Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 26
قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً١ۚ یَتِیْهُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا فَاِنَّهَا : پس یہ مُحَرَّمَةٌ : حرام کردی گئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَرْبَعِيْنَ : چالیس سَنَةً : سال يَتِيْھُوْنَ : بھٹکتے پھریں گے فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَلَا تَاْسَ : تو افسوس نہ کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
فرمایا تحقیق وہ زمین حرام کی گئی ہے ان پر چالیس برس سر مارتے پھریں گے ملک میں سو تو افسوس نہ کر نافرمان لوگوں پر1
1 یعنی جدائی کی دعا حسی اور ظاہری طور پر تو قبول نہ ہوئی۔ ہاں معناً جدائی ہوگئی کہ وہ سب تو عذاب الہٰی میں گرفتار ہو کر حیران و سرگرداں پھرتے تھے اور حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) پیغمبرانہ اطمینان اور پورے قلبی سکون کے ساتھ اپنے منصب ارشاد و اصلاح پر قائم رہے جیسے کسی بستی میں عام وبا پھیل پڑے اور ہزاروں بیماروں کے مجمع میں دو چار تندرست اور قوی القلب ہوں جو ان کے معالجہ، چارہ سازی اور تفقد احوال میں مشغول رہیں۔ اگر " فافرق بیننا " کا ترجمہ جدائی کر دے کی جگہ " فیصلہ کر دے " ہوتا تو یہ مطلب زیادہ واضح ہوجاتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ سب قصہ اہل کتاب کو سنایا اس پر کہ تم پیغمبر آخرالزمان کی رفاقت نہ کرو گے جیسے تمہارے اجداد نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رفاقت چھوڑ دی تھی اور جہاد سے جان چرا بیٹھے تھے تو یہ نعمت اوروں کو نصیب ہوگی چناچہ نصیب ہوئی۔ ایک لمحہ کے لئے اس سارے رکوع کو سامنے رکھ کر امت محمدیہ کے احوال پر غور کیجئے ان پر خدا کے وہ انعامات ہوئے جو نہ پہلے کسی امت پر ہوئے نہ آئندہ ہونگے۔ ان کے لئے خاتم الانبیاء سیدالرسل ﷺ کو ابدی شریعت دیکر بھیجا۔ ان میں وہ علماء اور ائمہ پیدا کئے جو باوجود غیر نبی ہونے کے انبیاء کے وظائف کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ ایسے ایسے خلفاء نبی ﷺ کے بعد امت کے قائد بنے جنہوں نے سارے جہان کو اخلاق اور اصول سیاست وغیرہ کی ہدایت کی۔ اس امت کو بھی جہاد کا حکم ہوا۔ عمالقہ کے مقابلہ میں نہیں روئے زمین کے تمام جبارین کے مقابلہ میں۔ محض سرزمین " شام " فتح کرنے کے لئے نہیں بلکہ شرق وغرب میں کلمۃ اللہ بلند کرنے اور فتنہ کی جڑ کاٹنے کے لئے بنی اسرائیل سے خدا نے ارض مقدسہ کا وعدہ کیا تھا لیکن اس امت سے یہ فرمایا (وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا) 24 ۔ النور :55) اگر بنی اسرائیل کو موسیٰ (علیہ السلام) نے جہاد میں پیٹھ پھیرنے سے منع کیا تھا تو اس امت کو بھی خدا نے اس طرح خطاب کیا (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَ ) 8 ۔ الانفال :15) انجام یہ ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے رفقا تو عمالقہ سے ڈر کر یہاں تک کہہ گزرے کہ (فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ :24) ۔ تم اور تمہارا پروردگار جا کر لڑ لو ہم یہاں بیٹھے ہیں لیکن اصحاب محمد ﷺ نے یہ کہا کہ خدا کی قسم اگر آپ سمندر کی موجوں میں گھس جانے کا حکم دیں گے تو ہم اسی میں کود پڑیں گے اور ایک شخص بھی ہم میں سے علیحدہ نہیں رہے گا۔ امید ہے کہ خدا آپ کو ہماری طرف سے وہ چیز دکھلائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی۔ ہم اپنے پیغمبر کے ساتھ ہو کر اس کے دائیں اور بائیں آگے اور پیچھے ہر طرف جہاد کریں گے۔ خدا کے فضل سے ہم وہ نہیں ہیں جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہہ دیا تھا (فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ :24) اسی کا نتیجہ ہے کہ جتنی مدت بنی اسرائیل فتوحات سے محروم ہو کر " وادی تیہ " میں بھٹکتے رہے اس سے کم مدت میں محمد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے مشرق و مغرب میں ہدایت و ارشاد کا جھنڈا گاڑ دیا۔ رضی اللّٰہ عنھم و رضواعنہ ذٰلک لمن خشی ربہ۔
Top