Al-Qurtubi - Al-An'aam : 28
بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ
بَلْ : بلکہ بَدَا لَهُمْ : ظاہر ہوگیا ان پر مَّا : جو كَانُوْا يُخْفُوْنَ : وہ چھپاتے تھے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَلَوْ : اور اگر رُدُّوْا : واپس بھیجے جائیں لَعَادُوْا : تو پھر کرنے لگیں لِمَا نُهُوْا : وہی روکے گئے عَنْهُ : اس سے و : اور َاِنَّهُمْ : بیشک وہ لَكٰذِبُوْنَ : جھوٹے
ہاں یہ جو کچھ پہلے چھپایا کرتے تھے (آج) ان پر ظاہر ہوگیا ہے اور اگر یہ (دنیا میں) لوٹائے بھی جائیں تو جن (کاموں سے ان) کو منع کیا گیا تھا وہی پھر کرنے لگیں۔ کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں۔
آیت نمبر 28 :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : بل بدالھم ما کانوا یخفون من قبل ان کی تمنی اور ایمان کے دعوی سے اضراب ہے کہ اگر انہیں واپس بھیجا جائے۔ بدالھم کے معنی میں علماء کے مختلف اقوال ہیں اس تعیین کے بعد کہ مراد کون ہیں۔ بعض علماء نے کہا : اس سے مراد منافقین ہیں، کیونکہ کفر کا اسم ان کو بھی شامل ہے پس ضمیر بعض مذکورین کی طرف راجع ہے۔ نحاس نے کہا : یہ انتہائی شیریں اور فصیح کلام ہے۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد کفار ہیں، انہیں جب نبی کریم ﷺ وعظ کرتے تھے تو وہ ڈرتے تھے اور اس خوف کو چھپاتے تھے تاکہ ان کے ضعیف اور کمزور لوگ پہچان نہ لیں پس یہ قیامت کے روز ظاہر ہوگا (1) (المحررالوجیز، جلد 2، صفحہ 282) اسی وجہ سے حسن نے کہا : بدالھم بعض کے لیے ظاہر ہوا جو وہ بعض سے چھپاتے تھے۔ بعض نے فرمایا : بلکہ ظاہر ہوا ان کے لیے جو شرک سے انکار کرتے تھے۔ وہ کہیں گے آیت : واللہ ربنا ما کنا مشرکین پس اللہ تعالیٰ ان کے اعضاء کو بولنے کی طاقت بخشے گا اور وہ ان کے خلاف کفر کی گواہی دیں گے یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے پہلے جو چھپایا تھا وہ عیاں ہوگا۔ یہ ابوروق نے کہا ہے۔ اور بعج نے فرمایا : بدالھم ان کے لیے عیاں ہوگا جو وہ کفر میں سے چھپاتے تھے یعنی ان کے برے اعمال ظاہر ہوں گے جیسا کہ فرمایا : آیت : و بدالھم من اللہ مالم یکونوا یحتسبون (الزمر) مبرد نے کہا : ان کے کفر کی جزا ظاہر ہوگی جس کو وہ چھپاتے تھے۔ بعض نے فرمایا : اس کا معنی یہ ہے کہ ظاہر ہوگا ان کے لیے جنہوں نے گمراہ لوگوں کی اتباع کی وہ جو گمراہ لوگ بعث اور قیامت کے امر سے چھپاتے تھے، کیونکہ اس کے بعد ہے آیت : و قالوا ان ھی الا حیا تناالدنیاوما نحن بمبعوثین اور کہتے ہیں نہیں کوئی زندگی بجز ہماری اس دنیاوی زندگی کے اور ہم نہیں اٹھائے جائیں گے (قبروں سے) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : و لوردوابعض نے فرمایا : عذاب دیکھنے کے بعد۔ اور بعض نے فرمایا : عذاب دیکھنے سے پہلے اگر وہ واپس بھجے گئے۔ آیت : لعادوالما نھواعنہ یعنی وہ اسی شرک وغیرہ کی طرف لوٹائے جائیں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے، ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی آیات دیکھیں، پھر بھی ہٹ دھرمی کی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : وانھم لکذبون اس کے متعلق خبر دی ہے اور ان کی اس حالت کو بیان کیا ہے جس پر وہ دنیا میں تھے کہ وہ رسولوں کی تکذیب کرتے تھے اور دوبارہ اٹھنے کا انکار کرتے تھے جیسا کہ فرمایا : آیت : و ان ربنا لیحکم (النحل : 124 ) اس کو آئندہ کی حالت حکایت کیا۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ جھوٹے ہیں اس میں جو انہوں نے اپنے بارے میں خبردی کہ وہ تکذیب نہیں کریں گے مومن ہوں گے۔ یحییٰ بن وثاب نے ولو ردوارا کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے، کیونکہ اصل رددوا تھا دال کا کسرہ را کی طرف نقل کیا گیا ،
Top