Maarif-ul-Quran - Al-Muminoon : 63
بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِیْ غَمْرَةٍ مِّنْ هٰذَا وَ لَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَ
بَلْ : بلکہ قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل فِيْ غَمْرَةٍ : غفلت میں مِّنْ ھٰذَا : اس سے وَلَهُمْ : اور ان کے اَعْمَالٌ : اعمال (جمع) مِّنْ دُوْنِ : علاوہ ذٰلِكَ : اس هُمْ لَهَا : وہ انہیں عٰمِلُوْنَ : کرتے رہتے ہیں
کوئی نہیں ان کے دل بیہوش رہیں اس طرف سے اور ان کو اور کام لگ رہے ہیں اس کے سوائے کہ وہ ان کو کر رہے ہیں
خلاصہ تفسیر
(یہ تو اوپر مومنین کی حالت سنی مگر کفار ایسے نہیں ہیں) بلکہ (برعکس) ان کفار کے قلوب اس دین کی طرف سے (جس کا ذکر بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ میں ہے) جہالت (اور شک) میں (ڈوبے ہوئے ہیں (جن کا حال اوپر بھی معلوم ہوچکا فَذَرْهُمْ فِيْ غَمْرَتِهِمْ) اور اس (جہالت و انکار) کے علاوہ ان لوگوں کے اور بھی (برے برے خبیث) عمل ہیں جن کو یہ (مسلسل) کرتے رہتے ہیں (یہ لوگ شرک اور اعمال سیہ کے برابر خوگر رہیں گے) یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال لوگوں کو (جن کے پاس مال و دولت اور نوکر چاکر سب کچھ ہے) عذاب (بعد الموت) میں دھر پکڑیں گے (اور غریب غرباء تو کس گنتی میں ہیں اور وہ تو عذاب سے کیا بچاؤ کرسکتے ہیں، غرض یہ کہ جب ان سب پر عذاب نازل ہوگا) تو فوراً چلا اٹھیں گے (اور سارا انکار و استکبار جس کے اب عادی ہیں کافور ہوجاوے گا اس وقت ان سے کہا جاوے گا کہ) اب مت چلاؤ (کہ کوئی فائدہ نہیں کیونکہ) ہماری طرف سے تمہاری مطلق مدد نہ ہوگی (کیونکہ یہ دار الجزاء ہے دار العمل نہیں ہے جس میں چلانا اور عاجزی کرنا مفید ہو جو دار العمل تھا اس میں تو تمہارا یہ حال تھا کہ) میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر (رسول کی زبان سے) سنائی جایا کرتی تھیں تو تم الٹے پاؤں بھاگتے تھے تکبر کرتے ہوئے قرآن کا مشغلہ بناتے ہوئے (اس قرآن کی شان) میں بیہودہ بکتے ہوئے (کہ کوئی اس کو سحر کہتا تھا کوئی شعر کہتا تھا اور مشغلہ کا یہی مطلب ہے پس تم نے دار العمل میں جیسا کیا آج دار الجزاء میں ویسا بھگتو۔ اور یہ لوگ جو قرآن کی اور صاحب قرآن کی تکذیب کر رہے ہیں تو اس کا کیا سبب ہے) کیا ان لوگوں نے اس کلام (الٰہی) میں غور نہیں کیا (جس سے اس کا اعجاز ظاہر ہوجاتا اور یہ ایمان لے آتے) یا (تکذیب کی یہ وجہ ہے کہ) ان کے پاس کوئی ایسی چیز آئی ہے جو ان کے پہلے بڑوں کے پاس نہیں آئی تھی (مراد اس سے احکام الٰہیہ کا آنا ہے جو کوئی نئی بات نہیں، ہمیشہ سے انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ ان کی امتوں کو یہی احکام دیئے جاتے رہے ہیں کقولہ تعالیٰ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ ، پس تکذیب کی یہ وجہ بھی باطل ٹھہری اور یہ دو وجہ تو قرآن کے متعلق ہیں۔ آگے صاحب قرآن کے متعلق فرماتے ہیں یعنی) یا (وجہ تکذیب کی یہ ہے کہ) یہ لوگ اپنے رسول (کی صفت دیانت و صدق و امانت) سے واقف نہ تھے اس وجہ سے ان کے منکر ہیں، (یعنی یہ وجہ بھی باطل ہے کیونکہ آپ کے صدق و دیانت پر سب کا اتفاق تھا) یا (یہ وجہ ہے کہ) یہ لوگ (نعوذ باللہ) آپ کی نسبت جنون کے قائل ہیں (سو آپ کا اعلیٰ درجہ کا صاحب عقل اور صاحب الرائے ہونا بھی ظاہر ہے۔ سو واقع میں ان میں سے کوئی وجہ بھی معقول نہیں) بلکہ (اصلی وجہ یہ ہے کہ) یہ رسول ان کے پاس حق بات لے کر آئے ہیں اور ان میں اکثر لوگ حق بات سے نفرت رکھتے ہیں۔ (بس یہ تمام تر وجہ ہے تکذیب کی اور عدم اتباع حق کی اور یہ لوگ اس دین حق کا اتباع تو کیا کرتے یہ تو اور الٹا یہ چاہتے ہیں کہ وہ دین حق ہی ان کے خیالات کے تابع کردیا جاوے اور جو مضامین قرآن میں ان کے خلاف ہیں ان کو خارج یا ترمیم کردیا جاوے کقولہ تعالیٰ فی سورة یونس قال الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْهُ) اور (بفرض محال) اگر (ایسا امر واقع ہوجاتا) اور دین حق ان کے خیالات کے تابع (اور موافق) ہوجاتا تو (تمام عالم میں کفر و شرک پھیل جاتا اور اس کا اثر یہ ہوتا کہ حق تعالیٰ کا غضب تمام عالم پر متوجہ ہوجاتا اور اس کا مقتضا یہ تھا کہ) تمام آسمان اور زمین اور جو ان میں (آباد) ہیں سب تباہ ہوجاتے (جیسا قیامت میں تمام انسانوں میں گمراہی عام ہوجانے کے سبب اللہ تعالیٰ کا غضب بھی سب پر عام ہوگا اور غضب الٰہی عام ہونے سے سب کی ہلاکت بھی عام ہوگی اور اول تو کسی امر کا حق ہونا مقتضی ہے اس کے وجوب قبول کو گو نافع بھی نہ ہو۔ اور اس کا قبول نہ کرنا خود عیب ہے مگر ان لوگوں میں صرف یہی ایک عیب نہیں کہ حق سے کراہت ہو) بلکہ (اس سے بڑھ کر دوسرا عیب اور بھی ہے کہ حق کا اتباع جو انہیں کے نفع کا سامان ہے اس سے دور بھاگتے ہیں بس) ہم نے ان کے پاس ان کی نصیحت (اور نفع) کی بات بھیجی سو یہ لوگ اپنی نصیحت سے بھی روگردانی کرتے ہیں یا (علاوہ وجوہ مذکورہ کے ان کی تکذیب کی یہ وجہ ہے کہ ان کو یہ شبہ ہوا ہو کہ) آپ ان سے کچھ آمدنی چاہتے ہیں تو (یہ بھی غلط ہے کیونکہ جب آپ جانتے ہیں کہ) آمدنی تو آپ کے رب کی سب سے بہتر ہے اور وہ سب دینے والوں سے اچھا ہے (تو آپ لوگوں سے کیوں مانگتے ہیں) اور (خلاصہ ان کی حالت کا یہ ہے کہ) آپ تو ان کو سیدھے رستہ کی طرف (جس کو اوپر حق کہا ہے) بلا رہے ہیں اور ان لوگوں کی جو کہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یہ حالت ہے کہ اس (سیدھے) رستہ سے ہٹے جاتے ہیں (مطلب یہ کہ حق ہونا اور مستقیم ہونا اور نافع ہونا یہ سب مقتضیات ایمان کے جمع ہیں اور جو وجوہات مانع ہو سکتی تھیں وہ کوئی موجود نہیں، پھر ایمان نہ لانا اشد درجہ کی جہالت اور ضلالت ہے) اور (ان کی قسادت وعناد کی یہ حالت ہے کہ جس طرح یہ لوگ آیات شرعیہ سے متاثر نہیں ہوتے اسی طرح آیات قہریہ مصائب و بلیات سے بھی متاثر نہیں ہوتے گو مصیبت کے وقت طبعی طور پر ہم کو پکارتے بھی ہیں لیکن وہ دفع الوقتی ہوتی ہے چنانچہ) اگر ہم ان پر مہربانی فرما دیں اور ان پر جو تکلیف ہے اس کو ہم دور بھی کردیں تو وہ لوگ (پھر) اپنی گمراہی میں بھٹکتے ہوئے اصرار کرتے رہیں (اور وہ قول وقرار جو مصیبت میں کئے تھے سب ختم ہوجاویں کقولہ تعالیٰ وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا الخ وقولہ تعالیٰ اِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ الخ) اور (شاہد اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات) ہم نے ان کو گرفتار عذاب بھی کیا ہے سو ان لوگوں نے نہ اپنے رب کے سامنے (پورے طور پر) فروتنی کی اور نہ عاجزی اختیار کی (پس جب عین مصیبت میں اور مصیبت بھی ایسی سخت جس کو عذاب کہا جاسکے جیسے قحط جو مکہ میں حضور ﷺ کی بددعا سے ہوا تھا انہوں نے عاجزی اختیار نہیں کی تو بعد زوال مصیبت کے تو بدرجہ اولیٰ ان سے اس کی توقع نہیں مگر ان کی یہ ساری بےپروائی و بیباکی ان مصائب تک ہے جن کے عادی ہوچکے ہیں) یہاں تک کہ ہم جب ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے (جو کہ فوق العادة ہو خواہ دنیا ہی میں کہ کوئی غیبی قہر آ پڑے یا بعد الموت کہ ضرور ہی واقع ہوگا) تو اس وقت بالکل حیرت زدہ رہ جاویں گے (کہ یہ کیا ہوگیا اور سب نشہ ہرن ہوجاوے گا)

معارف و مسائل
غَمْرَةٍ ، ایسے گہرے پانی کو کہتے ہیں جس میں آدمی ڈوب جائے اور جو اس میں داخل ہونے والے کو اپنے اندر چھپا لے اسی لئے لفظ غمرہ پردہ اور ہر ڈھانپ لینے والی چیز کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ یہاں ان کی مشرکانہ جہالت کو غمرہ کہا گیا ہے جس میں ان کے دل ڈوبے ہوئے اور چھپے ہوئے ہیں کہ کسی طرف سے ان کو روشنی کی کرن نہیں پہنچتی۔
وَلَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ ، یعنی ان کی گمراہی کے لئے تو ایک شرک و کفر ہی کا پردہ غفلت کافی تھا مگر وہ اسی پر بس نہیں کرتے اس کے ساتھ دوسرے اعمال خبیثہ بھی مسلسل کرتے ہی رہتے ہیں۔
Top