Kashf-ur-Rahman - Al-Qalam : 9
وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ
وَدُّوْا : وہ چاہتے ہیں لَوْ تُدْهِنُ : کاش تم سستی کرو فَيُدْهِنُوْنَ : تو وہ بھی سستی کریں۔ مداہنت کریں
یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اگر آپ بتوں کے بارے میں نرم ہوجائیں تو وہ بھی ڈھیلے پڑجائیں یعنی آپ کی مخالفت میں
(9) یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اگر آپ بتوں کے بارے میں نرم ہوجائیں تو وہ بھی آپ کی مخالفت میں ڈھیلے پڑجائیں۔ یعنی راہ پر آنے والے اور نہ آنے والے سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ لہٰذا دعوت و تبلیغ میں کسی کی رو و رعایت نہ ہونی چاہیے جس کو اسلام قبول کرنا اور ہدایت پانا ہے وہ پائے گا اور جس کو محروم رہنا ہے وہ محروم رہے گا ان کی خواہش یہ ہے کہ آپ کفر کے معاملہ میں مداہنت اختیار کریں اور سست اور ڈھیلے ہوجائیں اور کاہلی برتیں بتوں کی مخالفت میں نرم ہوجائیں تو یہ آپ کی مخالفت کم کردیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں کچھ ڈھیلے پڑجائیں اور توحید الٰہی کی مخالفت میں مداہنت برتیں۔ اس آیت میں ان کی خواہشات کا اظہار فرمایا اور مقصد یہ ہے کہ آپ ان سے اس قسم کا معاملہ نہ کریں اور مکذبین کا کہا نہ مانیں اور ان کی پروانہ کریں کچھ ہم سورة واقعہ کی تیسیر میں عرض کرچکے ہیں اور کچھ سورة کافرون میں انشاء اللہ آجائے گا۔ لہٰذا دین کے معاملے میں مساہلت اور مداہنت نہیں کی جاسکتی البتہ مدارات جس کو ہندوستان میں خاطر تواضع اور خاطر مدارت کہتے ہیں اصول انسانیت کی بناپر ہر مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ انفرادی یا اجتماعی طور پر جائز ہے غرض حسن سلوک اور خاطر مدارت اور چیز ہے اور مداہنت فی الدین اور چیز ہے اس لئے فرمایا کہ منکرین اور مکذبین کا کہنا نہ مان اور دین میں مداہنت نہ کر۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تو ان کے بتوں کو بھلا کہہ تو دے تیری باتوں کو پسند کریں۔ امام غزالی (رح) نے اپنی بعض تصانیف میں فرمایا ہے کہ مداہنت اور مدارات میں بہت باریک فرق ہے اب آگے بعض خاص کافروں کے اوصاف بیان فرما کر ان کی اطاعت سے خاص طور پر اپنے پیغمبر کو منع فرمایا۔
Top