Tadabbur-e-Quran - Al-Qalam : 9
وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَیُدْهِنُوْنَ
وَدُّوْا : وہ چاہتے ہیں لَوْ تُدْهِنُ : کاش تم سستی کرو فَيُدْهِنُوْنَ : تو وہ بھی سستی کریں۔ مداہنت کریں
یہ تو چاہتے ہیں کہ ذرا تم نرم پڑو تو یہ بھی نرم پڑجائیں گے
مخالفین کی اصل پالیسی: یہ ان مکذبین کی مخالفت کے اصل سبب سے پردہ اٹھایا ہے کہ ان کی یہ ساری تگ و دو اس مقصد سے ہے کہ تم کچھ اپنے رویہ میں لچک پیدا کرو تو یہ بھی نرم پڑ جائیں۔ یعنی تمہاری باتوں کی صداقت میں انھیں شبہ نہیں ہے لیکن ان کو ماننا ان کی خواہشوں کے خلاف ہے اس وجہ سے انھوں نے یہ طوفان اٹھایا ہے کہ تم پر دباؤ ڈال کر تمہیں کچھ نرم کریں تاکہ تم کچھ باتیں ان کی مان لو اور وہ کچھ باتیں تمہاری مان لیں اور اس طرح ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصول پر باہم سمجھوتہ ہو جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی یہ مخالفت اپنے دین جاہلی کے ساتھ کسی اخلاص پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک قسم کی (BARGAINING) کی کوشش ہے۔ جب تک انھیں توقع ہے کہ وہ تمہیں دبانے میں کچھ کامیاب ہو جائیں گے ان کی یہ کوشش جاری رہے گی۔ جب یہ توقع ختم ہو جائے گی ان کا حوصلہ پست ہو جائے گا۔ زبان سے متعلق ایک سوال کا جواب: یہاں ایک سوال زبان سے متعلق پیدا ہوتا ہے کہ عربیت کے قاعدے سے تو یہاں ’وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْا‘ ہونا تھا لیکن ہے ’فَیُدْہِنُوْنَ‘۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں اسلوب مختلف اختیار کیا گیا ہے۔ یہاں دراصل مبتدا محذوف کر دیا گیا ہے۔ یعنی اصل میں ’فَھُمْ یُدْہِنُوْنَ‘ ہے۔ مطلب یہ ہو گا کہ ان کی خواہش یہ ہے کہ جب تم کچھ نرم پڑ جاؤ گے تو وہ بھی اپنے رویہ میں نرمی پیدا کر لیں گے۔ اس اسلوب کی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔
Top