Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 45
اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَۙ
اَفَاَمِنَ : کیا بےخوف ہوگئے ہیں الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے مَكَرُوا : داؤ کیے السَّيِّاٰتِ : برے اَنْ : برے يَّخْسِفَ : دھنسا دے اللّٰهُ : اللہ بِهِمُ : ان کو الْاَرْضَ : زمین اَوْ : یا يَاْتِيَهُمُ : ان پر آئے الْعَذَابُ : عذاب مِنْ حَيْثُ : اس جگہ سے لَا يَشْعُرُوْنَ : وہ خبر نہیں رکھتے
تو کیا وہ لوگ جنھوں نے بری تدبیریں کی ہیں، اس سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ اللہ انھیں زمین میں دھنسا دے، یا ان پر عذاب آجائے جہاں سے وہ سوچتے نہ ہوں۔
اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ۔۔ : فاء عاطفہ ہے، لیکن ہمزۂ استفہام عربی میں کلام کے شروع میں آتا ہے، اس لیے عطف کی فاء ہو یا واؤ، ہمزۂ استفہام کے بعد لائی جاتی ہے، لہٰذا ترجمے میں حرف عطف کا معنی پہلے کیا جاتا ہے۔ ان تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے واضح دلائل اور کتاب دیکھنے سننے کے باوجود رسول اور اہل ایمان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو چار قسم کے عذاب سے خبردار کیا ہے، پہلا یہ کہ کیا وہ اس بات سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں دھنسا دے اور ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قارون کے متعلق فرمایا : (فَخَسَفْنَا بِهٖ وَبِدَارِهِ الْاَرْضَ) [ القصص : 81 ] ”تو ہم نے اسے اور اس کے مکان کو زمین میں دھنسا دیا۔“ خود ہمارے دیکھنے میں آزاد کشمیر کے اندر آنے والے زلزلے میں کئی جگہوں پر زمین پھٹی اور کئی آدمی اور مکان اس کے اندر دھنس گئے، پھر دوسرے جھٹکوں کے ساتھ زمین کے وہ شگاف دوبارہ مل گئے اور دھنسنے والوں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ دوسرا یہ کہ انھیں عذاب ایسی جگہ سے آپکڑے جہاں سے وہ سوچتے بھی نہ ہوں کہ یہاں سے بھی عذاب آسکتا ہے اور اچانک آجانے کی وجہ سے نہ اس کا دفاع کرسکیں اور نہ اس سے بھاگ کر بچ سکیں۔ اس کے مشابہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا) [ الحشر : 2 ] ”تو اللہ ان کے پاس آیا جہاں سے انھوں نے گمان نہیں کیا تھا۔“
Top