Al-Qurtubi - Al-Baqara : 24
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ١ۖۚ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ کرسکو وَلَنْ تَفْعَلُوْا : اور ہرگز نہ کرسکو گے فَاتَّقُوْا النَّارَ : تو ڈرو آگ سے الَّتِیْ : جس کا وَقُوْدُهَا : ایندھن النَّاسُ : آدمی وَالْحِجَارَةُ : اور پتھر أُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْکَافِرِیْنَ : کافروں کے لئے
لیکن اگر (ایسا) نہ کرسکو اور ہرگز نہیں کرسکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہونگے، (اور جو) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے
آیت نمبر 24 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فان لم تفعلوا یعنی اگر تم یہ چیلنج پورا نہ کرسکو۔ ولن تفعلوا یعنی تم اس کی ہرگز طاقت نہیں رکھو گے۔ اس صورت میں صدقین پر وقف، وقف تام ہوگا۔ اکثر مفسرین نے کہا : آیت کا معنی یہ ہے تم اپنے حمایتیوں کو بلاؤ اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو اور تم ایسا ہرگز نہیں کرسکو گے۔ اگر تم ایسا نہ کرسکو تو آگ سے ڈرو۔ اس تفسیر پر صدقین پر وقف مکمل نہ ہوگا۔ اگر کہا جائے کہ لم پر ان کیسے داخل ہوا حالانکہ ایک عامل، دوسرے عامل پر داخل نہیں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان لفظ میں عاملہ نہیں ہے۔ پس یہ لم پر داخل ہوگیا جیسے کہ یہ ماضی پر داخل ہوجاتا ہے، لم میں یہ عمل نہیں کر رہا جس طرح یہ ماضی میں عمل نہیں کرتا۔ پس ان لم تفعلوا کا معنی ہے : ان ترکتم الفعل اگر تم یہ فعل چھوڑ دو ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولن تفعلوا۔ لن کے ساتھ فعل منصوب ہے عربوں میں سے کچھ لوگ اسے جزم دیتے ہیں۔ ابو عبیدہ نے جزم والا قول ذکر کیا ہے۔ اسی سے نابغہ کا شعر ہے۔ فلن اعرض ابیت اللعن بالصفد (1) میں جناب کے فضائل عطا کی خاطر بیان نہیں کر رہا۔ حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث میں ہے، جب انہیں خواب میں آگ کی طرف جا یا گیا۔ حضرت ابن عمر نے کہا : مجھے کہا گیا : لن ترع (تم نہ ڈرو) یہ اسی لغت کے مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ولن تفعلوا میں ان کے ارادوں کو ابھارنا اور ان کے نفوس کو حرکت دینا ہے تاکہ اس کے بعد ان کا عجز پھر سے ظاہر ہوجائے، یہ ان غیوب سے ہے جن کی خبر قرآن نے ان کے وقوع سے پہلے دی (2) ۔ ابن کیسان نے کہا : ولن تفعلوا ان کو اس بات سے روکنا ہے کہ یہ قرآن حق ہے اور وہ اپنے اس گمان میں سچے نہیں ہیں کہ یہ قرآن جھوٹ ہے اور یہ گھڑا گیا ہے اور یہ جادو ہے اور یہ شعر ہے اور یہ پہلے لوگوں کے قصے، کہانیاں ہے وہ علم کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ اس کی مثل ایک سورت بھی پیش نہیں کرسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فاتقوا النار یہ فان لم تفعلوا کا جواب ہے یعنی نبی کریم ﷺ کی تصدیق اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے آگ سے بچو۔ التقویٰ کا معنی پہلے گزر چکا ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تمیم اور اسد قبائل کی لغت فتقوا النار ہے۔ سیبویہ نے بیان کیا ہے : تقی یتقی جیسے قضیٰ یقضی۔ النار مفعول ہے التی اس کی صفت ہے۔ التی میں تین لغات ہیں التی، اللیت (تاء کے کسرہ کے ساتھ) اللت (تاء کے سکون کے ساتھ) یہ مؤنث کے لئے اسم مبہم ہے اور یہ معرفہ ہے اس کو نکرہ بنانے کے لئے اس سے الف لام ہٹانا جائز نہیں ہے اور اس کا مفہوم مکمل نہیں ہوتا مگر صلہ کے ساتھ۔ اس کے تثنیہ میں بھی تین لغات ہیں : اللتان، اللتا (نون کے حذف کے ساتھ) اللتان (نون کی تشدید کے ساتھ) اس کی جمع میں پانچ لغات ہیں : اللاتی، یہ قرآن کی لغت ہے، اللات (تاء کے کسرہ کے ساتھ بغیر یاء کے) اللواتی، واللوات (بغیر یاء کے ) ۔ ابو عبیدہ نے کہا : من اللواتی واللتی واللاتی زعمن ان قد کبرت لداتی ان سب کا گمان ہے کہ وہ سب عمر رسیدہ ہوچکی ہیں۔ اللوا، (تاء کے سقوط کے ساتھ) یہ جوہری نے حکایت کیا ہے۔ ابن شجری نے یہ زیادہ کیا ہے اللائی (ہمزہ اور یاء کے اثبات کے ساتھ) اور اللاء ( ہمزہ کے کسرہ اور یاء کے حذف کے ساتھ) واللا (ہمزہ کے حذف کے ساتھ) اگر تو اس کی جمع الجمع بنائے تو تو اللاتی میں کہے گا : اللواتی۔ اور اللائی میں کہے گا : اللوائی۔ اور جوہری نے کہا : التی کی تصغیر اللتیا (فتح اور تشدید کے ساتھ ) ۔ الراجز نے کہا : بعد اللتیا واللتیا والتی اذا عل تھا انفس تردت ان کے بعد جب وہ بلند پر پہنچیں بعض شعراء نے التی پر حرف ندا داخل کیا اور حرف ندا ایسے اسم پر داخل نہیں ہوتا جس پر الف لام ہوتا ہے مگر صرف یا اللہ میں۔ گویا اس نے اسے اسم جلالت سے تشبیہ دی ہے اس حیثیت سے الف لام اس سے بھی جدا نہیں ہوتا۔ شاعر نے کہا : من اجلک یا التی تیمت قلبی وانت بخیلۃ بالود عنی تیری وجہ سے اے وہ محبوبہ ! تو نے میرے دل کو غلام بنا لیا ہے جبکہ مجھ سے محبت کرنے میں بخل کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے : وقع فلان واللتیا والتی۔ یہ دونوں مصیبت کے اسماء میں سے ہیں۔ یعنی فلاں مصیبت میں واقع ہوا۔ الوقود، اس کا معنی لکڑی، ایندھن ہے، جبکہ واو کے فتحہ کے ساتھ ہو اور واو کے ضمہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی روشن ہوتا ہے۔ الناس اس میں عموم ہے لیکن مراد خاص لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ وہ آگ کا ایندھن ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس آگ سے بچائے۔ الحجارۃ یہ سیاہ گندھک کا پتھر ہے۔ حضرت ابن مسعود اور فراء سے یہ مروی ہے، اس پتھر کو خاص کیا گیا ہے کیونکہ یہ عذاب دینے میں پانچ اعتبار سے دوسرے تمام پتھروں سے زیادہ ہے، جلدی جلتا ہے، بدبودار ہے، دھواں زیادہ ہوتا ہے، بدن کے ساتھ سختی سے چمٹ جاتا ہے، جب گرم ہوتا ہے تو باقی تمام پتھروں سے زیادہ گرم ہوتا ہے (1) ۔ وقودھا الناس والحجارۃ میں یہ کوئی دلیل نہیں ہے انسان اور پتھر کے علاوہ اس آگ میں کچھ نہ ہوگا۔ کیونکہ دوسری آیات میں جنوں اور شیاطین کے آگ میں ہونے کا ذکر ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : الحجارۃ سے مراد بت ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم (الانبیاء :98) (تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو اللہ کو چھوڑ کر جہنم کا ایندھن ہیں ) ۔ اس اعتبار سے پتھر اور لوگ آگ کا ایندھن ہوں گے یہ آگ کی بڑائی کے لئے ذکر فرمایا ہے کہ وہ آگ اتنی سخت ہے کہ لوگوں کو جلانے کے ساتھ ساتھ پتھروں کو بھی جلا دیتی ہے۔ پہلی تاویل پر انہیں آگ اور پتھروں کے ساتھ عذاب دیا جائے گا۔ حدیث پاک میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ہر اذیت دینے والا آگ میں ہے اور اس تاویل میں دو وجہیں ہیں : (1) جو دنیا میں لوگوں کو اذیت دے گا اللہ تعالیٰ آخرت میں اسے آگ سے عذاب دے گا۔ (2) وہ لوگ جو دنیا میں درندوں وغیرہ کو آگ میں عذاب دیتے ہیں وہ دوزخیوں کی سزا کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ بعض اہل تاویل کا یہ خیال ہے کہ یہ آگ جو پتھروں کے ساتھ خاص ہے یہ خاص کافروں کی آگ ہے۔ واللہ اعلم۔ مسلم نے حضرت عباس بن عبد المطلب سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ابو طالب آپ کی حفاظت کرتے ہیں اور آپ کی مدد کرتے ہیں، کیا یہ خدمت انہیں کچھ نفع دے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔ میں نے اسے آگ کی سختیوں میں پایا پھر میں نے اسے چھوٹے سے گڑھے کی طرف نکال دیا۔ ایک روایت میں ہے اگر میں نہ ہوتا تو وہ آگ کے نچلے درجے میں ہوتے (1) ۔ وقود یہ ترکیبی اعتبار سے مبتدا ہے اور النار اس کی خبر ہے اور الحجارۃ اس پر معطوف ہے۔ حضرات حسن، مجاہد، طلحہ بن مصرف نے اسے وقو دو او کے فتحہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ایندھن ہے اور واو کے ضمہ ساتھ ہو تو اس کا معنی جلانا ہے۔ کہا جاتا ہے : وقدت النار تقد وقوداً ووقداً وقدۃً ووقیداً ووقداً ووقداناً یعنی آگ روشن ہوئی، اوقد تھا انا واستو قد تھا میں نے آگ کو جلایا۔ الاتقاد، التوقد کی مثل ہے یعنی روشن ہونا۔ اسم ظرف موقد ہے جیسے مجلس، النار موقدۃ، آگ جلائی گئی۔ الوقدۃ۔ سخت گرمی کو کہتے ہیں یہ دس دن یا پندرہ دن ہیں۔ نحاس نے کہا : اس صورت میں اسے وقود واو کے فتحہ کے ساتھ پڑھنا واجب ہے کیونکہ اس کا معنی ایندھن ہے۔ لیکن اخفش نے کہا : حکایت کیا گیا ہے کہ بعض عرب وقود اور دقود دونوں کو ایندھن اور مصدر کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ نحاس نے کہا : اکثر علماء کا پہلا قول ہے۔ مثال دی کہ وضوء واو کے فتحہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی پانی ہے اور ضمہ کے ساتھ ہو تو مصدر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اعدت للکفرین اس ارشاد کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے علاوہ اس میں داخل نہ ہوں گے حالانکہ حقیقت ایسی نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ دوسرے مواقع پر گنہگاروں کے لئے وعید آئی ہے اور احادیث جو شفاعت کو ثابت کرتی ہیں ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ گنہگار مسلمان بھی آگ میں جائیں گے۔ اس آیت میں اہل حق کے قول کی دلیل ہے کہ آگ موجود ہے اور تخلیق ہوچکی ہے جبکہ معتزلہ کا قول اس کے مخالف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ابھی تخلیق نہیں ہوئی ہے۔ اسی قول کو قاضی منذر بن سعید البلوطی الاندلسی نے بھی اختیار کیا ہے۔ مسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اچانک آپ ﷺ نے ایک آواز سنی۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا : تم جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ ہم نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ایک پتھر ہے جو ستر سال پہلے سے دوزخ کی آگ میں پھینکا گیا ہے وہ اب تک آگ میں گرتا ہے حتیٰ کہ اس کی گہرائی تک پہنچ گیا ہے (1) ۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگ اور جنت کا مناطرہ ہوا۔ آگ نے کہا : میرے اندر جابر اور متکبر لوگ داخل ہوں گے اور جنت نے کہا : میرے اندر ضعیف اور مسکین لوگ داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کو فرمایا : تو میرا عذاب ہے تیرے ساتھ جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا اور جنت سے فرمایا : تو میری رحمت ہے جس کو چاہوں گا تیرے ساتھ اس پر رحمت کروں گا۔ تم میں سے ہر ایک نے بھرنا ہے (2) ۔ مسلم نے اس کا مفہوم نقل کیا ہے۔ کہا جاتا ہے : احتجت بمعنی تحتج ہے۔ اس کی وجہ حضرت ابن مسعود کی حدیث کا مفہوم ہے۔ نیز نبی کریم ﷺ کو جنت اور دوزخ نماز کسوف میں دکھائی گئیں۔ اسی طرح شب معراج میں جنت اور دوزخ کو دیکھا اور آپ ﷺ جنت میں داخل بھی ہوئے (3) ۔ پس جو اس کا مخالف قول کرے اس کا کوئی اعتبار نہیں سب توفیق اللہ کی طرف سے ہے۔ اعدت یہ ہو سکتا ہے کہ یہ النار سے معدۃ کے معنی میں حال ہو اور قد مضمر ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : او جاء وکم حصرت صدورھم (النساء :90) اس کا معنی ہے : قد حصرت صدورھم۔ حالانکہ قد مضمر ہے قد کے اضمار کا قول اس لئے کیا ہے کیونکہ ماضی قد کے ساتھ حال ہوتا ہے۔ اس صورت میں الحجارۃ پر وقف تام نہ ہوگا اور یہ بھی جائز ہے کہ اعدت کا ماقبل کلام سے کوئی تعلق نہ ہو، جیسے فرمایا وذلکم ظنکم الذی ظننتم بربکم اردکم (فصلت :23) (اور تمہارے اس گمان نے جو تم اپنے رب کے بارے میں کیا کرتے تھے انہیں ہلاک کردیا) ۔ سبحستانی نے کہا : اعدت للکفرین، التی کے صلہ سے ہے جیسا کہ سورة آل عمران میں فرمایا واتقوا النار التی اعدت للکفرین۔ (آل عمران) (اور ڈرو اس آگ سے جو تیار کی گئی ہے کافروں کے لئے) ابن انباری نے کہا : یہ غلط ہے کیونکہ سورة بقرہ میں التی کا صلہ وقودھا الناس موجود ہے۔ پس اسے دوسرے صلہ کے ساتھ ملانا جائز نہیں اور سورة آل عمران میں اعدت کے علاوہ کوئی صلہ ہے ہی نہیں۔
Top