Tafseer-e-Haqqani - An-Nahl : 45
اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَۙ
اَفَاَمِنَ : کیا بےخوف ہوگئے ہیں الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے مَكَرُوا : داؤ کیے السَّيِّاٰتِ : برے اَنْ : برے يَّخْسِفَ : دھنسا دے اللّٰهُ : اللہ بِهِمُ : ان کو الْاَرْضَ : زمین اَوْ : یا يَاْتِيَهُمُ : ان پر آئے الْعَذَابُ : عذاب مِنْ حَيْثُ : اس جگہ سے لَا يَشْعُرُوْنَ : وہ خبر نہیں رکھتے
پھر کیا جو لوگ بڑی بڑی تدبیریں کیا کرتے تھے (ان کو اس بات کا کچھ بھی خوف نہیں رہا کہ) خدا ان کو زمین میں دھنساوے یا ان پر (وہاں سے) عذاب آجائے کہ جدھر کی انہیں خبر بھی نہ ہو
ترکیب : السئیات صفت ہے المکرات مفعول محذوف کی اے مکروالمکرات السئیات۔ ان یخسف الخ جملہ مفعول امن او یَأْتِیَہُمْ معطوف ہے یخسف پر اسی طرح یاخذ اور یاخذ ثانی علی تخوف موضع حال میں ہے فاعل یا مفعول سے جو یاخذھم میں ہے۔ یتفیئوا نمیل ظلال جمع ظل۔ یا تو واحد کو موضع جمع میں استعمال کیا ہے یا ہر روز کے سایہ کے لحاظ سے یا وقتاً فوقتاً پھیلنے کے لحاظ سے سایہ کو متعدد سایوں کے ساتھ تعبیر کیا یعنی لفظ جمع ظلال استعمال کیا گیا عن واسطے مجاوزۃ کے یتجاوزالظلال الیمین الی الشمال۔ شمائل جمع۔ سجدًا حال ہے ظلال سے وھم داخرون بھی انہیں سے حال ہے ان کو ذی عقل قرار دے کر۔ تفسیر : اب ان سرکشوں کو (کہ جو بڑے مکروفریب کرتے تھے یعنی مخفی طور پر اسلام کے مٹانے کی تدبیریں کیا کرتے تھے) اپنے قہروجبروت سے دھمکاتا ہے کہ کیا ان کو چارباتوں سے بھی ڈر نہیں اور کیوں اطمینان اور امن ہوگیا ؟ (1) ان یخسف اللہ بہم الارض کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دیوے پہلی بھی اور پچھلی صدیوں میں کیا بلکہ حال میں بھی زلزلہ آ کر زمین پھٹ گئی اور بڑے بڑے جبار و شہوت پرست مع مکانات زمین میں سما گئے ‘ قارون بھی سما گیا تھا۔ (2) اویاتیہم العذاب من حیث لایشعرون کہ ان پر ایسے طور پر ایسی جگہ سے عذاب آوے کہ جس کی انہیں خبر بھی نہ ہو آسمان سے دفعۃً اولے کیا بلکہ بڑی بڑی سلیں برسنے لگیں چناچہ ابھی کئی سال کا عرصہ گزرا کہ مراد آباد اور اس کے نواح میں بڑے بڑے اولے کیا آسمانی گولے برسے کہ جس سے صدہا آدمی اور جانور ہلاک ہوگئے اور سینکڑوں درخت گر پڑے۔ خاص دہلی میں میرے ایک دوست نے جو ایک اولا تولا تو آدھ سیر کا تھا اور پہلی امتوں میں بھی اولے مائیت سے مستحیل ہو کر حجریت میں آگئے تھے اور بڑے بھاری پتھر بن کر برسے جیسا کہ لوط (علیہ السلام) کی بستیوں پر واقعہ گزرا یا پانی سے دفعۃً رو آ کر غارت کردیے گئے۔ چناچہ دو تین سال کا عرصہ گزرا کہ آدھی رات کے قریب جبکہ لوگ خواب راحت میں تھے شہر پٹیالہ میں ایسی رو آئی کہ مکانوں اور بازاروں میں گزوں پانی تھا جس سے صدہا آدمی ڈوب مرے ‘ صدہا مکانات گر گئے یا ایسی تند ہوا آجاوے جو بربادی کا باعث ہو، الغرض خدا کی صدہا بلائیں ہیں جو دفعۃً آجاتی ہیں جس میں بادشاہ سے لے کر رعیت تک کسی کا کچھ زور نہیں چلتا۔
Top