Tafseer-e-Haqqani - Al-Qalam : 9
وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ
وَدُّوْا : وہ چاہتے ہیں لَوْ تُدْهِنُ : کاش تم سستی کرو فَيُدْهِنُوْنَ : تو وہ بھی سستی کریں۔ مداہنت کریں
وہ چاہتے ہیں آپ نرم پڑجائیں تو وہ بھی نرم پڑجائیں
ترکیب : فیدھنون عطف علی تدھن داخل فی حیزلووھو مبتداء محذوف ای فھم یدھنون و جواب لومحذوف وکذا مفعول ودّوا ای ودوا اوھانک لوتدھن فیدھنون ویمکن ان یکون فیدھنون مع المبتداء المحذوف جواب لووالشرط والجزاء الجملۃ مفعول ودوا وفی بعض المصاحف فید ھنوا بحذف النون علی انہ جواب التمنی المفھوم من ودوا ان کان الخ بالفتح مصدریۃ متعلق بقولہ ولاتطع ای لاتطع من ھذہ مثالبہ لان کان متمولا مستظہرا بالبنین۔ ھذا قول الفراء والزجاج و قریٔ ان بالکسر علی الشرط دجواب الشرط محذوف دل علیہ اذاتتلٰی ای ان کان ذومال یکفراولاتطع ایھا المخاطب کل حلاف شارطایسارہ اذاشرط قال جوابہ۔ تفسیر : اول بار آنحضرت ﷺ کو کفار کی اطاعت سے منع کیا تھا۔ بقولہ فلاتطع المکذبین اب اسی بات کو اور مؤکد کرتا ہے۔ فقال ودوا کہ وہ کفار چاہتے ہیں لوتدھن کہ اگر آپ مداہنت کر جائیں، حق سے چشم پوشی کر جائیں اور بت پرستی کی برائی نہ کریں تو فیدھنون وہ بھی آپ سے تشد دنہ کریں۔ گول گول باتیں کہنے میں کچھ ممانعت نہ کریں۔ مفسرین نے ان آیات کے متعلق نقل کیا ہے کہ ابوجہل اسود بن عبدیغوث واخنس بن شریق وغیرہ مکہ کے رئوسا آنحضرت ﷺ کی خدمت مبارک میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ اگر اس پندونصیحت سے آپ کی یہ غرض ہے کہ دنیا کی عیش و عشرت میسر آئے تو آپ فرمائیں ‘ اگر عورتوں سے رغبت ہے تو عمدہ سے عمدہ کنواری لڑکیاں آپ کے لیے حاضر کریں اور آپ جس سے فرمائیں نکاح کرا دیں۔ اگر دولت مقصود ہو تو ہم مال اور مواشی حاضر کریں۔ اگر سرداری مقصود ہے تو آپ ہماری قوم میں عالی نسب عقلمند ہیں، ہم آپ کو سردار بنا دیں۔ آپ نے فرمایا مجھے ان باتوں میں سے کوئی مطلوب نہیں، صرف تمہاری بھلائی مقصود ہے کہ تم ہلاکت میں نہ پڑو۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا آج تو آپ عبادت کیا کریں مگر بتوں کی مذمت اور ان کی پرستش سے منع نہ کریں۔ ہم بھی آپ پر طعن وتشنیع نہ کریں گے۔ آنحضرت ﷺ نے سکوت کیا تب یہ آیت نازل ہوئی۔ ودوا الوتدھن الخ۔ مگر ان سب کفار میں ولید بن المغیرہ بڑا بدذات تھا اس کی بدذاتی یہ تھی کہ جھوٹا، بات بات پر قسمیں کھانے والا، چغل خور، نیک کاموں سے روکنے والا، بدمزاج، سرکش حرامی تھا۔ مال و اولاد کا بڑا گھمنڈ تھا۔ وہ اپنی امارت و ریاست کے نشہ میں آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو حقیر سمجھتا تھا اور اپنی حکومت کی کوشش کرتا تھا کہ میرا کہنا مانیں، عدول حکمی نہ کریں۔ اس توحید و خدا پرستی سے باز آجائیں اس لیے بالخصوص اس کی اطاعت سے آنحضرت ﷺ کو منع کیا گیا۔ آپ خود بھی اس کی اطاعت کرنے والے نہیں تھے مگر تاکیداً حکم دیا اور اس کا نام نہیں لیا۔ اس کے اوصاف رذیلہ بیان کردیے تاکہ لوگوں کو ایسے اوصاف سے نفرت اور ترک کریں اور یہ بھی ثابت ہوجائے کہ ایسے اوصاف کا شخص اس قابل نہیں کہ اس کی کوئی اطاعت کرے۔ فقال ولاتطع کل حلاف کہ آپ ہر ایک بہت قسمیں کھانے والے کی نہ مانیں، بات بات پر قسمیں کھانا رذالت و کاذب ہونے کی دلیل ہے۔ مہین ذلیل حقیر ‘ دنیاوی باتوں پر جھوٹ بولنا۔ قسمیں کھانا ذلیل کردیتا ہے جس سے اس کی پست ہمتی اور ہلکا پن ثابت ہوتا ہے۔ اس کے سوا وہ موذی بھی ہو۔ ھماز طعن کرنے والا، لوگوں کو برا کہنے والا، لوگوں کے حسب و نسب، اخلاق ‘ صورت ‘ سیرت میں طعنہ کر کے لوگوں کو ایذا دینے والا۔ مشاء بنمیم چغل خور ایک کو دوسرے سے لڑا دینے والا۔ مناع للخیر نیکی سے منع کرنے والا، اگر اس کی اولاد یا نوکروں میں سے کوئی آنحضرت ﷺ کے پاس آتا تو وہ دھمکاتا کہ کھانا بند کر دوں گا۔ معتد، ظالم، لوگوں کے حقوق تلف کرنے والا۔ مزدور سے کام لیا، مار پیٹ کر نکال دیا۔ اثیم بدکار شراب پینے والا، زنا لواطت کرنے والا، عتل سرکش ‘ اڑیل ‘ بدمزاج ‘ کسی کی بات خودپسندی سے نہ ماننے والا۔ بعدذلک ان سب عیبوں کے بعد زنیم ولدالزنا۔ حرام کا نطفہ پیشتر اخلاق رذیلہ کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ ولید کو اٹھارہ برس کے بعد اس کے باپ نے کہا تھا کہ یہ میرے نطفہ سے ہے۔ حرامی اولاد میں خیروبرکت شجاع و حمیت کم ہوتی ہے۔ جن والیان ملک نے بیشمار عورتیں گھر میں ڈال کر حرامی اولاد جنوائی نہ ان میں شجاعت و عفت دکھائی دیتی ہے نہ ریاست و سیاست کی غیرت باقی ہے۔ مرد چھچھورے ‘ بدکار، کمینہ پرست، عورتیں فاحشہ خاندان برباد ہوا۔ نطفے میں ضرور ایک نیک و بد اثر ہوتا ہے۔ علاوہ صحت و مرض جسمانی کے حلالی حرامی ہونے کا بھی ایک اثر ضرور نمایاں ہوتا ہے۔ یہ مشاہدہ میں آچکا ہے۔ زنیم کے معنی شعبی نے شریر کے بھی بیان کئے ہیں۔ عکرمہ ابن عباس ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ اس کے زنیم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس کی گردن میں رسولی تھی جس سے وہ پہچانا جاتا تھا اور لغت میں زنمہ کے معنی زیادہ کے ہیں اور بکری کے کان چیر ڈالتے ہیں اور وہ سوکھ کر لٹک جاتے ہیں تو ان کو زنمۃ الشاۃ کہتے ہیں۔ معاذاللہ جس میں ان باتوں میں سے ایک بھی ہو وہ بھی قابل نفرت ہے اس کی اطاعت کیسی ! چہ جائیکہ اس میں اس قدر عیب ہوں۔ ان کان ذامال وبنین۔ اس لیے کہ وہ مال اور لڑکوں والا ہے مغرور اور نافرمان ہوا ہے اور اس نالائقی پر یہ نعمت پا کر شکرگزاری نہیں کرتا۔ بلکہ اذاتتلی علیہ ایتنا قال اساطیر الاولین۔ جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں کہ سن کر اپنے اخلاق درست کرے، ہماری طرف رجوع ہو وہ سن کر یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ اگلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، کلام الٰہی نہیں۔ اس لیے اس ناشکر کے لیے دنیا میں ہی ایسی سزا دی جائے گی کہ جو اس کے کبروغرور کو مٹا دے۔ وہ کیا سنسمہ علی الخرطوم کہ ہم ابھی اس کی ناک پر جو بڑی اور بےڈول ہونے کے سبب ہاتھی کی سونڈ جیسی ہے داغ اور نشان لگا دیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ بدر کی لڑائی میں کسی انصاری کی تلوار سے اس کی ناک پر چرکا لگا۔ مکہ میں آ کر اس پر پھایا لگایا اچھا ہی نہ ہوا ایک داغ ہوگیا اور آخر اسی مرض میں سخت تلخی اٹھا کر سیدھا جہنم میں گیا۔ فوائد : (1) ۔ اس بدبخت نے نبی (علیہ السلام) کو دیوانہ کہا تھا جس سے مقصود نبوت کا ابطال تھا۔ اس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی نبوت بڑے واضح دلائل سے ثابت کی اور دلائل میں آپ کے اخلاق حمیدہ اور اجر آخرت ثابت کر کے نہ صرف جنون کی نفی کی بلکہ نبوت کی اور آپ کے خلق عظیم کے مقابلہ میں اس بدبخت کے دس عیب بیان فرمائے جس سے بالمقابل اخلاق حمیدہ کی شرح بھی ہوگئی اور آسمانی حکم کے مقابلہ کرنے والے کی دنیا و آخرت کی بربادی و خرابی کی توہین بھی کی گئی تاکہ اور لوگوں کو عبرت ہو۔ (2) جب آنحضرت ﷺ پر ایک عیب لگانے والے کے دس عیب واقعی بیان کئے گئے تو حضرت ﷺ کے ساتھ سلوک اور حسن خدمت سے پیش آنے والے کی بھی یہ حالت ہے کہ ایک بھلائی کرنے والے کو دس بھلائیاں دنیا اور آخرت میں ملتی ہیں اور کم از کم دس پشتوں تک اس کا صلہ ملتا ہے جس کی نظیر صحابہ کرام ؓ کی جانفشانیاں ہیں کہ ان کو بہت جلد سرسبز ملکوں کا مالک کردیا اور ابد تک وہ اور ان کی نسلیں برگزیدہ اور مبارک سمجھی جاتی ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اللہ اس پر دس برکت بھیجے گا۔ اللھم صلی علی سیدنا محمد وآلہ وبارک وسلم۔ (3) اس متکبر کو اور بھی سزا دے سکتا تھا، ناک پر داغ لگانے کی سزا کیوں تجویز فرمائی گئی ؟ ناک ہی غرور و خودبینی کا نشان ہے اور عرف میں ناک عزت و آبرو کو بھی کہتے ہیں اس لیے اس غرور و خودبینی کے نشان پر داغ لگایا جانا خداوند جہان کے ساتھ سرتابی ‘ سرکشی کی مناسب سزا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس میں کنایہ ہے اس کی عزت دنیاویہ بگاڑ دینے سے۔ (4) کیا ولید کی ناک بڑی اور سونڈ جیسی تھی ؟ مگر متکبر اور مغرور اپنی ناک بڑھایا کرتا ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کے مقابلے میں ناک بڑھانا بلندی کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ پستی پیدا کرتا ہے۔ اس لیے اس کو سونڈ سے تعبیر کیا۔ اور ممکن ہے کہ دراصل اس بدبخت کی ناک ظاہری لمبی اور جھکی ہوئی ہو ادبار و ہلاکت کا نشان ہے اور ایسے کریہہ المنظر مغرور کی ناک کو خرطوم کہنا جو ہاتھی اور سور کی ناک کو کہتے ہیں اس کی پوری اہانت بھی ہے اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس نے اصحاب الفیل کا واقعہ دیکھا تھا ان کی لمبی ناک کا جو مآل کار ہوا اسے خیال کر کے باز آئے۔ (5) حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو باوجود علم اور خلق کے کبھی ضرورت مجبور کرتی ہے کہ وہ مخالف سرکش کو سخت الفاظ سے یاد کریں۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے یہودیوں کو سابیوں کا بچہ کہہ دیا تھا اور قرآن مجید نے تو کسی کا نام نہیں لیا۔ ایک اوصاف رذیلہ کی تصویر کھینچی ہے۔ اب اتفاق سے وہ اوصاف رذیلہ ولید میں ہوں یا کسی اور میں۔
Top