Jawahir-ul-Quran - Al-Muminoon : 53
فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًا١ؕ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ
فَتَقَطَّعُوْٓا : پھر انہوں نے کاٹ لیا اَمْرَهُمْ : اپنا کام بَيْنَهُمْ : آپس میں زُبُرًا : ٹکڑے ٹکڑے كُلُّ حِزْبٍ : ہر گروہ بِمَا : اس پر جو لَدَيْهِمْ : ان کے پاس فَرِحُوْنَ : خوش
پھر پھوٹ ڈال کر کرلیا اپنا کام آپس میں ٹکڑے ٹکڑے45 ہر فرقہ46 جو ان کے پاس ہے اس پر ریجھ رہے ہیں
45:۔ ” فَتَقَطَّعُوْا الخ “ یہ جواب سوال مقدر ہے سوال یہ تھا جب تمام انبیاء (علیہم السلام) کی ملت ایک تھی اور سب توحید پر متفق تھے تو یہ اختلاف کس طرح پیدا ہوگیا تو اس کا جواب دیا گیا کہ سب لوگوں اور امتوں کے لیے اللہ نے ایک ہی دین مقرر فرمایا تھا اور تمام انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں کی بنیاد توحید پر تھی لیکن امتوں کے دنیا پرست عالموں اور دین حق کے باغی مولویوں نے اللہ کی توحید میں اختلاف ڈال دیا۔ اور دین واحد کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے اور لوگوں کو مختلف اور متضاد فرقوں میں تقسیم کردیا۔ ” فَتَقَطَّعُوْا “ کی ضمیر فاعل باغی اور گمراہ پیشواؤں سے کنایہ ہے کیونکہ ہر زمانے میں انہوں نے ہی توحید میں اختلاف ڈالا جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ” وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْه اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَتْھُمُ الْبَیِّنٰت بَغْیًا بَیْنَھُمْ الایة “ (بقرہ ع 26) ۔ اور آل عمران (رکوع 2) میں فرمایا۔ ” وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَھُمْ الایة “۔ ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ یہ لوگوں کو مختلف فرقوں میں متفرق کرنے والے گمراہ اور باغی مولی اور پیر ہی تھے۔ ” زُبُرًا “ زبور کی جمع ہے جس کے معنی یہاں فرقہ اور جماعت کے ہیں۔ زبرا ای فرقا و قطعا مختلفۃ (خازن ج 5 ص 39) 46:۔ ” کُلُّ حِزْبٍ الخ “ ان مختلف فرقوں میں سے ہر فرقہ اپنے خود ساختہ دین و عقیدہ پر مطمئن ہے اپنے کو حق پر اور دوسروں کو باطل پر سمجھتا ہے۔ والمراد انھم معجوبون بہ معتقدون انہ الحق (روح ج 18 ص 42) ۔
Top