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ” اذا “ نہیں لائے جو وجوب کے لیے آتا ہے اور الاتیان کو فعل سے تعبیر کیا۔ اس لیے کہ یہ من جملہ افعال میں سے ایک فعل ہے اور اس میں فائدہ یہ ہے کہ یہ کنایہ کے قائم مقام ہے جس سے عبارت میں اختصار حاصل ہوتا ہے اگر الاتیان کی بجائے فعل نہ لاتے تو کلام یوں طویل ہوتا۔ فان لم تاتوا بسورۃ من مثلہ ولن تاتوا بسورۃ من مثلہ۔ (دونوں کلاموں میں جو فرق ہے وہ صاحب عقل سے مخفی نہیں) ۔ نحوی تحقیق : نحو : لن تفعلوا کا کوئی محل اعراب نہیں اس لیے کہ یہ معترضہ جملہ ہے اور جملہ معترضہ بھی خوب ہے کہ ان حرف تردد تھا تو اس جملے سے لن تفعلوا کہہ کر تردد کو ھباء منثورا کردیا۔ تحقیق نحوی : لا، لن مستقبل میں ہم مثل ہیں البتہ لن میں تاکید زیادہ ہے۔ خلیل نحوی : کے ہاں اس کی اصل لا، ان ہے اور فراء کے ہاں لا کے الف کو نون سے بدل دیا۔ سیبویہ : کے ہاں یہ حرف نفی مستقبل کی تاکید کیلئے اپنی اصل وضع کے ساتھ ہی ہے۔۔ : اخبارغیب سے ہے اس ساری حقیقت کے ساتھ پھر یہ معجزہ بھی بن گیا۔ کیونکہ اگر انہوں نے اس کا کچھ بھی مقابلہ کیا ہوتا تو ضرور مشہور ہوتا۔ اور کیوں نہ مشہور ہوتا جبکہ منکرین اور طعنہ زنی کرنے والوں کی کثرت تھی۔ آیت میں آگ سے بچنے کے لیے اس جیسی سورة کے لانے کی نفی کرنا شرط قرار دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ نہ لائے تو معارضہ سے انکی عاجزی خوب ظاہر ہوگئی۔ اور رسول اللہ ﷺ کی سچائی ثابت ہوگئی۔ پھر انہوں نے عناد کو لازم کر کے آپ کی اطاعت سے انکار کردیا۔ فائدہ ایجاز : جس کی بناء پر انہوں نے آگ کو اپنے لیے واجب کرلیا۔ پس انہیں کہا گیا۔ اگر تمہاری عاجزی ظاہر ہوگئی ہے تو عناد کو ترک کرو۔ اس کی بجائے۔ فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ : (پس تم بچو اس آگ سے) کہہ دیا۔ اسلئے کہ آگ سے بچنا عناد کو ترک کردینے کے سبب ہی ہوسکتا ہے۔ اور یہ بات کنایہ میں سے ہے جو بلاغت کا حصہ ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ایجاز حاصل ہوا جو قرآن کا زیور ہے۔ الوقود : (ایندھن) جس سے آگ بھڑکتی ہے یعنی لکڑیاں۔ جب یہ مصدر ہو تو مضموم ومفتوح دونوں طرح آتا ہے۔ ایک سوال : سوال : الذی، التی کا صلہ ضروری ہے کہ مخاطب کو معلوم ہو۔ جواب : ممکن ہے کہ انہوں نے اہل کتاب سے سنا ہو یا رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو۔ یا اس سے پہلے یہ آیت : نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ۔ سورة التحریم آیت نمبر 6 انہوں نے سنی ہو۔ نکتہ : تحریم میں نار کو نکرہ لائے اور فاتقوا النار میں معرفہ لائے کیونکہ پہلی آیت مکہ میں اتری پھر یہ آیت مدینہ منورہ میں اتری۔ اس سے اس طرف اشارہ کردیا گیا۔ جس کو وہ پہلے پہچان چکے تھے۔ اب آیت : الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ کا معنی یہ ہے کہ وہ آگ دوسری آگوں سے ممتاز ہے۔ اس لیے کہ وہ لوگوں اور پتھروں سے جلتی ہے اور وہ پتھر گندہک کے جن کی آگ بہت تیز جلنے والی اور دیر سے بجھنے والی ہے اور شدید بدبو والی اور بدن کو زیادہ لپٹنے والی ہے یا پوجے ہوئے بت وہ حسرت کو بڑھانے کے لیے (ان سے آگ جلائی جائے گی) لوگوں کو پتھروں سے ملایا کیونکہ انہوں نے ان پتھروں سے دنیا میں اپنے آپ کو ملایا۔ اس طرح کہ انکی عبادت کی۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنادیا۔ اور اس کی مثل ہے اللہ تعالیٰ کا وہ ارشاد جو سورة الانبیاء آیت نمبر 98 اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ میں ہے۔ یعنی اس کی لکڑی ان کو اس کے ساتھ ملایا۔ جہنم میں گرم کرنے کے لیے اور ان کے دکھ میں مبالغہ کے لیے۔ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ : (وہ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے اس میں دلیل ہے کہ آگ مخلوق ہے اس کے بر خلاف فرقہ جہمیہ کہتے ہیں (یہ جہم بن صفوان گمراہ آدمی تھا اس کو نصربن سیار نے 128 ھ میں جہنم رسید کیا)
Top