Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 45
اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَۙ
اَفَاَمِنَ : کیا بےخوف ہوگئے ہیں الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے مَكَرُوا : داؤ کیے السَّيِّاٰتِ : برے اَنْ : برے يَّخْسِفَ : دھنسا دے اللّٰهُ : اللہ بِهِمُ : ان کو الْاَرْضَ : زمین اَوْ : یا يَاْتِيَهُمُ : ان پر آئے الْعَذَابُ : عذاب مِنْ حَيْثُ : اس جگہ سے لَا يَشْعُرُوْنَ : وہ خبر نہیں رکھتے
سو کیا نڈر ہوگئے وہ لوگ جو برے فریب کرتے ہیں اس سے کہ دھنسا دیوے اللہ ان کو زمین میں یا آپہنچے ان پر عذاب جہاں سے خبر نہ رکھتے ہوں
خلاصہ تفسیر
جو لوگ (دین حق کے باطل کرنے کو) بری بری تدبیریں کرتے ہیں (کہ کہیں اس میں شبہات و اعتراض نکالتے ہیں اور حق کا انکار کرتے ہیں کہ ضلال ہے کہیں دوسروں کو روکتے ہیں کہ اضلال ہے) کیا ایسے لوگ (یہ کارروائیاں کفر کی کر کے) پھر بھی اس بات سے بےفکر (بیٹھے ہوئے) ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو (ان کے کفر کے وبال میں) زمین میں غرق کر دے یا ان پر ایسے موقع سے عذاب آ پڑے جہاں ان کو گمان بھی نہ ہو (جیسے جنگ بدر میں ایسے بےسروسامان مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کو سزا ملی کہ کبھی ان کو اس کا احتمال عقلی بھی نہ ہوتا کہ یہ ہم پر غالب آسکیں گے) یا ان کو چلتے پھرتے (کسی آفت میں) پکڑ لے (جیسے کوئی مرض ہی دفعۃ آکھڑا ہو) سو (اگر ان امور میں سے کوئی امر ہوجائے تو) یہ لوگ خدا کو ہرا (بھی) نہیں سکتے یا ان کو گھٹاتے گھٹاتے پکڑے (جیسے قحط و وباء پڑے اور تدریجا خاتمہ ہوجائے یعنی نڈر ہونا نہیں چاہئے خدا کو سب قدرت ہے مگر مہلت جو دی رکھی ہے) سو (اس کی وجہ یہ ہے کہ) تمہارا رب شفیق مہربان بڑا ہے (اس لئے مہلت دی ہے کہ اب بھی سمجھ جاؤ اور فلاح اور نجات کا طریق اختیار کرلو)

معارف و مسائل
اس سے پہلی آیات میں کفار کو عذاب آخرت سے ڈرایا گیا تھا ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يُخْــزِيْهِمْ ان آیات میں ان کو اس سے ڈرایا گیا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا میں بھی اللہ کے عذاب میں پکڑے جاؤ جس زمین پر بیٹھے ہو اسی کے اندر دھنسا دئیے جاؤ یا اور کسی بےگمان راستہ سے اللہ کے عذاب میں پکڑے جاؤ جیسے غزوہ بدر میں ایک ہزار بہادر مسلح نوجوانوں کو چند بےسروسامان مسلمانوں کے ہاتھ سے ایسی سزا ملی جس کا ان کو کبھی وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چلتے پھرتے کسی عذاب الہی میں پکڑے جاؤ کہ کوئی بیماری جان لیوا آکھڑی ہو یا کسی اونچی جگہ سے گر کر یا کسی سخت چیز سے ٹکرا کر ہلاک ہوجاؤ اور عذاب کی یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ دفعۃ عذاب نہ آئے مگر مال اور صحت اور تندرستی اور اسباب راحت و سکون گھٹتے چلے جائیں اسی طرح گھٹاتے گھٹاتے اس قوم کا خاتمہ ہوجائے۔
لفظ تخوف جو اس آیت میں آیا ہے بظاہر خوف سے مشتق ہے اور بعض حضرات مفسرین نے اسی معنی کے اعتبار سے یہ تفسیر کی ہے کہ ایک جماعت کو عذاب میں پکڑا جائے تاکہ دوسری جماعت ڈر جائے اسی طرح دوسری جماعت کو عذاب میں پکڑا جائے جس سے تیسری جماعت ڈر جائے یوں ہی ڈراتے ڈراتے سب کا خاتمہ ہوجائے۔
مگر مفسر القرآن حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد وغیرہ ائمہ تفسیر نے یہاں لفظ تخوف کو تنقص کے معنی میں لیا ہے اور اسی معنی کے اعتبار سے ترجمہ گھٹاتے گھٹاتے کیا گیا ہے۔
حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا کہ حضرت فاروق اعظم ؓ کو بھی اس لفظ کے معنی میں تردد پیش آیا تو آپ نے برسر منبر صحابہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ لفظ تخوف کے آپ کیا معنی سمجھتے ہیں ؟ عام مجمع خاموش رہا مگر قبیلہ ہذیل کے ایک شخص نے عرض کیا کہ امیر المؤ منین یہ ہمارے قبیلہ کا خاص لغت ہے ہمارے یہاں یہ لفظ تنقص کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی بتدریج گھٹانا فاروق اعظم نے سوال کیا کہ کیا عرب اپنے اشعار میں یہ لفظ تنقص کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اس نے عرض کیا کہ ہاں اور اپنے قبیلہ کے شاعر ابو کبیر ہذلی کا ایک شعر پیش کیا جس میں یہ لفظ بتدریج گھٹانے کے معنی میں لیا گیا تھا اس پر حضرت فاروق اعظم نے فرمایا کہ لوگو تم اشعار جاہلیت کا علم حاصل کرو کیونکہ اس میں تمہاری کتاب کی تفسیر اور تمہارے کلام کے معانی کا فیصلہ ہوتا ہے۔
قرآن فہمی کے لئے معمولی عربی دانی کافی نہیں
اس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ معمولی طور پر عربی زبان بولنے لکھنے کی قابلیت قرآن فہمی کے لئے کافی نہیں بلکہ اس میں اتنی مہارت اور واقفیت ضروری ہے جس سے قدیم عرب جاہلیت کے کلام کو پورا سمجھا جاسکے کیونکہ قرآن کریم اسی زبان اور انہی محاروات میں نازل ہوا ہے اس درجہ کا ادب عربی سیکھنا مسلمانوں پر لازم ہے۔
عربی ادب سیکھنے کے لئے شعراء جاہلیت کا کلام پڑھنا جائز ہے اگرچہ وہ خرافات پر مشتمل ہو
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے زمانہ جاہلیت کی عربی زبان اور اس کا لغت ومح اور ات سمجھنے کے لئے شعراء جاہلیت کا کلام پر ہنا پڑھاناجائز ہے اگرچہ یہ ظاہر ہے کہ شعراء جاہلیت کا کلام جاہلانہ رسموں اور خلاف اسلام جاہلانہ افعال و اعمال پر مشتمل ہوگا مگر قرآن فہمی کی ضرورت سے اس کا پڑھنا پڑھانا ناجائز قرار دیا گیا۔
Top