Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَتَنْزِيْلُ : البتہ اتارا ہوا رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اور بیشک یہ نہایت اہتمام سے خداوند عالم کا اتارا ہوا ہے
آگے کا مضمون … آیات 227-192 خاتمہ سورة آگے خاتمہ سورة کی آیات ہیں اور سلسلہ کلام سورة کی تمہید یعنی اصل عمود سے جڑ گیا ہے۔ وہاں آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ قرآن کا کتاب الٰہی ہونا بالکل واضح ہے جو لوگ اس کو ماننے کے لئے کسی نشانی عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ محض نہ ماننے کا ایک بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ اگر اللہ چاہے تو کوئی ایسی نشانی بھی ان کو دیکھا سکتا ہے جس کے آگے ان کی اکڑی ہوئی گردنیں جھک جائیں لیکن وہ چاہتا ہے کہ اس طرح کی کوئی نشانی دیکھنے کے بجائے یہ عقل و بصیرت سے کام لیں۔ تاہم اگر ان کی یہی ہٹ دھرمی قائم رہی تو قرآن ان کو جن خطرات سے آگاہ کر رہا ہے ان میں سے ایک خطرہ ان کے سامنے آ کے رہے گا۔ اس کے بعد اسی حقیقت کو مبرہن کرنے کے لئے حضرات انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی قوموں کی سر گزشتیں شرع ہوگئی تھیں کہ اگر ان کو کسی نشانی ہی کی طلب ہے تو ان واقعات سے کیں سبق نہیں لے تا ؟ ان میں سے ہر واقعہ کے اندر نشانی موجود ہے۔ اگر انہی قوموں کی روش انہوں نے بھی اختیار کی تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے ساتھ خدا کا معاملہ اس سے مختلف ہو جو ان قوموں کے ساتھ ہوا۔ سرگزشتوں کا یہ سلسلہ حضرت شعیب اور ان کی قوم کی سرگزشت پر ختم ہوا۔ اس کے بعد تاریخی اعتبار سے حضرت موسیٰ کا دور شروع ہوجاتا ہے۔ ان کی سرگزشت چونکہ اوپر نہایت تفصیل کے ساتھ باکن ہوچکی تھی اس وجہ سے سے یہاں اس کو نہیں لیا بلکہ کلام اصل عمود کی طرف لوٹ آیا کہ یہ قرآن خدا کا اتارا ہوا کلام ہے۔ یہ کوئی شیطانی القاء نہیں ہے اور نہ یہ کوئی شاعری ہے۔ اس کی پیشین گوئیاں پچھلے صحیفوں میں بھی موجود ہیں اور علمائے بنی اسرائیل ان سے واقف ہیں اگر یہ بدقسمت لوگ اس کو جھٹلاتے ہیں تو پیغمبر کو ان کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنی ساری توجہ اپنے ایمان لانے والے ساتھیوں پر مرکوز کر دینی چاہئے۔ یہ شامت زدہ لوگ خود اپنا انجام بہت جاء دیکھ لیں گے۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ آیت 98-93 قرآن کا مرتبہ و مقام انہ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ چونکہ اصل سیاق کلام، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، واضح ہے اس وجہ سے ضمیر مرجع کے بغیر آگئی ہے۔ تنزیل کے معنی اہتمام کے ساتھ اتارنے کے ہیں۔ یہ قرآن کے منکرین و مخلافین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ قرآن کاہنوں کے کلام کی طرح کوئی شیطانی القاء نہیں ہے بلکہ نہایت اہتمام سے اتارا ہو اللہ رب العالمین کا کلا ہے۔ اس وجہ سے اس کی قدر کریں۔ اس کی تکذیب کر کے اپنی شامت نہ بلائیں۔ نزل بہ الروح لامین الروح الامین حضرت جبرئیل ؑ کا لقب ہے۔ امین کی صفت اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ حضرت جبرئیل کے حوالہ کیا وہ ہے ہم وکات بغیر کسی ادنیٰ تعبیر و تبدل کے، انہوں نے پیغمبر کو پہنچایا ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی خیانت نہیں کی ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اسلام دشمنی کے جوش میں یہود اور روافض نے حضرت جبریل پر نعوذ باللہ خیانت کا الزام بھی لگایا ہے۔ بقرہ کی تفسیر میں اس کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں۔ علی قلبک لتکون من المنذرین ضمیر کا مرجع آنحضرت ﷺ ہیں۔ یعنی اس وحی کا مہبط تمہارا انفس نہیں بلکہ قلب ہے جو انسان کے وجود کا سب سے اشرف و اعلیٰ حصہ ہے اس وجہ سے اس شبے کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اس میں کسی نفانی وسوسہ یا شیطانی و غدغہ کو کوئی دخل ہو۔ اگرچہ آیت میں خطاب ظاہر الفاظ کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ کی طرف ہے لیکن کلام کا مقصود مخالفین پر اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ یہ کالم، پاک منبع سے نکلا ہے، پاک ذریعہ سے اترا ہے اور پاک ترین محل میں اس نے اپنا مستقر بنایا ہے۔ لتکون من المنذرین یہ اس کلام کے اس اہتمام و شان کے ساتھ اتارے جانے کا مقصد بیان ہوا ہے کہ یہ اس لئے اتارا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے تم ان لوگوں کو جو خدا اور آخرت سے بالکل بےپرا ہو کہ زندگی بسر کر رہے ہیں اس غفلت کے نتائج و عواقب سے اچھی طرح آگاہ کر دو۔ یعنی یہ کلام محض کلام نہیں ہے بلکہ یہ انذار ہے اور تم ایک منذر ہو اس وجہ سے لوگ اس کو گوش ہوش سے سنیں ورنہ ان نتائج کو بھگتنے کے لئے تیار رہیں جن کو یہ خبردے رہا ہے۔
Top