Kashf-ur-Rahman - Al-Muminoon : 53
فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًا١ؕ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ
فَتَقَطَّعُوْٓا : پھر انہوں نے کاٹ لیا اَمْرَهُمْ : اپنا کام بَيْنَهُمْ : آپس میں زُبُرًا : ٹکڑے ٹکڑے كُلُّ حِزْبٍ : ہر گروہ بِمَا : اس پر جو لَدَيْهِمْ : ان کے پاس فَرِحُوْنَ : خوش
پھر لوگوں نے پھوٹ ڈال کر اپنا دین آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا اب ہر فرقہ کے لوگوں کے پاس جو دین ہے وہ اسی پر خوش اور مگن ہیں
(53) دین کی وحدت اور اپنی ربوبیت اور تقوے کا اظہار کرنے کے بعد اشاد ہوتا ہے پھر لوگوں نے پھوٹ ڈال کر اپنا دین آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا اب ہر فرقہ کے لوگوں کے پاس جو دین ہے وہ اسی پر خوش اور مگن ہورہے ہیں یعنی چاہئے تو یہ تھا کہ سب لوگ ایک ہی دین پر قائم رہتے اور پیغمبروں کے زمانے میں جو وقتی طور پر فروعی مسائل میں کچھ اختلافات ضرورت کے اعتبار سے ہوتے ہیں ان سے متاثر نہ ہوتے اور اصول میں سب ایک رہتے لیکن ہوا یہ کہ لوگوں نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے آپس میں بانٹ لئے اور اب ہر فرقہ اپنی شریعت الگ بنائے بیٹھا ہے اور اسی پر مگن ہورہا ہے اور سمجھ رہا ہے کہ بس حق میرے ہی پاس ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ہر پیغمبر کے ہاتھ اللہ نے جو اس وقت کے لوگوں میں بگاڑ تھا سنوار فرمایا ہے پیچھے لوگوں نے جانا ان کا حکم جدا جدا ہے آخر پیغمبر کے ہاتھ سب بگاڑ کا سنوارا کھٹا بتادیا اب سبمل کر ایک دین ہوگیا۔ 12 یعنی لوگوں کی خرابی کو دور کرنے کی غرض سے جو ہر پیغمبر کو اصلاحی باتیں بتائی گئی تھیں وہ محض وقتی تھیں اور ان لوگوں کے لئے خاص تھیں جن کی برائی اور خرابی کو دور کرنے کی غرض سے اس پیغمبر کو بھیجا گیا تھا وہ کوئی مستقل دین نہ تھا۔ لوگ اپنی نادانی اور خوش فہمی سے یہ سمجھ گئے کہ ہو پیغمبر کا دین جدا جدا ہے پھر انہوں نے باہم ٹکڑے ٹکڑے کرکے پیغمبروں کی تعلیم کو باہم تقسیم کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کو ایک مستقل قانون دے کر بھیجا تاکہ قیامت تک وہ قانون کام دے۔ دین کی اصل تو ایک ہی تھی فروعی مسائل کے لئے بھی دین کی تکمیل کردی گئی اور اب سب کا ایک ہی دین ہوگیا لیکن لوگ اتنی صاف بات کو بھی نہیں سجھتے اور ہر فرقہ اپنے حصہ پر ریجھ رہا ہے اور اپنی جہالت اور حماقت سے اسی کو دین سمجھ رہا ہے جو اس کے پاس ہے تو آگے اس کا مداوا فرمایا۔
Top