Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 24
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ١ۖۚ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ کرسکو وَلَنْ تَفْعَلُوْا : اور ہرگز نہ کرسکو گے فَاتَّقُوْا النَّارَ : تو ڈرو آگ سے الَّتِیْ : جس کا وَقُوْدُهَا : ایندھن النَّاسُ : آدمی وَالْحِجَارَةُ : اور پتھر أُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْکَافِرِیْنَ : کافروں کے لئے
پھر اگر تم یہ نہ کرسکو اور ہرگز نہ کرسکو گے تو تم اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے
مخالفین کی بےبسی تشریح : جیسا کہ پچھلی آیت میں کفار و منافین کو دعوت دی گئی ہے کہ اگر تم قرآن کی صداقت سے انکار کرتے ہو تو چلو تمام ملائیکہ جن وانس سب عالم و فاضل جمع ہوجاؤ اور صرف ایک آیت، قرآن مجید کی آیات کی طرح جامع و مکمل، فصاحت و بلاغت سے بھرپور مضمون کی حامل بنا کرلے آئو تو اس پر سب مخالفین لاچار ہوگئے تو اس بےبسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ ان کو متنبہ کرتا ہے کہ تمہاری اس بےبسی سے ظاہر ہوگیا کہ تم غلطی پر ہو اور اللہ قادر مطلق ہے اس نے اپنے بندے حضرت محمد ﷺ پر رشد و ہدایت سے بھرپور کتاب نازل کی ہے جو تمام سچائیوں، خوبیوں، فصاحت و بلاغت اور راہنمائیوں کا مجموعہ ہے یہ کتاب تمام نوع انسانی کے مسائل حل کرتی ہے نجات کا ذریعہ بتاتی ہے اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے کے گر سکھاتی ہے اور آخر میں اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس سزا کا ذکر کرتا ہے جو جہنم کی صورت میں مشرکوں اور کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے جہنم کی آگ کا تذکرہ خاص طور سے کیا گیا ہے کہ اس کا ایندھن انسان اور پتھر ہونگے۔ جیسا کہ قرآن کا طریقہ ہے کہ چھوٹے جملے میں بہت بڑا راز بیان کردیتا ہے۔ ” انسان اور پتھر کا ایندھن “ اس میں انتہائی اہم سائنسی نکتہ بتایا گیا ہے یہ بات سائنسی تحقیق نے ثابت کی ہے کہ انسان اور پتھر کا ایندھن ممکن ہے انسان اور پتھر کیا ہیں ؟ اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :” ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن پتھر اور انسان ہیں “ اس کی توضیح کردی گئی ہے ذرا اس وضاحت کو اور بھی آسان پیرائے میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔ اصل میں جلنے کا عمل کاربن اور آکسیجن کے ملنے سے ہوتا ہے۔ جلنے کا ایک عمل اور بھی ہے جو ایٹمی ذرات پر مبنی ہے اس عمل سے ایٹمی ری ایکٹرو، ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں میں مادہ توانائی بن کر جلتا ہے اور نہایت تھوڑے مادے سے بہت زیادہ توانائی پیدا ہوتی ہے۔ کیمیائی عمل کے مقابلہ میں یہ دس لاکھ گنازیادہ تیز عمل ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوزخ میں توانائی کا عمل ایٹمی ہوگا۔ جس کی ایک جھلک ہمارا سورج ہے۔ یہاں فیوژن کے عمل سے مادہ توانائی میں بدلتا رہتا ہے۔ مختصر یہ کہ انسان اور پتھر سے جلائی گئی آگ نہ تو کم ہوگی اور نہ ہی ٹھنڈی ہوگی۔ استغفر اللہ یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی کہ اگر اللہ غفور الرحیم ہے تو جبار وقہار بھی اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے قہر سے بچائے آمین ثم آمین ہمیشہ اپنے پاکباز بندوں میں شامل رکھے۔ آمین۔ ان کو مادہ یا میٹر کہتے ہیں ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ مادہ کا سب سے چھوٹا ذرہ ایٹم کہلاتا ہے سب انسان، پتھر، پہاڑ وغیرہ ایٹم سے بنے ہوئے ہیں۔ توانائی کیا ہے ؟ اسے عام الفاظ میں Energy کہتے ہیں توانائی نہ تو بنائی جاسکتی ہے اور نہ ہی تباہ کی جاسکتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے۔ Energy can never be created or destroyed= (Priniciple of conscruation of energy) it can only change into different forms. Potential energy, kinetic energy heat energy etc. اگر ہم کسی چیز کی رفتار تیز کریں تو گویا ہم اس کو Energy دے رہے ہیں۔ مگر وہ توانائی اس کے Mass کیمیت (مادے کا سب سے چھوٹا ذرہ) میں شامل ہو رہی ہے۔ یہ بات آئن سٹائن کے مشہور فارمولے Emc2 سے ثابت ہوتی ہے۔ E=energy, m = mass, e = speed of light 300, 000, 000 m P s, E=mc2 Emc2 اس سے ثابت ہوتا ہے کہ توانائی اور م اس آپس میں بدل سکتے ہیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں ہر مادہ توانائی میں تبدیل ہوسکتا ہے اور چونکہ انسان اور پتھر بھی مادے سے بنے ہوئے ہیں تو یہ بھی توانائی دے سکتے ہیں نہ ختم ہونے والی توانائی اگر اسلامی سائنس دان البیرونی اور جابر جیسے لوگوں کو اس سنہری دور کو جاری رکھنے کا موقع مل جاتا تو ہم ایٹمی یا نیو کلیائی فژن کو اب سے پانچ صدیاں قبل ہی دریافت کرچکے ہوتے۔ آیئے اب ہم پھر تشریح کی طرف آتے ہیں۔ انسانوں اور پتھروں کا یک مشت اور وسیع پیمانے پر ایک عظیم توانائی اور مہیب مقدار کی تپش میں تبدیل ہوجانے کے عمل سے گزار کر ہی اللہ انسان کو اپنی قدرت کاملہ کے ذریعے نجات عطا کرے گا دوزخ ایک لیبارٹری کی طرح گمراہ اور گناہ گار لوگوں کو پاک صاف کر دے گی اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا پاک نظام ربوبیت انسان کو جو کائنات کا راہ گم کردہ بچہ ہے پاک اور صاف کردینے کے ساتھ ساتھ اس کو سزا بھی دیتا رہے گا۔ چناچہ یہی وہ معنی ہیں جو انسان کے ایندھن ہونے کے راز میں پنہاں ہیں “۔ یہ تمام تشریح ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب کی کتاب سے اخذ کی گئی ہے امید ہے ایک اچھے اور ایک بگڑے ہوئے دونوں طرح کے انسانوں کے لئے نصیحت اور فضیحت کی یہ آیت کہ ” ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہونگے “ اپنے محاسبہ اور راہوں کے تعین کے لئے بہت بڑی اطلاع ہے اور یہ اطلاع خدائے واحد کی طرف سے بذریعہ نبی کریم ﷺ قرآن کی صورت میں دی گئی ہے جو برحق محکم اور نہ ٹلنے والی ہے جو ہو کر رہے گی اللہ اس مہیب اور شدید آگ سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے آمین۔ حضرت ابوبکر کا قول ہے : ” گناہ کو نہ دیکھو کہ وہ کتنا چھوٹا ہے بلکہ اس اللہ کی بڑائی کو دیکھو جس کی نافرمانی کی جارہی ہے “۔ اس کی عطائوں پر الحمدللہ اور اپنی خطائوں پر استغفر اللہ کرتے ہی رہنا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تمام کافر اور وہ پتھر کے بت جن کی وہ پرستش کرتے ہیں جہنم کا ایندھن ہونگے۔
Top