Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 20
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
مُوْسٰى
: موسیٰ
لِقَوْمِهٖ
: اپنی قوم کو
يٰقَوْمِ
: اے میری قوم
اذْكُرُوْا
: تم یاد کرو
نِعْمَةَ اللّٰهِ
: اللہ کی نعمت
عَلَيْكُمْ
: اپنے اوپر
اِذْ
: جب
جَعَلَ
: اس نے پیدا کیے
فِيْكُمْ
: تم میں
اَنْۢبِيَآءَ
: نبی (جمع)
وَجَعَلَكُمْ
: اور تمہیں بنایا
مُّلُوْكًا
: بادشاہ
وَّاٰتٰىكُمْ
: اور تمہیں دیا
مَّا
: جو
لَمْ يُؤْتِ
: نہیں دیا
اَحَدًا
: کسی کو
مِّنَ
: سے
الْعٰلَمِيْنَ
: جہانوں میں
اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم کو اے قوم یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر جب پیدا کئے تم میں نبی اور کردیا تم کو بادشاہ اور دیا تم کو جو نہیں دیا تھا کسی کو جہان میں
خلاصہ تفسیر
۔
اور وہ وقت بھی ذکر کے قابل ہے جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم (یعنی بنی اسرائیل) سے (اول ترغیب جہاد کی تمہید میں یہ) فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو کہ تم پر ہوا ہے، یاد کرو جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں بہت سے پیغمبر بنائے (جیسے حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑ اور خود حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ وغیرہم اور کسی قوم میں پیغمبروں کا ہونا ان کا دنیوی اور دینی شرف ہے۔ یہ تو نعمت معنوی دی) اور (حسیِّ نعمت یہ دی کہ) تم کو صاحب ملک بنایا (چنانچہ فرعون کے ملک پر ابھی قابض ہوچکے ہو) اور تم کو (بعض بعض) وہ چیزیں دی ہیں جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیں (جیسا دریا میں راستہ دینا دشمن کو عجیب طور پر غرق کرنا جس کے بعد دفعةً غایت ذلت و زحمت سے نہایت رفعت و راحت میں پہنچ گئے یعنی اس میں تم کو خاص امتیاز دیا پھر اس تمہید کے بعد اصلی مقصود کے ساتھ ان کو خطاب فرمایا کہ) اے قوم میری (ان نعمتوں اور احسانوں کا مقتضا یہ ہے کہ تم کو جو اس جہاد کے متعلق حکم خداوندی ہوا ہے اس پر آمادہ رہو اور) اس متبرک ملک (یعنی شام کے دار الحکومت) میں (جہاں یہ عمالقہ حکمران ہیں جہاد کے ارادہ سے) داخل ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں لکھ دیا ہے (اس لئے قصد کرتے ہی فتح ہوگی) اور پیچھے (وطن کی طرف) واپس مت چلو کہ پھر بالکل خسارہ میں پڑجاؤ گے (دنیا میں بھی کہ توسیع ملک سے محروم رہو گے اور آخرت میں کہ ترک فریضہ جہاد سے گنہگار رہو گے)۔ کہنے لگے اے موسیٰ وہاں تو بڑے بڑے زبردست آدمی (رہتے) ہیں اور ہم تو وہاں پر ہرگز قدم نہ رکھیں گے۔ جب تک کہ وہ (کسی طرح) وہاں سے نہ نکل جائیں ہاں اگر وہ وہاں سے کہیں چلے جاویں تو ہم بیشک جانے کو تیار ہیں (موسیٰ ؑ کی تائید قول کے لئے) ان دو شخصوں نے (بھی) جو کہ (اللہ سے) ڈرنے والوں (یعنی متقیوں) میں سے تھے (اور) جن پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا تھا (کہ اپنے عہد پر ثابت رہے تھے ان کم ہمتوں کو سمجھانے کے طور پر) کہا کہ تم ان پر (چڑھائی کرکے اس شہر کے) دروازہ تک تو چلو سو جس وقت تم دروازہ میں قدم رکھو گے اس وقت غالب آجاؤ گے (مطلب یہ ہے کہ جلدی فتح ہوجاوے گا، خواہ رعب سے بھاگ جائیں یا تھوڑا ہی مقابلہ کرنا پڑے) اور اللہ تعالیٰ پر نظر رکھو اگر تم ایمان رکھتے ہو (یعنی تم ان کی تنومندی پر نظر مت کرو مگر ان لوگوں پر فہمائش کا اصلاً اثر نہیں ہوا بلکہ ان دو بزرگوں کو تو انہوں نے قابل خطاب بھی نہ سمجھا بلکہ موسیٰ ؑ سے نہایت لا ابالی پن اور گستاخی کے ساتھ) کہنے لگے کہ اے موسیٰ ہم تو (ایک بات کہہ چکے ہیں کہ ہم) ہرگز کبھی بھی وہاں قدم نہ رکھیں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں موجود ہیں (اگر ایسا ہی لڑنا ضرور ہے) تو آپ اور آپ کے اللہ میاں چلے جائیے اور دونوں (جاکر) لڑ بھڑ لیجئے ہم تو یہاں سے سرکتے نہیں (موسیٰ ؑ نہایت زِچ اور پریشان ہوئے اور تنگ آکر) دعا کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار (میں کیا کروں ان پر کچھ بس نہیں چلنا) ہاں اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر البتہ (پورا) اختیار رکھتا ہوں کہ آپ ہم دونوں (بھائیوں) کے اور اس بےحکم قوم کے درمیان (مناسب) فیصلہ فرما دیجئے (یعنی جس کی حالت کا جو مقتضا ہو وہ ہر ایک کے لئے تجویز فرما دیجئے) ارشاد ہوا (بہتر) تو (ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ) یہ ملک ان کے ہاتھ چالیس برس تک نہ لگے گا (اور گھر جانا بھی نصیب نہ ہوگا راستہ ہی نہ ملے گا) یوں ہی (چالیس برس تک) زمین میں سرمارتے پھریں گے (حضرت موسیٰ ؑ نے جو یہ فیصلہ سنا جس کا گمان نہ تھا خیال یہ تھا کہ کوئی معمولی تنبیہ ہوجاوے گی تو طبعاً مغموم ہونے لگے۔ ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ جب ان سرکشوں کے لئے ہم نے یہ تجویز کیا تو یہی مناسب ہے) سو آپ اس بےحکم قوم (کی اس حالت زار) پر (ذرا) غم نہ کیجئے۔
معارف و مسائل
آیات مذکورہ سے پہلی آیت میں اس میثاق کا ذکر تھا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی اطاعت کے بارے میں بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا۔ اور اس کے ساتھ ان کی عام عہد شکنی، اور میثاق کی خلاف ورزی اور اس پر سزاؤں کا بیان تھا۔ ان آیات مذکورہ میں ان کی عہد شکنی کا ایک خاص واقعہ مذکور ہے۔
وہ یہ ہے کہ جب فرعون اور اس کا لشکر غرق دریا ہوگئے اور موسیٰ ؑ اور ان کی قوم بنی اسرائیل فرعون کی غلامی سے نجات پاکر حکومت مصر کے مالک بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنا مزید انعام اور ان کے آبائی وطن ملک شام کو بھی ان کے قبضہ میں واپس دلانے کے لئے بذریعہ موسیٰ ؑ ان کو یہ حکم دیا کہ وہ جہاد کی نیت سے ارض مقدسہ یعنی ملک شام میں داخل ہوں۔ اور ساتھ ہی ان کو یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ اس جہاد میں فتح ان کی ہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقدس زمین کو ان کے حصہ میں لکھ دیا ہے وہ ضرور ان کو مل کر رہے گی۔ مگر بنی اسرائیل اپنی طبعی خصوصیات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے انعامات، غرق فرعون اور فتح مصر وغیرہ کا آنکھوں سے مشاہدہ کرلینے کے باوجود یہاں بھی عہد و میثاق پر پورے نہ اترے۔ اور جہاد شام کے اس حکم الہٰی کے خلاف ضد کرکے بیٹھ گئے۔ جس کی سزا ان کو قدرت کی طرف سے اس طرح ملی کہ چالیس سال تک ایک محدود علاقہ میں محصور و مقید ہو کر رہ گئے کہ بظاہر نہ ان کے گرد کوئی حصار تھا، نہ ان کے ہاتھ پاؤں کسی قید میں جکڑے ہوئے تھے۔ بلکہ کھلے میدان میں تھے۔ اور اپنے وطن مصر کی طرف واپس چلے جانے کے لئے ہر روز صبح سے شام تک سفر کرتے تھے۔ مگر شام کو پھر وہیں نظر آتے تھے جہاں سے صبح چلے تھے۔ اسی دوران حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) کی وفات ہوگئی۔ اور یہ لوگ اسی طرح وادی تیہ میں حیران و پریشان پھرتے رہے۔ ان کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے دوسرے پیغمبر ان کی ہدایت کے لئے بھیجے۔
چالیس برس اس طرح پورے ہونے کے بعد پھر ان کی باقی ماندہ نسل نے اس وقت کے پیغمبر کی قیادت میں جہاد شام و بیت المقدس کا عزم کیا اور اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ پورا ہوا کہ یہ ارض مقدس تمہارے حصہ میں لکھ دی گئی ہے۔ اور یہ اجمال ہے اس واقعہ کا جو آیات مذکورہ میں بیان ہوا ہے۔ اب اس کی تفصیل قرآنی الفاظ میں دیکھئے۔
حضرت موسیٰ ؑ کو جب یہ ہدایت ملی کہ اپنی قوم کو بیت المقدس اور ملک شام فتح کرنے کے لئے جہاد کا حکم دیں تو انہوں نے پیغمبرانہ حکمت و موعظت کے پیش نظر یہ حکم سنانے سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ کے وہ انعامات یاد دلائے جو بنی اسرائیل پر اب تک ہوچکے تھے۔ ارشاد فرمایا
(آیت) اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا وہ فضل و انعام یاد کرو جو تم پر ہوا ہے کہ تمہاری قوم میں بہت سے انبیاء بھیجے اور تم کو صاحب ملک بنادیا اور تمہیں وہ نعمتیں بخشیں جو دنیا جہان میں کسی کو نہیں ملیں۔
اس میں تین نعمتوں کا بیان ہے جن میں سے پہلی نعمت ایک روحانی اور معنوی نعمت ہے کہ ان کی قوم میں مسلسل انبیاء بکثرت بھیجے گئے۔ جس سے بڑھ کر اخروی اور معنوی اعزاز کوئی نہیں ہوسکتا۔ تفسیر مظہری میں نقل کیا ہے کہ کسی قوم اور کسی امت میں انبیاء کی کثرت اتنی نہیں ہوئی کہ جتنی بنی اسرائیل میں ہوئی ہے۔
امام حدیث ابن ابی حاتم نے بروایت اعمش نقل کیا ہے کہ قوم بنی اسرائیل کے آخری دور میں جو حضرت موسیٰ ؑ سے لے کر عیسیٰ ؑ تک ہے۔ صرف اس دور میں ایک ہزار انبیاء بنی اسرائیل میں بھیجے گئے۔ دوسری نعمت جس کا ذکر اس آیت میں ہے، وہ دینوی اور ظاہری نعمت ہے کہ ان کو ملوک یعنی صاحب ملک و سلطنت بنادیا گیا۔ اس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل جو مدت سے فرعون اور قوم فرعون کے غلام بنے ہوئے دن رات ان کے مظالم کا شکار رہتے تھے، آج اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن کو نیست و نابود کرکے ان کو ان کی حکومت و سلطنت کا مالک بنادیا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انبیاء کے معاملہ میں تو ارشاد ہوا کہ (آیت) جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ یعنی تمہاری قوم میں سے بہت سے لوگوں کو انبیاء بنادیا گیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ پوری قوم انبیاء نہیں تھی۔ اور یہی حقیقت بھی ہے کہ انبیاء معدوددے چند ہوتے ہیں اور پوری قوم ان کی امت اور متبع ہوتی ہیں۔ اور جہاں دنیا کے ملک و سلطنت کا ذکر آیا تو وہاں فرمایاوَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۔ یعنی بنادیا تم کو ملوک جس کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ تم سب کو ملوک بنادیا۔ لفظ ملوک ملک کی جمع ہے۔ جس کے معنی عرف عام میں بادشاہ کے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جس طرح پوری قوم نبی اور پیغمبر نہیں ہوتی، اسی طرح کسی ملک میں پوری قوم بادشاہ بھی نہیں ہوتی۔ بلکہ قوم کا ایک فرد یا چند افراد حکمران ہوتے ہیں۔ باقی قوم ان کے تابع ہوتی ہے۔ لیکن قرآنی الفاظ نے ان سب کو ملوک قرار دیا۔
اس کی ایک وجہ تو وہ ہے جو بیان القرآن میں بعض اکابر کے حوالہ سے بیان کی گئی ہے کہ عرف عام میں جس قوم کا بادشاہ ہوتا ہے اس کی سلطنت و حکومت کو اسی پوری قوم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ جیسے اسلام کے قرون وسطی میں بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت کہلاتی تھی۔ اسی طرح ہندوستان میں غزنوی اور غوریوں کی حکومت پھر مغلوں کی حکومت پھر انگریزوں کی حکومت پوری قوم کے افراد کی طرف منسوب کی جاتی تھی۔ اس لئے جس قوم کا ایک حکمران ہو وہ پوری قوم حکمران اور بادشاہ کہلاتی ہے۔
اس محاورہ کے مطابق پوری قوم بنی اسرائیل کو قرآن کریم نے ملوک قرار دیا۔ اس میں اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ اسلامی حکومت در حقیقت عوامی حکومت ہوتی ہے۔ عوام ہی کو اپنا امیر و امام منتخب کرنے کا حق ہوتا ہے اور عوام ہی اپنی اجتماعی رائے سے اس کو معزول بھی کرسکتے ہیں۔ اس لئے صورةً اگرچہ فرد واحد حکمران ہوتا ہے مگر درحقیقت وہ حکومت عوام ہی کی ہوتی ہے۔
دوسری وجہ وہ ہے جو ابن کثیر اور تفسیر مظہری وغیرہ میں بعض سلف سے نقل کی ہیں کہ لفظ ملک بادشاہ کے مفہوم سے زیادہ عام ہے۔ ایسے شخص کو ملک کہہ دیا جاتا ہے۔ جو آسودہ حال ہو، مکان، جائیداد، نوکر چاکر رکھتا ہو۔ اس مفہوم کے اعتبار سے اس وقت بنی اسرائیل سے ہر فرد ملک کا مصداق تھا۔ اس لئے ان سب کو ملوک فرمایا گیا۔
تیسری نعمت جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ وہ معنوی اور ظاہری دونوں قسم کی نعمتوں کا مجموعہ ہے کہ فرمایا(آیت) وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤ ْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ یعنی تم کو وہ نعمتیں عطا فرمائیں جو دنیا جہان میں کسی کو نہیں دی گئیں ان نعمتوں میں معنوی، شرف اور نبوت و رسالت بھی داخل ہے، اور ظاہری حکومت و سلطنت اور مال و دولت بھی البتہ یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ بنص قرآن امت محمدیہ ساری امتوں سے افضل ہے۔
ارشاد قرآنی(آیت) کنتم خیر امة اخرجت للناس اور وکذلک جعلنکم امة وسطا۔ اس پر شاہد ہے اور حدیث نبوی کی بیشمار روایات اس کی تائید میں ہیں۔ جواب یہ کہ اس آیت میں دنیا کے ان لوگوں کا ذکر ہے جو بنی اسرائیل کے موسوی عہد میں موجود تھے۔ کہ اس وقت پورے عالم میں کسی کو وہ نعمتیں نہیں دی گئی تھیں جو بنی اسرائیل کو ملی تھیں۔ آئندہ زمانہ میں کسی امت کو ان سے بھی زیادہ نعمتیں مل جائیں یہ اس کے منافی نہیں۔
Top