Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 53
فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًا١ؕ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ
فَتَقَطَّعُوْٓا : پھر انہوں نے کاٹ لیا اَمْرَهُمْ : اپنا کام بَيْنَهُمْ : آپس میں زُبُرًا : ٹکڑے ٹکڑے كُلُّ حِزْبٍ : ہر گروہ بِمَا : اس پر جو لَدَيْهِمْ : ان کے پاس فَرِحُوْنَ : خوش
تو پھر آپس میں اپنے کام کو متفرق کرکے جدا جدا کردیا۔ جو چیزیں جس فرقے کے پاس ہے وہ اس سے خوش ہو رہا ہے
فتقطعوا امر ہم بینہم زبرا کل حزب بما لدیہم فرحون۔ سو لوگوں نے اپنے دین میں (اپنا طریق الگ الگ کر کے) اختلاف پیدا کرلیا۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ دین ہے وہ اسی پر اترائے ہوئے ہیں ‘ یعنی جن لوگوں کے پاس پیغمبروں کو بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے پیغمبروں کے بعد دین میں تفرقہ پیدا کرلیا اور ایک دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اصولی اختلاف دین بنا لیا اور ایک دین کے چند دین بنا لئے کوئی تو تمام پیغمبروں کی اور ان کے لائے ہوئے احکام کی تصدیق کرتا رہا۔ یہ ہر زمانے میں اہل حق کا گروہ رہا اور کچھ لوگ کسی پیغمبر اور کسی حکم پر ایمان لائے۔ دوسرے انبیاء و احکام کا انکار کردیا ‘ جیسے یہودی اور عیسائی اور صابی۔ بعض نے سب ہی کا انکار کردیا جیسے مجوسی اور بت پرست۔ مذکورہ بالا تفسیری مطلب اس صورت میں ہوگا جب تَقَطَّعُوْا کو قَطَّعُوْا کے معنی میں مانا جائے ( تَفُضُّلبمعنی تفعیل آتا ہے لیکن یہ بھی جائز ہے کہ اَمْرَہُمْسے پہلے حرف جر (فی) محذوف ہو۔ اس صورت میں یہ مطلب ہوگا کہ وہ دین کے معاملہ میں پارہ پارہ ہوگئے۔ گروہ گروہ بن گئے اور ایک دین کے انہوں نے بکثرت دین بنا لئے۔ تَقَطَّعُوْا اور اَمْرَہُمْاور بَیْنَہُمْکی ضمیریں ان لوگوں کی طرف راجع ہیں جن کے پاس پیغمبروں کو بھیجا گیا تھا ‘ مثلاً حضرت نوح کی قوم کے متعلق فرمایا تھا۔ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ ۔ یا۔ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَاَرْسَلْنَا فِیْہِمْ رُسُلُنَا تَتْرٰی۔ زبُرًاگر وہ گروہ۔ فرقہ فرقہ ‘ ٹکڑے ٹکڑِ ۔ زبر۔ زبور کی جمع ہے۔ زبور کا معنی ہے ٹکڑا ‘ فرقہ۔ زُبُرَ الْحَدِیْدلو ہے کے ٹکڑے۔ بعض علماء نے زبراً کا ترجمہ کیا ہے کتابیں۔ زبرت الکتاب میں نے جلی حروف میں کتاب لکھی ‘ ہر جلی موٹے حروف کی کتاب کو زبور کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا دین پہلے ایک کتاب کی شکل میں تھا جو اللہ کی طرف سے نازل کی گئی تھی لیکن انہوں نے اس کی متعدد تحریف کردہ کتابیں بنا ڈالیں۔ حسن نے اس طرح مطلب بیان کیا کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور بگاڑ دیا۔ بِمَا لَدَیْہِمْجو کچھ ان کے پاس تھا ‘ یعنی جو دین ان کے پاس تھا جو نفسانی خواہش ان کی تھی۔ فَرِحُوْنَاتراتے ہیں ‘ اپنے دین کو حق سمجھتے ہیں ‘ اسی پر مغرور ہیں۔
Top