Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 28
بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ
بَلْ : بلکہ بَدَا لَهُمْ : ظاہر ہوگیا ان پر مَّا : جو كَانُوْا يُخْفُوْنَ : وہ چھپاتے تھے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَلَوْ : اور اگر رُدُّوْا : واپس بھیجے جائیں لَعَادُوْا : تو پھر کرنے لگیں لِمَا نُهُوْا : وہی روکے گئے عَنْهُ : اس سے و : اور َاِنَّهُمْ : بیشک وہ لَكٰذِبُوْنَ : جھوٹے
کوئی نہیں بلکہ ظاہر ہوگیا جو چھپاتے تھے پہلے، اور اگر پھر بھیجے جاویں تو پھر بھی وہی کام کریں جس سے منع کئے گئے تھے اور وہ بیشک جھوٹے ہیں
دوسری آیت میں علیم وخبیر احکم الحاکمین نے ان کی اس گھبرائی ہوئی تمنا کا پول اس طرح کھولا کہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ جیسے ہمیشہ سے جھوٹ کے عادی تھے وہ اپنے اس قول اور تمنا میں بھی جھوٹے ہیں، اور بات اس کے سوا نہیں ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ جو حقائق ان کے سامنے لائے گئے تھے اور یہ لوگ ان کو جاننے پہچاننے کے باوجود محض ہٹ دھرمی سے یا دنیا کی طمع خام کی وجہ سے ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیا کرتے تھے آج وہ سب ایک ایک کرکے ان کے سامنے آگئے، اللہ جل شانہ، کی یکتائی اور قدرت کاملہ کے مظاہر آنکھوں سے دیکھے، انبیاء (علیہم السلام) کی سچائی کا مشاہدہ کیا۔ آخرت میں دوبارہ زندہ ہونے کا مسئلہ جس کا ہمیشہ انکار رہتا تھا اب حقیقت بن کر سامنے آگیا۔ جزاء و سزاء کا مظاہرہ دیکھا، دوزخ کا مشاہدہ کیا تو اب ان کے پاس کوئی حجت مخالفت کی باقی نہ رہی۔ اس لئے یوں ہی کہنے لگے کہ کاش ہم پھر دنیا میں واپس ہوجاتے، تو مومن ہو کر لوٹتے۔
لیکن ان کے پیدا کرنے والے علیم وخبیر مالک نے فرمایا کہ اب تو یہ ایسا کہہ رہے ہیں، لیکن بالفرض ان کو دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہ پھر اپنے اس قول وقرار کو بھول جائیں گے اور پھر سب کچھ وہی کریں گے جو پہلے کیا تھا، اور جن حرام چیزوں سے ان کو روکا گیا تھا یہ پھر ان میں مبتلا ہوجائیں گے، اس لئے ان کا یہ کہنا بھی ایک جھوٹ اور فریب ہے۔
ان کے اس قول کو جھوٹ فرمانا مآل کار کے لحاظ سے بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جو اب وعدہ کر رہے ہیں کہ اگر دوبارہ دنیا میں لوٹائے جائیں تو تکذیب نہ کریں گے، مگر ایسا ہوگا نہیں، یہ وہاں جاکر پھر بھی تکذیب ہی کریں گے، اور اس کذب کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت بھی جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں سچے ارادہ سے نہیں بلکہ محض دفع الوقتی کے طور پر عذاب سے بچنے کے لئے کہہ رہے ہیں، دل میں اب بھی ان کا ارادہ نہیں۔
Top