Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 45
اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَۙ
اَفَاَمِنَ : کیا بےخوف ہوگئے ہیں الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے مَكَرُوا : داؤ کیے السَّيِّاٰتِ : برے اَنْ : برے يَّخْسِفَ : دھنسا دے اللّٰهُ : اللہ بِهِمُ : ان کو الْاَرْضَ : زمین اَوْ : یا يَاْتِيَهُمُ : ان پر آئے الْعَذَابُ : عذاب مِنْ حَيْثُ : اس جگہ سے لَا يَشْعُرُوْنَ : وہ خبر نہیں رکھتے
کیا نڈر ہوگئے ہیں وہ لوگ جنہوں نے کمائی ہیں برائیاں کہ اللہ تعالیٰ دھنسا دے ان کو زمین میں ، یا آئے ان کے پاس عذاب جہاں سے ان کو پتہ بھی نہ ہو۔
(ربط آیات) گذشتہ سے پیوسہ درس میں اللہ تعالیٰ نے شرک کا رد فرمایا اور پھر گذشتہ درس میں ان مومن مہاجرین کی حوصلہ افزئی فرمائی جن پر بڑے مظالم ڈھائے گئے مگر انہوں نے خدا تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے صبر کے دامن کو نہ چھوڑا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو دنیا میں بھی بہتر ٹھکانا میسر آئے گا اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسالت کے سابقہ بیان کے تسلسل میں فرمایا کہ ہر قوم میں مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا گیا ، اگر منکرین توحید و رسالت کو اس بارے میں کوئی شک وتردد ہے تو وہ تاریخی واقعات کو یاد رکھنے والوں سے تصدیق کرلیں ، حضور خاتم النبیین ﷺ سے قبل اللہ نے اپنے رسولوں کو کھلی نشانیاں یعنی معجزات اور صحیفے دے کر بھیجا اور پھر آخر میں حضور ﷺ پر ذکر یعنی قرآن کریم نازل فرمایا ، آپ کو اس بات کا پابند کیا کہ آپ اس قرآن پاک کی تشریح وتبیین کا کام بھی انجام دیں ، چناچہ حضور ﷺ نے یہ فریضہ بطریق احسن انجام دیا اور یہی ” سنت “ ہے ، پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں کو بھی حکم دیا کہ وہ اس قرآن پاک میں غور وفکر کریں تاکہ صحیح نتیجے پر پہنچ سکیں ۔ (منکرین کے لیے سخت وعید) اب آج کے درس کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منکرین قرآن و رسالت کو ان کی ریشہ دوانیوں پر سخت تنبیہ فرمائی ہے اور بعض سزاؤں کا ذکر کرکے فرمایا کہ کیا یہ لوگ اس بات سے نڈر ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر مختلف قسم کے عذاب نازل فرمائے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” افامن الذین مکروا السیات “۔ کیا یہ لوگ بےخوف ہوگئے ہیں ” امن “ کا معنی امن میں ہوجانا ، نڈر یا بےخوف ہوجانا ہے ، فرمایا جو لوگ برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں ، انبیاء کے خلاف سازشیں کرتے ہیں ، اللہ کے پروگرام کو ناکام بنانا چاہتے ہیں ، اس کی توحید کی مخالفت کرتے ہیں ، انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی ہلاکت کے درپے ہیں ، اور اہل ایمان کو ان کے دین سے روکنا چاہتے ہیں ، تو کیا یہ اللہ کے عذاب سے بالکل بےخوف ہوچکے ہیں ؟ پھر آگے اللہ تعالیٰ نے عذاب کی وہ مختلف صورتیں بیان فرمائی ہیں جن میں یہ لوگ گرفتار ہو سکتے ہیں ۔ (1) (زمین میں دھنس جانا) فرمایا اللہ کے عذاب کی پہلی صورت یہ ہے (آیت) ” ان یخسف اللہ بھم الارض “۔ کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے ، ان لوگوں کو کچھ احساس نہیں کہ خدا کی پیدا کردہ جس زمین پر یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں اللہ چاہے تو اسی زمین میں ان کو غرق کر دے ، اس قسم کی مثال دنیا میں پہلے ہی قائم ہوچکی ہے جب اللہ تعالیٰ نے قارون کو مع اس کے مال و دولت اور خزانوں کے زمین میں دھنسا دیا ، اس قسم کے واقعات ہر زمانے میں پیش آتے رہے ہیں ، بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نہایت غروروتکبر کی حالت میں پل پر سے گزر رہا تھا ، اس کی گردن اکڑی ہوئی تھی اور وہ متکبرانہ چال سے چل رہا تھا ، کہ اللہ تعالیٰ نے اسی حالت میں اسے زمین کے اندر دھنسا دیا ، یہ شخص تب سے زمین میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور اس کا قدم اس وقت کہیں ٹکے گا جب قیامت برپا ہوجائے گی اللہ نے اس کے تکبر کی اتنی سخت سزا دی ، 1949 ء ؁ میں اخبارات میں پڑھا تھا کہ مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور کی ایک بستی میں بچے سکول میں پڑھ رہے تھے کہ اس دروان سارا سکول زمین کے اندر دھنس گیا 1923 ء ؁ میں جاپان میں زبردست زلزلہ آیا تھا زمین میں بڑی بڑی دارڑیں پڑگئی تھی ، اور اس حادثے میں تین لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے ، ابھی پندرہ بیس سال کا عرصہ گزرا ساحلی کنارے پر آباد بارہ ہزار کی آبادی بدرتہ کا یہ پرفضا شہر پورے کا پورا تباہ ہوگیا تھا ، ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ کوئی چیز باقی نہ بچی ۔ (2) (بیرونی ذرائع سے عذاب) اللہ نے عذاب کی دوسری صورت یہ بیان فرمائی ہے (آیت) ” اویاتیھم العذاب من حیث لا یشعرون “۔ یا ان پر ایسی جگہ سے عذاب لے آئے جہاں سے ان کو خبر بھی نہ ہو ، بعض اقوام کو ایسے ذرائع سے بھی سزا ملتی رہی ہے جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے ، مثال کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں مکہ والوں پر میدان بدر میں جو آفت آئی ، وہ اس کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے تھے ، وہ مکہ سے سامان ضرب وحرب سے لیس ایک ہزار فوج لے کر نکلے تھے ، کھانے پینے اور رنگ و سرود کے تمام سامان موجود تھے ، وہ ایک ہی جست میں مسلمانوں کو ختم کردینا چاہتے تھے ، مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا ، اللہ تعالیٰ نے مٹھی بھر بےسروسامان مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کو ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ، ستر مارے گئے جن میں بڑے بڑے ائمہ کفر تھے اور اتنے ہی قیدی بنے اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ کیا یہ لوگ اس بات سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس ایسی جگہ سے عذاب لے آئے جو ان کے گمان میں بھی نہ ہو ۔ (3) (چلتے پھرتے گرفت) سزا کی تیسری شکل اللہ نے یہ بیان فرمائی ہے (آیت) ” اویاخذھم فی قتلبھم “ یا ان کو چلنے پھرنے کے وقت ہی پکڑ لے ، اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ، وہ جب چاہے اپنی مخلوق کی گرفت کرلے ، کوئی آسمانی آفت نازل ہوجائے ، حادثہ پیش آجائے یا کوئی طوفان بادوباراں آجائے اور یہ چشم زدن میں ماخوذ ہوجائیں ایسے لوگوں کو اپنی فکر کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ان کی گرفت ان کے بستر پر بھی کرسکتا ہے ، اور چلتے پھرتے ، کاروبار کرتے ، چشن مناتے یا لہو ولعب میں مصروف ہونے کی صورت میں بھی وہ گرفت کرنے پر قادر ہے ، لہذا انہیں اللہ کی پکڑ سے بےخوف نہیں ہونا چاہئے کیونکہ (آیت) ” فماھم بعجزین “ وہ اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں وہ اللہ کی گرفت کو ٹال نہیں سکیں گئے ۔ (4) (عذاب بعد ازخوف) چوتھی صورت عذاب کی یہ بیان فرمائی (آیت) ” اویاخذھم علی تخوف “۔ یا انہیں خوف دلانے کے بعد پکڑے بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی دوسری قوم یا فرد کو مبتلائے بلادیکھ کر خوف پیدا ہوتا ہے اور پھر آخر میں خود خوف زدگان کی باری بھی آجاتی ہے اور وہ بھی عذاب کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اکثر مفسرین ” تخوف “ کا معنی خوف دلانا ہی کرتے ہیں مگر حضرت عمر ؓ کو اس لفظ کے صحیح معانی کے تعین میں تردد تھا ، صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ آپ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا ، لوگو ! مجھے بتلاؤ کہ تخوف کا کیا معنی ہے ؟ بعض نے جن میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بھی شامل ہیں فرمایا کہ اس کا معنی تنقص یعنی کسی چیز کو کم کردینا یا گھٹا دینا ہے ، آپ نے فرمایا کیا تم اس کا ثبوت عربوں کے کسی کلام سے پیش کرسکتے ہو ، تو ان میں سے ایک شخص نے کہا ، ہاں قبیلہ ہذیل کے عمر رسیدہ شاعر ابو کبیر ہذلی نے یہ شعر کہا ہے ۔ تخوف رحل منھا تامکا قردا کما تخوف عودا نبعۃ السفن : کجاوے نے اس اونٹنی کے مضبوط کوہان کو اس طرح گھٹا دیا ہے جس طرح کمان کی لکڑی کو ریتی گھٹا دیتی ہے ، ظاہر ہے کہ دوران سفر بھوک پیاس کی وجہ سے باربرداری کا جانور کمزور ہوجاتا ہے اونٹ کی یہ خاصیت ہے کہ وہ دس دس بیس بیس دن تک بھوک پیاس کی شدت برداشت کرسکتا ہے ، جب اونٹ کی خوردہ غذا ختم ہوجاتی ہے تو اس کے جسم کی چربی پگھل پگھل کر غذا بنتی رہتی ہے جس کی وجہ سے اس کی کوہان کمزور ہو کر کم ہوجاتی ہے ، مطلب یہ کہ اس شعر میں تخوف کو گھٹانے کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۔ (زمانہ جاہلیت کے اشعار) اس موقع پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا ” علیکم بدیوانکم “۔ تم اپنے دیوان کو لازم پکڑو ، لوگوں نے دریافت کیا ، حضرت ! ہمارا دیوان کونسا ہے تو آپ نے فرمایا کہ یہ زمانہ جاہلیت کے اشعار ہیں ان کو سیکھا کرو ، اور پڑھا کرو ” فان فیہ تفسیر کتابکم ومعانی کلامکم “ کہ اس سے تمہاری کتاب کی تفسیر اور تمہارے کلام کے معانی سمجھ میں آتے ہیں ، چناچہ عربی شعرا کا قدیم کلام اب بھی درسوں میں پڑھا جاتا ہے ، مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (رح) تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے اشعار پڑھنا جائز ہے ، اگرچہ ان میں بداخلاقی ، جنگ وجدال اور فتنہ و فساد کا ذکر ہی کیوں نہ ہو ، ان کا فائدہ یہ ہے کہ کلام الہی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ قرآن پاک اس وقت کی ترقی یافتہ عربی زبان میں نازل ہوا تھا بعض عربی الفاظ کے معانی سمجھنے میں بھی دقت آتی ہے مثلا یہ کہ کسی لفظ کا مادہ کیا ہے اور عربی محاورے میں یہ کس طرح استعمال ہوتا ہے اور پھر اس کا معنی کیا بنتا ہے ، چناچہ اس پر علمائے کرام اور مفسرین نے کتابیں لکھی ہیں ۔ فرمایا ، یاد رکھو (آیت) ” فان ربکم لرء وف رحیم “۔ بیشک تمہارا پروردگار بڑا نرم اور مہربان ہے ، اس کی شفقت کا تقاضا ہے کہ وہ بعض اوقات مجرموں کو مہلت دیتا رہتا ہے اور امہال و تدریج سے کام لیتا ہے ، ورنہ حقیقت یہ ہے (آیت) ” ان بطش ربک لشدید “۔ (البروج) بیشک تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے ، جب وہ کسی کو پکڑنے پر آتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں ، یہ اللہ تعالیٰ نے مخالفین کو تنبیہ فرمائی ہے کہ انہیں اس بات سے خوف کھانا چاہئے کہ کسی نہ کسی صورت میں ان پر خدا تعالیٰ کی گرفت نہ آجائے ۔ (سائے کا سجدہ) آگے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور معبودیت کی طرف توجہ دلائی ہے (آیت) ” اولم یروا الی ما خلق اللہ من شیئ “۔ کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی چیزیں پیدا کی ہیں (آیت) ” یتفیؤا ظللہ عن الیمین والشمائل وسجدا للہ “۔ ان کے سائے ڈحل جاتے ہیں دائیں اور بائیں طرف اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے (آیت) ” وھم دخرون “۔ اور وہ عاجز ہوتے ہیں ۔ ہم روز مرہ زندگی میں پہاڑوں ، درختوں ، ٹیلوں اور عمارات کے سایوں کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں دن کے پہلے حصے میں تمام چیزوں کے سائے گھٹتے رہتے ہیں ، دوپہر کو ایک خاص نہج پر پہنچ کر رک جاتے ہیں ، اور پھر آہستہ آہستہ بڑھنے لگتے ہیں ، شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ دوپہر کے وقت جب سورج سر پر آتا ہے تو ہر چیز کا سایہ ٹھہر جاتا ہے ، اور جب دن ڈھلتا ہے تو سایہ جھکتے جھکتے شام تک زمین پر پڑجاتا ہے ، ان سایوں کی سجدہ ریزی بالکل اسی طرح ہے جس طرح کوئی آدمی پہلے قیام کرتا ہے پھر رکوع میں جاتا ہے اور پھر سجدہ میں گر پڑتا ہے اسی طرح ہر ایستادہ چیز پہاڑ ، درخت عمارات وغیرہ اپنے سایوں کے ذریعے سجدہ ریز ہوتے ہیں ، اور پھر یہ ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے یہ سایہ کسی ملک میں کسی موسم میں دائیں طرف جھکتا ہے اور کہیں بائیں طرف ۔ ہماری آخری شریعت میں اللہ کے سوا کسی کے سامنے سجدہ روا نہیں خواہ وہ سجدہ عبادت ہو یا سجدہ تعظیمی عبادت کا سجدہ تو قطعی حرام اور کفر ہے خواہ وہ کسی کے سامنے بھی کیا جائے ، البتہ سجدہ تعظیمی جو بادشاہوں یا دیگر بڑے لوگوں کے سامنے کیا جائے وہ حرام ہے مگر کفر نہیں ہوتا ۔ (ہر چیز سجدہ ریز ہے) اس کے بعد اختیاری اور غیر اختیاری دونوں قسم کے سجدے کے متعلق فرمایا (آیت) ” وللہ یسجد مافی السموت وما فی الارض “۔ آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی سامنے سجدہ ریز ہوتی ہیں ، زمین میں (آیت) ” من دآبۃ “۔ چلنے پھرنے والے جاندار ہیں ، اور آسمان پر (آیت) ” والملئکۃ “۔ فرشتے ہیں ، البتہ انسانوں کے متعلق دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ ان کے دو گروہ ہیں ، ایک گروہ اپنے اختیار اور رضا ورغبت سے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے جب کہ دوسرا نافرمانوں اور کافروں کا گروہ ہے جو تکبر کرتا ہے اور سجدہ نہیں کرتا ، باقی تمام چیزیں خدا تعالیٰ کے سامنے منقاد ہیں ، وہ سب عاجزی کرنے والی ہیں ، جانور ، چرند ، پہاڑ وغیرہ ، سب اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں (آیت) ” وھم لا یستکبرون “۔ اور وہ تکبر نہیں کرتے بلکہ عاجزی کرتے ہیں ، شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ مغرور لوگوں کے لیے زمین پر سررکھنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے غرور کا سر نیچا ہوتا ہے اور انہیں ذلیل ہونا پڑتا ہے ، حالانکہ انسان کی بڑائی اپنے پروردگار کے سامنے تواضع ، اخبات اور خشوع و خضوع کے اظہار میں ہی ہے ، ملائکہ کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان ہے ، کہ فرشتوں کی وجہ سے ” اطت السمائ “۔ آسمان چرچراتا ہے جس طرح نیا کجاوہ جانور پر رکھا جائے تو وہ چرچراتا ہے ، اسی طرح آسمان بھی چرچراتا ہے کیونکہ آسمان پر ایک بالشت بھی جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدہ ریز نہ ہو یا کسی دوسری عبادت میں مصروف نہ ہو تو فرمایا کہ نہ تو جانور تکبر کرتے ہیں اور نہ ہی فرشتے بلکہ وہ خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ (فرشتوں کا تعمیل کا حکم) فرشتوں کے متعلق خاص طور پر فرمایا (آیت) ” یخافون ربھم “۔ وہ اپنے پروردگار سے خوف کھاتے ہیں ڈرتے ہیں (آیت) ” من فوقھم “ اپنے اوپر سے کہ کہیں خدا تعالیٰ کی گرفت نہ آجائے (آیت) ” ویفعلون ما یؤمرون “۔ اور کرتے ہیں جو کچھ انہیں حکم دیا جاتا ہے ، فرشتے اللہ کے حکم سے سرمو سرتابی نہیں کرتے ، اسی طرح جانور اور دوسری چیزیں بھی اپنے طبعی فرائض انجام دیتے رہتے ہیں ، یہ صرف انسان اور جنات ہیں جو مکلف مخلوق ہیں ، انہی میں سے بعض لوگ تکبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل سے گریز کرتے ہیں ۔ سجدہ کی مختلف قسمیں ہیں جیسے سجدہ عبادت (نماز) سجدہ شکر اور سجدہ تلاوت ہے ، سجدہ تلاوت وجوب کا درجہ رکھتا ہے ، اس آیت کے اختتام پر بھی پڑھنے اور سننے والوں پر سجدہ تلاوت واجب ہوجاتا ہے ، یہ قرآن پاک کے کل چودہ مقامات میں سے ایک ہے ، جہاں پہنچ کر سجدہ کرنا لازم آتا ہے ، اگر کوئی آیت سجدہ پڑھتے یا سنتے وقت سجدہ کرنے کی حالت میں ہے یعنی باوضو ہے تو فورا سجدہ کرلے وگرنہ طہارت حاصل کرنے کے بعد سجدہ کرے کیونکہ طہارت سجدہ کے لیے شرط ہے ۔
Top