Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 31
وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَاۤ اَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ١ۙ وَ اَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیْمًا
وَمَنْ
: اور جو
يَّقْنُتْ
: اطاعت کرے
مِنْكُنَّ
: تم میں سے
لِلّٰهِ
: اللہ کی
وَرَسُوْلِهٖ
: اور اس کا رسول
وَتَعْمَلْ
: اور عمل کرے
صَالِحًا
: نیک
نُّؤْتِهَآ
: ہم دیں گے اس کو
اَجْرَهَا
: اس کا اجر
مَرَّتَيْنِ ۙ
: دوہرا
وَاَعْتَدْنَا
: اور ہم نے تیار کیا
لَهَا
: اس کے لیے
رِزْقًا كَرِيْمًا
: عزت کا رزق
اور جو تم میں سے خدا اور اس کے رسول کی فرمانبردار رہے گی اور عمل نیک کرے گی اس کو ہم دونا ثواب دیں گے اور اسکے لئے ہم نے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے
فضائل وخصائص ازواج مطہرات قال اللہ تعالیٰ ومن یقنت منکن للہ ورسولہ۔۔۔ الی۔۔۔ ان اللہ کان لطیفا خبیرا۔ (ربط) گذشتہ آیات میں اگرچہ ازواج مطہرات کی تنبیہ اور تادیب کا ذکر تھا لیکن وہ تنبیہ وتادیب بھی ان کے شرف اور امتیاز کو متضمن تھی اس لئے کہ فاحشہ کے ارتکاب پر دوہرے عذاب کی دھمکی بھی ان کے بلند مرتبہ ہونے کی وجہ سے تھی اور اسی شرف کی وجہ سے خطاب صراحۃ خود ازواج مطہرات کو تھا۔ اب آئندہ آیات میں بھی صراحۃً ازواج مطہرات کو خطاب کر کے ان کے مزید شرف اور امتیاز کو بیان کرتے ہیں تاکہ پہلے سے زیادہ انقیاد اور پرہیزگاری اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اور زہد اور قناعت پر اور دنیا سے بیزاری بلکہ دست برداری اور دار آخرت کے اختیار اور اس کی تیاری پر خوب مستحکم ہوجائیں۔ اور ان کے دل دنیا کی حرص اور طمع سے بالکلیہ پاک اور صاف ہوجائیں اور ان خداداد فضائل وخصائص پر حق تعالیٰ کا شکر بھی کریں۔ اور فخر بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کی تمام عورتوں پر شرف اور فضیلت بخشی اور ان سے دوہرے اجر کا وعدہ فرمایا۔ اور ان کی تطہیر اور تزکیہ کا ارادہ فرمایا۔ (نیز) گذشتہ آیات میں جو تخییر کا مضمون تھا ان میں آنحضرت ﷺ کو خطاب تھا کہ آپ ﷺ اپنی بیبیوں سے یہ کہہ دیں کہ تم کو اختیار ہے کہ دنیا کو اختیار کرو یا آخرت کو۔ اب ان آیات میں حق تعالیٰ کی طرف سے خود ازواج مطہرات کو خطاب ہے جو ان کے شرف اور کرامت کی واضح دلیل ہے کہ ازواج مطہرات نے فقرو فاقہ کے ساتھ خدا کے رسول ﷺ کی زوجیت کو اختیار کیا اور دار آخرت کو دار دنیا کے مقابلہ میں ترجیح دی اس لئے حق جل شانہ آئندہ آیات میں ازواج مطہرات کو خطاب فرماتے ہیں کہ تم نبی کی بیبیاں ہو اور امہات المومنین ہو لہٰذا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبودیت اور تقویٰ اور مکارم اخلاق اور محاسن اعمال میں تم کو سب سے آگے ہونا چاہئے اور زمانہ جاہلیت کی بری عادتوں سے تم کو انتہائی دور رہنا چاہے تم طیبات اور مطہرات ہو۔ تمہارے گھروں میں اللہ کی وحی نازل ہوتی ہے اور ملائکہ کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ تمہارے گھرانے قدسیوں کی بازگشت ہیں طبقہ نسواں میں تم سے زیادہ بزرگ کوئی طبقہ نہیں لہٰذا تم کو چاہیے کہ ان اپنے گھروں سے قدم باہر نہ نکالو۔ مبادا شیاطین الانس والجن کا کوئی تیر نظر تمہارے لباس تقویٰ و طہارت کو نہ آلگے اور گھر سے باہر نکل کر کسی گندگی اور پلیدی کا کوئی چھینٹا تم کو نہ لگ جائے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی کی عورتوں ! تم میں سے جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اور خشوع و خضوع کے ساتھ ہمیشہ اطاعت اور فرمانبرداری میں لگی رہے اور نیک کام کرتی رہے تو ہم اس کو اس کے نیک کاموں کا دوہرا اجر دیں گے ایک اجر طاعت اور عمل صالح پر اور ایک اجر رسول ﷺ کی تطییب خاطر پر اور اس کے علاوہ ہم نے اس کے لئے جنت میں عزت کی روزی بطور ذخیرہ تیار کر رکھی ہے ازواج مطہرات چونکہ دنیا میں رزق دنیوی سے دستبردار ہوئیں اور دنیا کے مقابلہ میں دار آخرت کو اختیار کیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے آخرت میں رزق کریم کا وعدہ فرمایا جو ان کے لئے بطور ذخیرہ وہاں محفوظ ہے۔ اے نبی کی بیبیو ! تم اور عورتوں جیسے نہیں تمہاری شان تمام عورتوں سے ممتاز ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو سید المرسلین ﷺ کی زوجیت کے لئے منتخب فرمایا۔ دنیا اور آخرت میں تم اس رسول کی ازواج مطہرات ہو اور تم کو امہات المومنین بنایا۔ دنیا کی کوئی عورت اس فضیلت اور منزلت میں تمہاری شریک اور سہیم نہیں مگر اس فضیلت کے لئے شرط یہ ہے کہ تم خدا سے ڈرتی رہو۔ بارگاہ خداوندی میں فضیلت و کرامت کا دارومدار تقویٰ پر ہے کما قال تعالیٰ ان اکرمکم عند اللہ اتقکم محض اللہ کے نبی کی زوجیت اور اس سے اتصال ضروری نہیں جب تک تقویٰ اور پرہیزگاری اس کے ساتھ مقرون نہ ہو۔ زہد وتقویٰ فضل را محراب شد فائدہ : یہ کلام تعلیقی ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ معاذا للہ ازواج مطہرات متقی نہ تھیں تعلیقی کلام وقوع اور عدم وقوع پر دلالت نہیں کرتا اس شرط سے فقط یہ بتلانا مقصود ہے کہ رسول خدا سے فقط علاقہء زوجیت اور محض اتصال ظاہری فضیلت اور شرف کے لئے کافی نہیں جب تک کہ درع اور تقویٰ اس کے ساتھ مقرون نہ ہو اور واقعات اور حالات سے اور کتاب وسنت کی شہادات سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہے کہ الحمد للہ ازواج مطہرات از اول تا آخر تمام زندگی تقویٰ اور پرہیزگاری پر قائم رہیں حضور پر نور ﷺ کی حیات میں بھی اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی اور اسی وجہ سے یہ حکم نازل ہوا ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا۔ ازواج مطہرات دنیا اور آخرت دونوں ہی میں آپ ﷺ کی زوجہ ہیں۔ مخالفین اسلام نے بڑی کوشش کی مگر کوئی خفیف سے خفیف واقعہ بھی ایسا نہ بتا سکے جس سے ان باتوں کی مخالفت ثاثت ہوتی جو ان آیات میں مذکور ہے۔ اب آئندہ آیات میں ازواج مطہرات کو کچھ آداب کی تلقین فرماتے ہیں پس اے پیغمبر کی عورتو ! اگر تم اپنے خداداد تقویٰ اور طہارت کی حفاظت چاہتی ہو تو نامحرم مردوں سے بات کرنے میں نرمی نہ کرنا۔ مبادا وہ شخص جس کے دل میں نفسانیت کی کوئی بیماری یا روگ ہے وہ تمہاری نرم اور نازک گفتگو سے تمہارے اندر کو طمع لگا بیٹھے۔ عورت کی آواز میں قدرت نے طبعی طور پر ایک نزاکت رکھی ہے پس کسی عورت کا کسی غیر مرد سے نرم گفتگو کرنا مقدمہ زنا کا ہے جو تقویٰ اور طہارت اور عفت اور عصمت کے لئے نقصان دہ اور مضرت رساں ہے جس کے دل میں شہوت کی بیماری ہوتی ہے وہ نرم اور نازک گفتگو سے عورت میں طمع کرنے لگتا ہے جس سے فساد عظیم کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے پس اے نبی کی عورتو ! تم اپنے مقام بلند کے لحاظ سے اس بارے میں بہت زیادہ احتیاط برتو اور اس طرح بات نہ کرو کہ جس سے کوئی نفس پرست تمہارے اندر طمع کرنے لگے۔ اور اگر کسی ضرورت کی بنا پر کسی سے بات کرنی پڑے تو سیدھی سیدھی بات کرو یعنی ایسے انداز اور ایسے لب و لہجہ میں بات کرو جس میں قدرے سختی اور درشتی اور روکھا پن ہو تاکہ بات سننے والا تمہارے اندر کوئی طمع نہ لگا سکے اور یہ بد اخلاقی نہیں بلکہ اپنی عفت اور عصمت کی حفاظت ہے۔ بداخلاقی وہ ہے جو دوسرے کی دل آزادی اور ایذا کا سبب بنے اور عصمت وناموس کی حفاظت کا بہترین طریقہ ہے کہ اپنے گھروں میں قرار پکڑو۔ بغیر ضرورت کے گھر سے باہر نکلنا اور وہ بھی بلا پردہ اور بلا نقاب کے شریعت میں قطعا ممنوع ہے بلا پر دہ اور بلا نقاب عورت کا گھر سے باہر قدم نکالنا شہوانی اور نفسانی لوگوں کی سوئی ہوئی طمع کو جگاتا ہے شریعت مطہرہ یہ چاہتی ہے کہ بدمعاشوں کی ناپاک نظروں سے عورت کے چہرہ کی حفاظت کی جائے اس لئے عورتوں کو حکم دیا کہ وہ بلا ضرورت شدیدہ گھر سے باہر نہ نکلیں اور اسی مصلحت کی بنا پر دوسرے مواقع میں بھی عورتوں کے لئے یہی حکم دیا گیا۔ لا تخرجوہن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ یعنی عورتوں کو گھر سے باہر نہ نکلنے دو تاکہ فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ والملاتی یاتین الفاحشۃ من نساء کم فاستشھدوا علیہن اربعۃ منکم فان شھدوا فامسکوہن فی البیوت حتی یتوفا من الموت او یجعل اللہ لہن سبیلا۔ یعنی جو عورتیں بےحیائی کی مرتکب ہوں تو ان کو گھروں میں روک کر رکھو۔ کیونکہ جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شہوت پرستوں کے دل اس کے طمع میں پڑجاتے ہیں۔ فیطمع الذی فی قلبہ مرض اور موجودہ قانون بھی یہی ہے کہ جو چیزیں قانونا ممنوع اور جرم ہیں ان کے وسائل وذرائع بھی قانونا ممنوع اور جرم ہیں کیونکہ وہ جرم میں معین ہیں جیسے کسی کو ڈرانا اور دھمکانا اور کوٹھڑی میں بند کرنا اور کسی قاتل کو تلوار اور پستول لا کردینا اسی طرح قانون شریعت میں زنا کے ذرائع اور وسائل بھی ممنوع اور حرام ہیں مثلاً نامحرم کو دیکھنا اور اس سے باتیں کرنا یا اس کی باتیں سننا۔ کما قال تعالیٰ ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسؤلا۔ غرض یہ کہ عورتوں کا اپنے گھروں میں قرار پکڑنا بدباطنوں کی طمع سے حفاظت کا پورا سامان ہے اسی لئے اب اس حکم کی تاکید کے لئے ارشاد فرماتے ہیں اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق تم اپنی زیب وزینت دکھاتی نہ پھرو۔ زمانہ جاہلیت کی عورتیں بےپردہ پھرتی تھیں اور اپنے حسن و جمال اور زیب وزینت اور آرائش وزیبائش کا علانیہ مظاہرہ کرتی تھیں۔ شریعت مقدسہ نے اس بےحیائی کو تمام عورتوں کا اظہار تجمل بلا شبہ اہل شہوت کی طمع کا سبب ہے اور ازواج مطہرات کے حق میں مزیدایذا پیغمبر کا بھی سبب ہے۔ جاننا چاہئے کہ ان آیات کا نزول اگرچہ ازواج مطہرات کے بارے میں ہوا مگر حکم عام ہے ان آیات کا تمام سیاق وسباق ازواج مطہرات کی فضیلت کے بیان میں ہے اور یہ بتلانا مقصود ہے کہ ازواج مطہرات کی شان اور عورتوں جیسی نہیں وہ نبی کی بیبیاں ہیں اور امہات المومنین ہیں وہ اگر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں تو ان کو دوہرا اجر ہے۔ اور اگر معصیت کریں تو دوہرا عذاب ہے اور یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اطاعت خدا و رسول اور تقویٰ اور اعمال صالحہ کی بجا آوری صرف ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص ہے اسی طرح سمجھو کہ وقرن فی بیوتکن۔ اور ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی میں اگرچہ خطاب ازواج مطہرات کو ہے لیکن قرار فی البیوت کا حکم اور تبرج جاہلیت کی ممانعت ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ عام مومنات کے لئے ہے اور بلا ضرورت گھروں سے باہرنکلنا اور اپنی زینت اور حسن و جمال کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا اور کھلے منہ باہر پھرنا اور غیروں سے کلام کرنا۔ بلاشبہ ہر مسلمان عورت پر حرام ہے اس میں ازواج مطہرات کی کوئی خصوصیت نہیں کیونکہ ہر ادنیٰ عقل والا جانتا ہے کہ ایسا خروج جس میں زینت کا اظہار ہو اور غیر مردوں سے فقط کلام ہی نہ ہو بلکہ ہنسی اور دل لگی بھی ہو بلاشبہ موجب فتنہ ہے اور زنا کا مقدمہ ہے جس میں کسی عقل کے اندھے کو بھی شبہ نہیں اس فتنہ کا انسداد بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ عورتیں اپنے گھروں ہی میں رہیں اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں اور اگر شدید ضرورت کی بناء پر باہر نکلیں تو بغیر زینت کے اپنے تمام بدن کو ڈھک کر اور میلے کچیلے کپڑوں میں نکلیں اور سڑک کے کنارے کنارے مردوں سے الگ تھلگ ہو کر چلیں۔ عورت کو گھر سے باہر نکلنے کی یہ تمام قیود احادیث سے ثابت ہیں۔ یہاں تک جو احکام بیان کئے گئے وہ عفت اور عصمت کے متعلق تھے جن سے بےحیائی کی روک تھام اور زنا ظاہری اور باطنی کی بندش مقصود تھی کیونکہ نفس کی طمع یہ باطنی زنا ہے اب آئندہ آیات میں دوسرے احکام عام کی ہدایت فرماتے ہیں اور اے نبی کی بیبیو ! تم نماز کو ٹھیک قائم رکھو اور اس کی پابندی رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتی رہو جس درجہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گی اسی درجہ کی تم کو طہارت حاصل ہوگی جس آئندہ آیت میں ذکر آتا ہے۔ اے نبی کے گھر والو ! جان لو کہ بس اللہ ان احکام اور ہدایت سے یہی چاہتا ہے کہ ظاہری اور باطنی گندگی کو تم سے خاص طور پر دور کر دے تاکہ تمہارا لباس تقویٰ میلا اور خراب نہ ہو اور تم کو خوب پاک اور ستھرا کر دے کہ معصیت کے میل وکچیل کا نام ونشان بھی نہ رہے اور یہ تطہیر تم کو جب حاصل ہوگی جب تم ہمارے ان احکام اور ہدایات پر عمل کرو گے۔ اس آیت میں اذہاب رجس سے اور تطہیر سے تزکیہء باطن مراد ہے جو ولایت کا اعلیٰ ترین مقام ہے عصمت کے معنی مراد نہیں اس لئے کہ عصمت سوائے انبیا کرام (علیہ السلام) کے کسی کو حاصل نہیں۔ پس جس طرح ان آیات میں اگرچہ خطاب ازواج مطہرات کو ہے مگر اقامۃ صلاۃ اور ایتا زکوٰۃ اور اطاعت رسول کا حکم ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ عامہ مومنات ومسلمات پر یہ تینوں حکم فرض اور لازم ہیں اسی قرار فی البیوت اور ترک تبرج کا حکم بھی ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام مومنات ومسلمات اس حکم کی مکلف اور پابند ہیں چونکہ حق جل شانہ کا ارادہ یہ ہے نبی کے گھرانہ کو فواحش اور منکرات سے بالکلیہ پاک کر دے اس لئے ان آیات میں خاص طور پر ازواج مطہرات کو خطاب فرمایا کہ تمہاری شان عام مومنات جیسی نہیں اس لئے تم کو اطاعت خدا و رسول اور تقویٰ و طہارت میں سب سے آگے ہونا چاہئے تاکہ تمہارے لباس تقویٰ و طہارت پر اور تمہاری چادر عصمت و نزاہت پر کسی فاحشہ کا میل کچیل اور گردو غبار بھی نہ لگنے پائے تم دنیا کی عورتوں کے لئے مثال اور نمونہ ہو لہٰذا تم سب کا کامل اور اکمل ہونا چاہئے۔ پھر دیکھو کہ اسی سورت کے اخیر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یایھا النبی قل الازواجک وبناتک ونساء ال مومنین یدنین علیہم من جلا بیبھن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی بیبیوں کو اور نبی ﷺ کی بیٹیوں کو اور تمام مسلمان عورتوں کو منہ ڈھکنے کا حکم دیا ہے۔ پس اسی طرح سمجھو کہ قرار فی البیوت فقط ازواج مطہرات ہی پر فرض نہیں بلکہ تمام مومنات اور مسلمان پر فرض ہے اور تبرج جاہلیت تمام مسلمان عورتوں کے حق میں حرام ہیں۔ خلاصہء کلام یہ کہ ان آیات میں جس قدر بھی احکام مذکور ہیں وہ ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام عورتوں کے لئے عام ہیں البتہ ازواج مطہرات کے حق میں ان کی خصوصیت کی وجہ سے سب سے زیادہ موکد اور مہتم بالشان ہیں جیسے عالم دین پر بہ نسبت جاہل کے احکام شریعت کی پابندی زیادہ لازم ہے۔ اسی طرح ان احکام کی پابندی ازواج مطہرات کے لئے تمام عورتوں سے زیادہ لازم اور موکد ہے۔ اس لئے کہ وہ اہل بیت نبی ہیں اور امہات المومنین ہیں اس لئے ان کا فریضہ اور ذمہ داری تمام عورتوں سے بڑھ کر ہے۔ اور یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں کہ یہ احکام ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص ہیں۔ جب علت عام ہے تو لا محالہ حکم بھی عام ہوگا کیا کوئی ادنیٰ عقل والا اس کے کہنے کی جرات کرسکتا ہے کہ آیت مذکور میں تبرج جاہلیت تک بےحیائی کی روک تھام کے لئے جو تین حکم دئیے گئے ہیں وہ صرف ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص ہیں اور ان دلداد گان مغربیت کے لئے اور ان کی بیگمات کے لئے ہر بےحیائی جائز ہے اور نماز اور زکوٰۃ اور اطاعت خدا و رسول اور تقویٰ اور اعمال صالحہ میں سے کوئی چیز ان پر فرض نہیں اس لئے کہ ان آیات میں تمام خطابات صرف ازواج مطہرات کو ہیں۔ غرض یہ کہ جو احکامات ان آیات میں مذکور ہیں وہ کسی کے ساتھ مخصوص نہیں سب مسلمان عورتوں کے لئے ہیں البتہ ازواج مطہرات کے لئے ان کے تقدس اور طہارت اور علو مرتبت کی وجہ سے ان احکام کی پابندی سب سے زیادہ ان پر ضروری ہے اور لازم ہے پس ثابت ہوگیا کہ قرار فی البیوت تمام مسلمان عورتوں پر فرض اور لازم ہے۔ اور بلا ضرورت منہ کھولے گھر سے باہر نکلنا۔ بلاشبہ موجب معصیت اور محل فتنہ و فساد ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے المراۃ عورۃ فاذا خرجت استشرفھا الشیطان۔ یعنی عورت سراپا ستر ہے جس کا مستور رکھنا واجب ہے جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے سر اٹھا کر دیکھتا ہے اور اس کی تاک میں لگ جاتا ہے پھر کراتا جو کراتا ہے یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں پردہ نہیں اور مردوزن کے اختلاط میں وہاں کوئی رکاوٹ نہیں وہاں زنا کا بازار گرم ہے اور نصف سے زیادہ آبادی غیر ثابت النسب ہے اور انہی اولاد الزنا کی اکثریت اور جمہوریت ہے۔ جہاں زنا کو آزادی حاصل ہے اور نکاح پر پابندی ہے۔ پس ہماری اس تقریر سے یہ امر بخوبی ثابت ہوگیا کہ جو شرفاء ہند میں پردہ رائج ہے وہ بلاشبہ پردہ شرعی ہے جو قرآن اور حدیث سے قطعی طور پر ثابت ہے معاذ اللہ پردہ مروجہ کوئی قومی رسم نہیں جیسا کہ آزاد منشوں کا خیال ہے یہ لوگ جو پردہ کے مخالف ہیں۔ زنا کے مخالف نہیں گویا کہ پردہ تو ان کے نزدیک ناجائز اور حرام ہے۔ اور زنا ان کے نزدیک جائز اور حلال ہے اللہم اھد قومی فانہم لا یعلمون اے نبی کے گھر والو ! چونکہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر تمہاری تطہیر اور تنویر کا ارادہ کیا ہے تو اس طہارت کی تحصیل اور تکمیل کا طریقہ یہ ہے کہ تم یاد کیا کرو اللہ کی آیتوں کو اور حکمت کی باتوں کو جو دن رات تمہارے گھروں اور حجروں میں پڑھی جاتی ہیں جو فلاح دارین کا ذریعہ ہیں ان کو فراموش نہ کرنا اور ان پر عمل سے غفلت نہ برتنا اور شکر کرو کہ تمہارے حجرے اور تمہارے گھر آیات الٰہیہ اور حکمت نبویہ کے انوار سے منور اور روشن ہیں یہ اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے کہ تمہارے گھرانوں میں اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم اھل البیت انہ حمید مجید اور یہ چیز تمہارے باطن کی تطہیر اور تنویر میں اور اذہاب رجس یعنی باطنی گندگی کے دور کرنے میں غایت درجہ معین اور مددگار ہے بلکہ تریاق اور اکسیر ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ تھا کہ اہلبیت نبوت کو طہارت کا ملہ عطا کرے اس لئے ان کو زینت دنیا اور آرائش دنیا کی رغبت اور میلان سے پاک کردیا کیونکہ زینت دنیا کی رغبت یہ بھی ایک قسم کا رجس اور ایک نوع کی نجاست ہے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ بڑا مہربان ہے اس کا لطف اور اس کی عنایت تمہارے ساتھ ہے اور وہ بڑا خبردار ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ نبی کا گھرانہ ہر قسم کی گندگی اور پلیدی سے پاک ہوجائے۔ لطائف ومعارف فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی۔ جاننا چاہئے کہ جس طرح عورتوں کے دیکھنے اور ان کی طرف آنکھ اٹھانے سے مردوں کے دل میں ان کا عشق اور فریفتگی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح عورتوں کے مردوں کو دیکھنے سے ان کے دل میں مرد کا عشق اور فریفتگی پیدا ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ دیکھنا ہی ناجائز تعلق اور ناجائز طریقہ سے قضاء شہوات کا ذریعہ بن جاتا ہے اور بالفاظ دیگر زنا کا دروازہ ہے اور تمام انبیا کرام کی شریعتیں اور تمام حکماء کی حکمتیں اور تمام اہل غیرت کی غیور طبیعتیں زنا کے ناجائز اور قبیح اور شنیع ہونے پر متفق ہیں پس حکمت اور غیرت اس امر کی مقتضی ہے کہ زنا کا دروازہ بند کیا جائے۔ شریعت مطہرہ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ اس دروازہ کو ایسا بند کیا کہ کوئی سوراخ ایسا باقی نہ چھوڑا جس سے زنا کا جھانکنا ہی ممکن ہو سکے۔ شریعت مطہرہ نے اس ناپاک اور گندہ اور پلید فتنہ کی بندش کے لئے احکام صادر کئے۔ (1) ایک حکم تو یہ دیا ہے کہ عورتیں بلاشدید ضرورت اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں جیسا کہ آیت وقرن فی بیوتکن خاص اسی بارے میں نازل ہوئی کہ عورتیں اپنے گھروں میں قرار پکڑیں حتی کہ نماز بھی اپنے گھر ہی میں پڑھیں عورت کا گھر میں نماز پڑھنا بہ نسبت مسجد کے زیادہ فضیلت رکھتا ہے پھر یہ کہ اگر عورت کسی ضرورت اور مجبوری کی بنا پر گھر سے باہر نکلے تو برقعہ یا چادر میں بدن چھپا کر نکلے۔ (2) دوسرا حکم یہ دیا کہ مرد عورت کو نہ دیکھے اور عورت مرد کو نہ دیکھے جیسا کہ سورة نور کے ایک رکوع میں تفصیل کے ساتھ یہ احکام گذرے ہیں سورة نور کی اس آیت قل لل مومنین یغضوا من ابصارہم۔ میں مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا اور اس کے بعد والی آیت وقل لل مومن ات یغضن من ابصارہن میں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ نگاہیں نیچی رکھیں غرض یہ کہ ان دونوں آیتوں میں مردوں اور عورتوں کو علیحدہ علیحدہ حکم دیا گیا کہ ایک اجنبی مرد یا عورت دوسرے اجنبی مرد یا عورت کو نہ دیکھے اس لئے کہ یہ دیکھنا ہی فتنہ کا سبب ہے بلا تفریق تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ نگاہیں نیچی رکھیں اور ایک دوسرے کو نہ دیکھیں اصیل محل فتنہ یہ چہرہ ہی ہے۔ جس کے دیکھنے سے دل میں شیطانی وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں اور مرد اور عورت کی عفت اور عصمت خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ (3) تیسرا حکم شریعت نے یہ دیا کہ عورت اپنی زینت ظاہرہ یعنی چہرہ اور ہاتھوں کے علاوہ اپنے تمام بدن کو ہر وقت مستور اور پوشیدہ رکھے کیونکہ چہرہ اور ہاتھوں کا ہر وقت پوشیدہ رکھنا عادتا ناممکن ہے گھر کے کام کاج بغیر منہ کھولے اور ہاتھ چلائے ممکن نہیں اور پھر اسی کے متصل دوسری آیت یعنی ولا یبدین زینتھن الا لبعولتہن او اباء ہن الی اخرہ میں اس کی تصریح کردی کہ عورت کو اپنی یہ زینت ظاہرہ (چہرہ اور دونوں ہاتھ) صرف اپنے محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں۔ عورت کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سر بازار چہرہ کھول کر اپنا حسن و جمال دکھلاتی پھرے حسن و جمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرہ ہی پر ختم ہے اس لئے شریعت مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لئے نامحرم کے سامنے چہرہ کو کھولنا حرام قرار دیا البتہ اپنے گھر میں اپنے باپ اور بھائی اور محارم کے سامنے اپنا چہرہ کھولنے کی اجازت دی ہے۔ اور یہ اجازت بھی ضرورت اور مجبوری کی بنا پر ہے شریعت نے اگر عورت کو کسی ضرورت اور کسی خاص حالت میں منہ کھولنے کی اجازت دی ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ شہوت پرستوں کو بھی عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے بلکہ شوہر کے علاوہ شریعت نے جن محارم کے سامنے آنے کی عورت کو اجازت دی ہے اس میں یہ شرط ہے کہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو خدانخواستہ اگر کسی عورت کا کوئی محرم رشتہ دار بھتیجا یا بھانجا بدچلن ہو تو اس کے سامنے آنا بھی جائز نہیں فتنہ کے خوف سے بھی محرم سے پردہ واجب ہوجاتا ہے اس لئے زنا سے حفاظت کا بہترین ذریعہ یہی پردہ ہے۔ (4) چوتھا حکم شریعت نے یہ دیا کہ اگر کسی غیر مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو پردہ کے پیچھے سے اس سے بات کرسکتی ہے نا محرم کے روبرو آنا ناجائز اور حرام ہے جیسا کہ اسی سورت میں چند رکوع بعد یہ حکم آیا ہے۔ واذا سالتموہن متاعا فسئلوہن من وراء حجاب۔ (5) پانچواں حکم شریعت نے یہ دیا کہ عورت اگر ضرورت کی بنا پر گھر سے باہر نکلے تو موٹے کپڑے کا برقعہ اوڑھ کر یا موٹی چادر میں لپیٹ کر نکلے۔ کما قال تعالیٰ یایھا النبی قل لازواجک وبناتک ونساء ال مومنین یدنین علیہن من جلابیبہن باریک برقعہ یا باریک چادر میں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں اور شریعت نے عورت کو گھر سے باہر جانے کی اجازت کے لئے دوسری شرط یہ لگائی کہ عمدہ کپڑوں میں نہ نکلے اور عطر اور خوشبو لگا کر نہ نکلے اور تیسری شرط یہ لگائی کہ شوہر کی اجازت کے بغیر نہ نکلے اور چوتھی شرط یہ لگائی کہ عورت سڑک کے کنارے کنارے چلے عورت کو درمیان سڑک چلنے کا نہ حق ہے اور نہ اجازت۔ یہ طبرانی کی ایک حدیث کا مضمون ہے جو عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے۔ (6) چھٹا حکم شریعت نے یہ دیا کہ کوئی مرد کسی کے گھر میں نہ جھانکے اور کوئی شخص کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہ ہو۔ (7) ساتواں حکم شریعت نے یہ دیا کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے فقہا کرام نے لکھا کہ اجنبی جوان عورت کو سلام کرنا بھی ناجائز ہے۔ اور اس سے مصافحہ کرنا تو سلام کرنے سے بھی بڑھ کر حرام ہے۔ (8) آٹھواں حکم شریعت نے یہ دیا کہ کوئی اجنبی مرد کسی اجنبی عورت کے گھر میں بغیر شوہر کے اور بغیر محرم کے رات نہ گزارے۔ (9) نواں حکم شریعت نے یہ دیا کہ شوہر کی عدم موجودگی میں کسی کے گھر میں جا کر عورت سے بات نہ کرو۔ (10) دسواں حکم شریعت نے یہ دیا۔ عن الحسن مرسلا قال بلغنی ان رسول اللہ ﷺ قال لعن اللہ الناظر والمنظور الیہ۔ حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ خدا کی لعنت ہو اجنبی (عورتوں کے یا اجنبی مردوں کے) دیکھنے والے (اور دیکھنے والی) پر اور جس کی طرف دیکھا گیا (خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو ) ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان ) غرض یہ کہ شریعت مطہرہ نے جو پردہ کا حکم دیا ہے وہ عورت کے لئے قیدوبند نہیں بلکہ ناپاک نظروں اور گندی نگاہوں سے حفاظت کا ذریعہ ہے کہ عورت کا چہرہ بدکاروں کی ناپاک نظروں سے محفوظ رہے پردہ عورت کی عفت اور عصمت اور آبرو کا محافظ اور نگہبان ہے جس سے اس کی پاکدامنی اور آبرو پر حرف نہیں آسکتا پردہ عورت کے حسب نسب کا محافظ ہے بےپردہ عورت اور اس کی اولاد مشکوک ہے پردہ والی عورت کے خاوند کو اپنے بچہ کے نسب میں شک کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ پردہ والی عورت کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہوتا ہے شوہر یقین کرتا ہے کہ یہ میرا ہی بچہ ہے اور بےپردہ والی عورت کا شوہر یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مولود میرا ہی بچہ ہے اور میرا ہی بیٹا ہے اور اس بےپردگی کی وجہ سے یورپ کے اکثر باشندے کسی کو یقینی طور پر اپنا بیٹا نہیں کہہ سکتے انگلستان کی ایک شریف عورت نے بصد حسرت و ندامت اپنے ملک کی عورتوں کے متعلق ایک مقالہ لکھا جس کا ترجمہ مصر کے ماہنامہ ” المنار “ میں شائع ہوا جس میں یہ تھا کہ انگلستان کی عورتیں اپنی تمام عفت اور عصمت کھو چکی ہیں اور ان میں بہت کم ایسی ملیں گی جنہوں نے اپنے دامن عصمت کو حرام کاری کے دھبہ سے آلودہ نہ کیا ہو۔ ان میں شرم اور حیا نام کو بھی نہیں اور ایسی آزادانہ زندگی بسر کرتی ہیں کہ اس ناجائز آزادی نے ان کو اس قابل نہیں رہنے دیا کہ ان کو انسانوں کے زمرہ میں شامل کیا جائے ہمیں سر زمین مشرق کی مسلمان خواتین پر رشک آتا ہے جو نہایت دیانت اور تقویٰ کے ساتھ اپنے شوہروں کے زیر فرمان رہتی ہیں اور ان کی عصمت کا لباس گناہ کے داغ سے ناپاک نہیں ہوتا وہ جس قدر فخر کریں بجا ہے اور اب وہ وقت آرہا ہے کہ اسلامی احکام شریعت کی ترویج سے انگلستان کی عورتوں کی عفت کو محفوظ رکھا جائے۔ (انگلستان کی عورت کے کلام کا ترجمہ ختم ہوا) نیز جس طرح زنا تمام انبیاء (علیہم السلام) اور تمام علما اور تمام عقلا کے نزدیک ایک نہایت شنیع اور قبیح خصلت ہے اسی طرح دیوثیت بھی ایک نہات شرمناک خصلت ہے۔ اور زنا سے بڑھ کر قبیح ہے پس مخالفین پردہ کے نزدیک جب ان کی بیوی اور بیٹی کا دوسروں کے ساتھ پھرنا جائر ہوگیا تو گویا ان کے نزدیک دیوثیت بھی جائز ہوگئی کہ باوجود اس علم اور خبر کے ان کی رگ حمیت جوش میں نہیں آتی جس میں ذرا بھی حیاء اور غیرت کا مادہ ہے وہ اس بےحیائی اور بےغیرتی کو کبھی گوارا نہیں کرسکتا کہ اس کی بیوی یا بیٹی کسی کے ساتھ تعلقات قائم کرے۔ اور بےحجابانہ اس سے خلط ملط رکھے۔ نیز ان بےحیائیوں اور بےغیرتیوں کا دروازہ بند کرنے کے لئے اسلام نے پردہ کا حکم دیا ہے اور بےپردگیوں کی خرابیوں پر آگاہ کردیا اور بتلا دیا کہ عورت کے پردہ میں رہنے میں یہ یہ حکمتیں اور مصلحتیں ہیں اور گھر سے باہر نکلنے میں یہ خرابیاں اور برائیاں ہیں اور اگر بالفرض ان دلدادہ گان مغربیت اور اسیران شہوت ونفسانیت کے خیال کے مطابق یہ مان لیا جائے کہ بےحجابی میں کچھ فوائد اور منافع ہیں تو شراب اور قمار اور سود میں بھی ضرور فوائد اور منافع ہیں لیکن ان کی مضرتیں اور خرابیاں ان کے چند وہمی اور خیالی فوائد اور منافع سے کہیں بڑھ کر ہیں اور اگر شہوت اور بےپردگی میں کس قدر مضرتیں اور خرابیاں ہیں۔ خلاصہ : (1) یہ کہ بےپردگی سے بےغیرتی اور بےحمیتی پیدا ہوتی ہے۔ (2) زنا کا دروازہ کھلتا ہے۔ (3) اولاد حرام ہوتی ہے۔ (4) حسب اور نسب ضائع ہوجاتا ہے۔ (5) شوہر کو اپنی بیوی پر اطمینان نہیں رہتا تو دل سے کیسے محبت رہے۔ (6) بےپردہ بیوی سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے شوہر کو اس پر یقین نہیں ہوتا کہ یہ میرا ہی بچہ ہے اور ظاہر ہے کہ جو عورت بےپردہ پھرتی ہو اور غیروں سے میل جول رکھتی ہو۔ اس کی اولاد پر کیسے یقین ہوسکتا ہے۔ (7) اور جب اس بچہ کا اس کی اولاد ہونا یقین نہ رہا تو پھر اس کے مرنے کے بعد اس بچہ کا وارث ہونا بھی یقینی نہ رہا۔ حلال اولاد میراث کی مستحق ہوتی ہے، حرام کا بچہ میراث کا مستحق نہیں ہوتا۔ (8) بےپردہ عورت شوہر کی راحت اور سکون اور اطمینان کا باعث نہیں رہتی۔ شوہر جب گھر آتا ہے تو بیوی کو غائب پاتا ہے اور پریشان ہوتا ہے کہ نہ معلوم کہاں ہوگی۔ (9) بےپردہ عورت نہ شوہر کی خدمت کرسکتی ہے اور نہ اس کی اطاعت کرسکتی ہے۔ (10) بےپردہ عورت اولاد کی تربیت اور نگرانی بھی نہیں کرسکتی۔ (11) بےپردگی باہمی خصومت اور نزاع کا سبب ہے جو بدچلنی کا لازمی نتیجہ ہے۔ (12) بےپردگی اپنی آوارگی اور آزادی کی پردہ پوشی کے لئے عورت کو جھوٹ اور مکر اور فریب پر آمادہ کرتی ہے۔ گھر سے باہر جانے کے عجیب عجیب بہانے بناتی ہے۔ (13) جس کا اثر اولاد پر پڑتا ہے۔ اولاد بھی وہی کرے گی جو ماں کو کرتے دیکھے گی۔ (14) جس قدر بےپردگی بڑھتی جائے گی اسی قدر بےحیائی اور بےغیرتی بڑھتی جائے گی جس کا لازمی نتیجہ نحوست ہے اور خاندان اور محلہ میں بدنامی اور بےعزتی ہے۔ (15) حتی کہ اس گھرانہ سے حیاء اور شرم اور عفت اور عصمت اور غیرت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مخالفین پردہ کے خیالات جن کو وہ اپنے دلائل کہتے ہیں (1) مرد اور عورت کی فطرت یکساں ہے لہٰذا عورتوں کو وہی پورے حقوق ملنے چاہئیں جو مردوں کو حاصل ہیں۔ (2) پردہ عورت کے لئے قید ہے۔ (3) پردہ عورت کی صحت کے لئے مضر ہے۔ (4) پردہ عورت کی ترقی میں مزاحم ہے عورت پردہ کی وجہ سے علمی اور دنیوی ترقی نہیں کرسکتی۔ حالانکہ حدیث میں ہے۔ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ۔ ان متمدنین کے نزدیک اس حدیث میں جس علم کی طلب کو فرض کیا گیا ہے اس سے وہ انگریزی علم مراد ہے جو کالج اور سکول میں پڑھایا جاتا ہے اور مسلم اور مسلمہ سے لڑکوں اور لڑکیوں کا مخلوط کالج مراد ہے خوب سمجھ لو کہ اسلام نے دین کے علم کی طلب کو فرض قرار دیا ہے۔ اور ” علمے کہ راہ حق ننماید جہالتست “ پہلی بات کا جواب : مرد اور عورت کی فطرت ہرگز یکساں نہیں قوائے عقلیہ اور قوائے علمیہ اور قوائے جسمانیہ کے اعتبار سے مرد اور عورت میں زمین و آسمان کا فرق ہے فوجی بھرتی کے لئے مرد لئے جاتے ہیں عورت نہیں لی جاتی آج تک دنیا میں کسی بادشاہ نے عورتوں کی فوج بنا کر دشمن کے مقابلہ کے لئے نہیں بھیجی جو متمدن عورتیں مرد اور عورت کو فطرت کو یکساں بتلاتی ہیں ان کو چاہئے کہ اول تمام اپوا کی ممبر عورتوں کی ایک فوج بنائیں اور کسی سرحد پر جا کر دشمن کی فوج کا مقابلہ کر ائیں۔ ابھی دعوائے مساوات کا نتیجہ ظاہر ہوجائے گا۔ دوسری بات کا جواب : پردہ عورتوں کے لئے قید نہیں بلکہ ان کی عصمت اور عفت کی حفاظت کا ایک قلعہ ہے اور ناپاک اور گندی نظروں سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔ تیسری بات کا جواب : پردہ عورتوں کی صحت کے لئے مضر نہیں بلکہ عورتوں پردہ عورتوں کی صحت کے لئے مضر نہیں بلکہ عورتوں کی فطرت کے مناسب ہی پردہ ہے عورتوں کے قویٰ کمزور ہیں وہ مردوں کی طرح محنت اور مشقت برداشت نہیں کرسکتیں۔ سڑکیں نہیں کوٹ سکتیں۔ خندقیں نہیں کھود سکتیں جنگ اور جنگی مشقتیں نہیں کرسکتیں بوجھ اٹھانے کی بھی عادی نہیں شریعت مطہرہ نے ان کی فطری کمزوری اور نزاکت کی رعایت سے ان کے لئے پردہ تجویز کیا ہے اور اگر بالفرض مان لیا جائے کہ پردہ عورتوں کی جسمانی صحت کے لئے مضر ہے تو بےپردگی ان کی روحانی اور اخلاقی صحت کے لئے ہزار درجہ بڑھ کر مضر ہے بےپردگی ان کو طرح طرح کی اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہے اور حیاء وشرم کا لباس ان سے اتار کر پھینک دیتی ہے۔ چوتھی بات کا جواب : ہرجنس کی ترقی اس کی فطرت کے مناسب ہوتی ہے عورت کی ترقی اسی میں ہے کہ وہ عفیف اور پاکدامن اور نیک سیرت اور باحیا اور باغیرت ہو اور بقدر ضرورت دین سے باخبر ہو اور خانہ داری کا سلیقہ رکھتی ہو اور شوہر کی تابعدار اور خدمت گذار ہو۔ اور صحیح طریقہ سے اس کی اولاد کی تربیت اور پرورش کرے اور ایام حمل اور ایام ولادت میں عورت کو آرام اور سکون کی شدید ضرورت ہوتی ہے جو سوائے گھر کے کہیں میسر نہیں آسکتا اور جو عورت بےپردہ ہوگی وہ نہ شوہر کی خدمت کرسکتی ہے اور نہ اولاد کی تربیت کرسکتی ہے بےپردہ عورت بجائے شوہر کے اپنے آشناؤں کی تفریح کا سامان ہے شوہر اور اس کی اولاد اس کی محبت اور موانست اور معیت اور مرافعت سے محروم ہے بےپردگی سے کوئی دنیاوی اور مادی ترقی حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ اخلاقی تنزل اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ اس میں اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا آج کل متمدن اقوام کا حال یہ ہے کہ چپہ چپہ پر ناچ گھر قائم ہوگئے جن میں نوجوان مرد اور عورتیں جمع ہو کر اپنی نفسانی خواہش پوری کرتے ہیں اور ایک شخص کسی اجنبی عورت سے چمٹ جاتا ہے اور اس کا شوہر دیوث بھی وہاں موجود ہوتا ہے اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کو غیرت نہیں آتی مغربی ممالک میں دن بدن حرام زادوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اب یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بعض مغربی ممالک میں لب سڑک لوگوں کو زنا کرتے دیکھا جاتا ہے گویا کہ مرد اور عورت بہائم کی طرح ہوگئے ہیں جس طرح ایک جانور کو کسی مادہ سے جفتی کرنے کے لئے کسی بند کمرہ کی ضرورت نہیں اسی طرح ان مدعیان تہذیب کی بھی یہی خواہش ہے کہ مسلمان عورتوں سے عفت اور عصمت کا خاتمہ ہوجائے اور ان کا معاشہ بھی ان مہذب حیوانوں کی طرح ہوجائے اس شرمناک حالت کا نام ان لوگوں نے ترقی رکھ لیا ہے۔ خدا ان کو عقل دے آمین۔ اقتباس ” از نمکدن ظرافت “ آیت تطہیر انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا۔ اس آیت کو آیت تطہیر کہا جاتا ہے۔ اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت باجماع صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) ازواج مطہرات کے حق میں نازل ہوئی اور آیت میں اہل بیت نبی سے آپ ﷺ بیبیاں مراد ہیں اور تطہیر سے تزکیہ نفس اور تہذیب باطن اور تصفیہ قلب مراد ہے جو تزکیہ باطن کا وہ اعلیٰ ترین مقام ہے جو کامل اولیا اللہ کو حاصل ہوتا ہے جس کے حصول کے بعد گناہوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں مگر انبیاء کی طرح معصوم نہیں ہو اجاتے۔ شیعہ یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت علی مرتضیٰ ؓ اور فاطمۃ الزہرا ؓ اور حسنین ؓ کے بارے میں نازل ہوئی اور اہل بیت سے یہی لوگ مراد ہیں۔ اس لفظ سے سوائے ان کے کوئی مراد ہو ہی نہیں سکتا اور دلیل اس کی یہ ہے کہ خود اہل سنت کی صحیح ترین احادیث میں یہ وارد ہوا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰ اور فاطمۃ الزہرا اور حسنین ؓ کو بلایا اور اپنی کملی ان چاروں ڈال دی اور فرمایا اللہم ھولاء اھل بیتی فاذھب عنہم الرجس وطھرہم تطھیرا سے اللہ یہ چاروں میرے اہل بیت ہیں پس تو ان سے رجس یعنی گندگی اور ناپاکی کو دور کر دے اور خوب پاک کردے نیز اس آیت میں لفظ منکم اور ویطھرکم میں جو ضمیریں مذکر کی موجود ہیں وہ صاف بتلا رہی ہیں کہ اس آیت میں خطاب ازواج کو نہیں معلوم ہوا کہ آیت میں لفظ اہل بیت سے یہی چار اشخاص مراد ہیں۔ دوسری بات اہل تشیع یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اذہاب رجس اور تطہیر سے گناہوں سے پاک کردینا یعنی معصوم بنا دینا مراد ہے جس سے ان چار حضرات کی عصمت ثابت ہوتی ہے۔ شیعہ اہل بیت کی عصمت ثابت کرنے کے لئے آیت تطہیر کو استدلال میں پیش کرتے ہیں۔ جواب : اہل تشنیع کا یہ تمام استدلال دو باتوں پر مبنی ہے (اول) یہ کہ لفظ اہل بیت سے صرف چار اشخاص مراد ہیں۔ حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حسنین ؓ (دوم) یہ کہ اذہاب رجس اور تطہیر سے معصوم بنا دینا مراد ہے جب تک یہ دونوں باتیں ثابت نہ ہوں گی شیعوں کا استدلال صحیح نہیں ہوسکتا مگر آج تک شیعہ ان باتوں کو ثابت نہیں کرسکے۔ پہلی بات کا جواب : پہلی بات کے متعلق علماء اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ لفظ ” اہل بیت “ اور لفظ ” آل “ لغت عربی میں دونوں ہم معنی ہیں لگت میں اہلبیت کے معنی اہل خانہ کے ہیں یعنی گھر والوں کے ہیں۔ جو مستقل طور پر گھر میں رہتے ہیں جس میں ازواج اصالۃ داخل ہیں اور اولاد اور ذریت تبعا داخل ہیں۔ خدمتگاروں اور لونڈی اور غلاموں پر اس لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ عرف میں اور محاورہ میں جب لفظ اہل خانہ بولا جاتا ہے تو ہر کس وناکس اس کا یہی مطلب سمجھتا ہے کہ جو لوگ گھر میں رہتے ہوں اور وہاں سے چلے جانے کا قصد نہ رکھتے ہوں اور ظاہر ہے کہ اس وصف میں اصل بیبیاں ہیں جو ہمیشہ گھر میں رہتی ہیں۔ بیٹوں اور بیٹیوں کا ہمیشہ گھر میں رہنا خلاف عادت ہے خاص کر سرور عالم ﷺ کے حجروں اور گھروں میں تو سوائے آپ ﷺ کی ازواج کے کوئی نہیں رہتا تھا شادی ہونے کے بعد بیٹے خود اپنے مکان بنا لیتے ہیں۔ نکاح کے بعد باپ کے ذمہ اولاد کا نہ نان ونفقہ رہتا ہے اور نہ رہنے کا مکان اس کے ذمہ واجب رہتا ہے اور شادی ہونے کے بعد بیٹی داماد کے گھر چلی جاتی ہے چناچہ حضرت فاطمہ حضرت علی ؓ کے گھر میں رہتی تھیں کہا جاتا ہے تاھل الرجل اذا تزوج۔ واھلک اللہ فی الجنۃ اور فلان متاھل ای متزوج۔ نیز قرآن کریم کا محاورہ بھی یہی ہے کہ اہل بیت کے مفہوم میں زوجہ اصالۃ داخل ہے حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں کہ جب ملائکہ نے ان کو تولد فرزند کی بشارت دی اور پیرانہ سالی میں اس بشارت پر تعجب ہوا تو فرشتوں نے یہ کہا قالوا تعجبین من امر اللہ رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم اھل البیت انہ حمید مجید۔ اور ظاہر ہے کہ اس آیت میں اہل بیت کے خطاب میں حضرت سارہ (علیہ السلام) داخل ہوئیں کیونکہ اصل خطاب انہی سے ہے اور فرشتوں نے حضرت سارہ (علیہ السلام) ہی کو اہل البیت سے خطاب کر کے ان کو خدا کی رحمتوں اور برکتوں کی دعائیں دی ہیں شاید حضرات شیعہ فرشتوں پر کوئی تنقید اور تبصرہ کریں کہ تم نے نبی کی زوجہ پر لفظ اہل البیت کا اطلاق کیسے کیا اور پھر تم نے مونث کے لئے مذکر کی ضمیر کیسے استعمال کی اور نبی کی زوجہء مطہرہ کو تم نے رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم مذکر کے ساتھ کیوں خطاب کیا تم کو چاہئے تھا کہ علیکم کی بجائے علیکن کہتے۔ معلوم ہوا کہ اہل بیت میں ازواج بھی داخل ہیں اور تعجبین کا اصل خطاب حضرت سارہ (علیہ السلام) کو ہے جو صیغہ مؤنث کا ہے اور اس کے بعد رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم اھل البیت میں اہل بیت کو بلفظ مذکر علیکم خطاب کیا اور علامہ زمحشری (رح) نے لکھا ہے کہ اظہار محبت و کرامت کے لئے عورتوں کے لئے مذکر کی ضمیریں لانا کلام عرب میں شائع اور ذائع ہے جیسا کہ شاعر کہتا ہے۔ فان شئت حرمت النساء لواکم۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں ہے قال لاھلہ امکثوا اور نہ ظاہر کے مطابق امکثی یا امکثن ہونا چاہئے تھا اس قسم کے مواقع میں صیغہ مذکر اور خطاب مذکر لفظ اہل کی رعایت سے لایا گیا ہے کہ وہ اصل میں مذکر ہے۔ اور علی ہذا لفظ آل کے مفہوم اور مدلول میں بھی ازواج داخل ہیں اس لئے کہ آل کی اصل لغت میں اہل ہے لغت میں آل کا اطلاق اس شخص یا ان اشخاص پر آتا ہے جن کو کسی انسان سے ذاتی اختصاص حاصل ہو۔ خواہ قرابت قریبہ کی وجہ سے یا کسی خصوصی موالاۃ یا دینی علاقہ کی وجہ سے ہو اور عرف میں اہلیہ بوی کو کہتے ہیں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے اعملوا ال داود شکرا اے آل داؤد اللہ کا شکر بجا لاؤ یہاں لفظ آل میں ان کی ازواج اور اولاد سب ہی داخل ہیں وقال تعالیٰ قالوا یایھا العزیز مسنا واھلنا الضر وسار باھلہ۔ فقال لاھلہ امکثوا۔ اس قسم کی آیات میں لفظ اہل کے مفہوم میں بیوی یقیناً داخل ہے وقال تعالیٰ ولقد اخذنا ال فرعون بالسنین یہاں آل فرعون سے وہ تمام اشخاص مراد ہیں جو فرعون سے تعلق رکھتے تھے۔ وقال تعالیٰ فالتقطہ ال فرعون۔ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے تابوت کو آل فرعون نے اٹھا لیا یہاں آل فرعون سے فرعون کا تمام اہل بیت مراد ہے جن میں اس کی بیوی بھی داخل ہے حدیث میں ہے کہ حضور پر نور ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اللہم اجعل رزق ال محمد قوتا سے اللہ آل محمد کا رزق بقدر قوت لا یموت کر دے اور قدر قوت ورزق ہے جس سے بقدر کفایت گذر ہوجاوے اور فاضل کچھ نہ بچ سکے اور اس میں شک نہیں کہ آل محمد میں ازواج مطہرات بھی داخل ہیں اور یہ دعا ذریت کی طرح ازواج مطہرات کو بھی شامل ہے۔ اس دعا سے یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات کا سالانہ نفقہ قدر قوت سے زیادہ نہ تھا اور پھر ازواج مطہرات سخی بھی تھیں خصوصا حضرت زینب ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کی سخاوت تو مشہور تھی اور بخیل تو آپ ﷺ کی کوئی بی بی نہ تھی اور حضور پر نور ﷺ تو سخی تھے ہی۔ اور اعلیٰ درجہ کے مہمان نواز بھی تھے پس اس سخاوت اور مہمان نوازی کے بعد تو زیادہ سامان بھی کفایت نہیں کرسکتا۔ چہ جائیکہ قدر قوت اور قدر کفایت ان تمام ضروریات کے لئے مکتفی ہوجائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات کس قدر قانع اور تارک الدنیا اور نبی کریم ﷺ کی عاشق صادق تھیں کہ باوجود فقروفاقہ کے حضور ﷺ کی زوجیت کو دنیا اور مافیہا سے بہتر اور لذیذ جانتی تھیں۔ فتح خیبر کے بعد ازواج مطہرات نے یہ درخواست کی کہ جس طرح آپ ﷺ دوسروں کو بےدریغ عطا فرما رہے ہیں اسی طرح ہم کو بھی مال غنیمت میں سے کچھ عطا فرمایا جائے حضور ﷺ نے انکار فرمادیا۔ ازواج مطہرات نے اصرار کیا اس پر آیت تخییر کا نزول ہوا جس میں ازواج مطہرات کو اختیار دیا گیا کہ اگر وہ متاع دنیا کی طالب ہیں تو حضور ﷺ ان کو طلاق دے کر علیحدہ کردیں اور اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور دار آخرت کی طالب ہیں تو اسی حالت (فقروفاقہ) پر راضی رہیں جس حالت کو اللہ کا رسول پسند کرتا ہے اور وہ آیت تخییر یہ ہے جس کی مفصل تفسیر گذشتہ رکوع میں گذر چکی ہے۔ یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاخرۃ فان اللہ اعد للمحسنات منکن اجرا عظیما۔ اس آیت تخییر کے نزول کے بعد تمام ازواج نے حضور پر نور ﷺ ہی کو اختیار کیا۔ دنیا کو کسی بی بی نے بھی اختیار نہیں کیا جس سے معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات کو حضور پر نور ﷺ کے ساتھ کس درجہ محبت تھی کہ فقرو فاقہ اور تنگی میں رہنا منظور کیا مگر حضور ﷺ سے علیحدگی منظور نہیں کی۔ چناچہ اسی محبت کی وجہ سے حق تعالیٰ نے ان کو عذاب جہنم وغیرہ کی دھمکی نہیں دی بلکہ اس سے ڈرایا کہ حضور ﷺ تم کو اپنی زوجیت سے علیحدہ نہ کردیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ ازواج مطہرات کے بارے میں اول آیت تخییر نازل ہوئی پھر جب ازواج مطہرات نے اللہ اور رسول اور دار آخرت کو اختیار کرلیا تو ان کے بارے میں دوبارہ آیت تطہیر نازل ہوئی جس سے ان کے شرف اور کرامت کو ظاہر کرنا مقصود ہے اور اس آیت تطہیر میں جو لفظ اہل البیت آیا ہے اس سے اصالۃ بلا شبہ وریب قطعا و یقیناً ازواج نبی مراد ہیں کیونکہ ان آیات کے سیاق وسباق میں از اول تا آخر صراحۃ ازواج مطہرات ہی کو خطاب ہو رہا ہے اور ایسا صریح ہے کہ جس میں ذرہ برابر تاویل کی گنجائش نظر نہیں آتی کیونکہ یا نساء النبی لستن کا حد من النساء سے لے کر واطعن اللہ بلکہ والحکمۃ تک ازواج مطہرات ہی کے متعلق کلام ہے اور از اول تا آخر خطاب میں مونث ہی کی ضمیریں لائی گئی ہیں۔ لستن اور فی فیوتکن اور واذکرون ما یتلی فی بیوتکن تک یہ تمام خطابات بہ ضمائر مونث ازواج مطہرات ہی کو ہیں بلکہ اگر شروع رکوع یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا سے لے کر ان اللہ کان لطیفا خبیرا تک تمام صیغوں اور ضمیروں پر نظر ڈالی جائے تو اول سے لے کر آخر تک چھبیس صیغے اور ضمیریں سب مونث کی ہیں جو بلا کسی تردد اور تامل کے صرف ازواج مطہرات کے لئے ہیں اور یا نساء النبی اور قل لازواجک کا لفظ تو اس قدر واضح ہے کہ اس میں حضرت علی ؓ اور حسنین ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے دخول اور شمول کا عقلا ونقلا کوئی امکان ہی نہیں۔ اب حضرات شیعہ بتلائیں کہ اس کا کیا جواب ہے۔ کلام عرب میں اظہار محبت و عظمت کی غرض سے مونث کے لئے تو مذکر کا صیغہ استعمال ہوسکتا ہے مگر مذکر کے لئے مونث کا صیغہ اور مونث کی ضمیر کا استعمال کہیں سننے اور دیکھنے میں نہیں آیا۔ قال ابن عباس نزلت فی نساء النبی ﷺ وقال عکرمۃ من شاء باھلتہ (روح المعانی ص 12 ج 22) ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت خاص ازواج مطہرات کے حق میں نازل ہوئی اور عکرمہ ؓ یہ کہتے ہیں کہ جس کا جی چاہے میں اس سے مباہلہ کرسکتا ہوں۔ حدیث نساء ایک شبہ اور اس کا ازالہ حضرت حکیم الامت تھانوی اپنے ایک وعظ میں فرماتے ہیں یہاں بعض لوگوں کو ایک حدیث سے شبہ ہوگیا ہے وہ یہ کہ حضور پر نور ﷺ نے ایک دفعہ حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ اور حسنین ؓ کو اپنی عباء میں داخل کر کے فرمایا۔ اللہم ھؤلاء اھل بیتی : اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ اس سے بعض ” عقلمندوں “ نے یہ سمجھا کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں داخل نہیں حالانکہ کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ان کو بھی انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطہرکم تطھیرا کی فضیلت میں داخل اور شامل فرما اور ان کو بھی اس کرامت میں شریک فرما۔ آپ ﷺ کا مقصود حصر نہ تھا کہ بس یہی اہل بیت ہیں اور ازواج مطہرات اہل بیت نہیں اور اس حدیث کے بعضے طرق میں آیا ہے کہ حضور پر نور ﷺ نے جب ان حضرات مذکور بن کو عباء میں داخل کر کے دعا فرمائی تو ام المومنین ام سلمہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے بھی ان کے ساتھ شامل فرما لیجئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنی جگہ ہو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تم کو عبا میں داخل کرنے کی ضرورت نہیں تم تو پہلے ہی سے بہل بیت میں داخل ہو کذا فی النسواں فی رمضان ص 4 وعظ چہارم از سلسلہ البلاغ۔ کیونکہ ان تمام آیات کا نزول تمہاری ہی بارے میں ہے اور ان آیات میں از اول تا آخر تمام خطابات ازواج مطہرات ہی کو ہیں اور ازواج مطہرات ہی ان خطابات کی اولین مخاطب ہیں لہٰذا ان کے لئے اس قسم کے عمل کی اور کسی قسم کی تصریح کی ضرورت ہی نہیں ان کا اہل بیت ہونا تو قطعی اور یقینی ہے البتہ داماد اور داماد کی اولاد کے بارے میں شبہ ہوسکتا ہے کہ ان کو حضور پر نور ﷺ کا گھرانہ قرار دیا جائے۔ یا ان کو مستقل اور علیحدہ گھرانہ سمجھا جائے اس لئے حضور پر نور ﷺ نے حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ اور حسن اور حسین ؓ کو ایک چادر میں لے کر یہ دعا کی اللہم ھولاء اھل بیتی الخ تاکہ اس دعا کے ذریعہ یہ حضرات بھی ازواج مطہرات کے ساتھ اس وعدہ نعمت و کرامت میں شریک ہوجائیں جو اللہ نے نبی ﷺ کے گھرانہ کے لئے ارادہ فرمایا ہے اگر اس آیت کا اصل نزول حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے بارے میں ہوتا تو آپ ﷺ کو دعا کی ضرورت نہ ہوتی۔ غرض یہ کہ عباء میں داخل کر کے دعا کرنا ان لوگوں کے لئے تھا کہ جن کے اہل بیت ہونے میں کسی قسم کا شبہ ہوسکتا تھا اور ازواج مطہرات کا تو اہل بیت ہونا ایسا قطعی اور یقینی تھا کہ جس میں کسی قسم کے شبہ کا امکان ہی نہ تھا اس لئے ان کو عباء میں داخل کرنے اور اللہم ھولاء اھل بیتی کہنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ حضرت علی ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ سے اجنبی تھے اس لئے ان کے ساتھ ام سلمہ ؓ کو عبا میں کیونکر داخل کیا جاسکتا تھا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ام سلمہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا میں آپ ﷺ کے اہل بیت میں سے نہیں آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں اور حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حسنین ؓ کی دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضرت ام سلمہ ؓ کو بلایا اور اپنی کساء میں داخل کر کے ان کے لئے دعا فرمائی (روح المعانی ص 14 ج 22) اور صواعق محرقہ ص 86۔ روایت مذکورہ ان دونوں کتابوں میں مذکور ہے۔ اور جس طرح احادیث میں حضرت علی ؓ اور ان کی اولاد کو عبا میں داخل کر کے دعا کرنے کا ذکر آیا ہے اسی طرح بعض روایات میں حضرت عباس ؓ اور ان کی اولاد کے متعلق بھی آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عباس ؓ کو اور ان کی اولاد کو اپنی کساء (کمبل) میں داخل کر کے دعا فرمائی۔ ان مختلف دعاؤں سے آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ ازواج مطہرات کے ساتھ دوسرے اعزاء و اقارب بھی اس نعمت و کرامت میں داخل ہوجائیں پس ان کو اس نعمت اور کرامت میں شریک کرنے کے لئے آپ ﷺ نے یہ دعائیں فرمائیں پس آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ کو اور ان کی اولاد کو بھی اپنی دعا سے اس وعدہ میں داخل فرمایا اگر یہ آیت انہی کے حق میں نازل ہوئی ہوتی تو دعا کی حاجت ہی کیا تھی اور آپ ﷺ حصول حاصل کی کیوں دعا فرماتے اور جو بات حاصل تھی اس کے حاصل کرنے کی کیوں کوشش کرتے، اسی لئے آپ ﷺ نے پہلی بار ام المومنین ام سلمہ ؓ کو اس دعا میں شریک نہ فرمایا کیونکہ اس دعا کو ان کے حق میں تحصیل حاصل جانا کیونکہ آیت کا نزول ہی آپ ﷺ کی بیبیوں کے بارے میں ہوا البتہ حضرت علی ؓ کے لئے دعا سے فارغ ہوجانے کے بعد ام المومنین ام سلمہ ؓ کو بلا کر جو دعا کی وہ محض ان کی دلجوئی کے لئے فرمائی ورنہ آپ ﷺ نے صراحۃً فرما دیا تھا کہ تو بلاشبہ میرے اہل میں سے ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات کی فضیلت اور کرامت کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں تو آنحضرت ﷺ کو یہ خیال ہوا کہ یہ آیتیں اگرچہ خاص ازواج ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور آیت ہذا سے پہلے اور اس تمام رکوع میں تمام خطابات ازواج مطہرات ہی کو ہیں اور وقرن فی بیوتکن۔ میں اور واذکرن ما یتلی فی بیوتکن میں بیوت کی نسبت بھی انہی کی طرف کی گئی ہے جو اللہ کے خاص الخاص عنایات پر دلالت کرتی ہیں اس لئے آپ ﷺ کا دل چاہا کہ اہل بیت کے عموم میں اپنی اولاد کو داخل کر کے اللہ تعالیٰ سے درخواست کروں کہ اے اللہ علی ؓ اور فاطمہ ؓ اور حسنین ؓ یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ان کو بھی اس خاص رحمت اور کرامت اور عنایت میں شریک فرما۔ فائدہ : حضرت خدیجہ ؓ سے حضور ﷺ کی چار صاحبزادیاں تھیں رقیہ ؓ اور ام کلثوم ؓ اور زینب ؓ اور فاطمۃ الزہرا ؓ اول الذکر تین صاحبزادیاں اس آیت کے نزول سے پہلے وفات پا چکی تھیں صرف حضرت فاطمہ ؓ باقی تھیں اس لئے فاطمہ ؓ کو اس دعا کے ساتھ مخصوص فرمایا (دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 493 ج 3) اور ایسا ہی معاملہ آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس ؓ اور ان کی اولاد کے ساتھ کیا جیسا کہ بیہقی کی ایک صحیح روایت میں آیا ہے کہ مدعا آپ ﷺ کا یہ تھا کہ لفظ اہل بیت کے ظاہری عموم میں اپنے ان خاص عزیزوں کو بھی داخل فرما دیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ان کو بھی اذہاب رجس اور تطہیر کی فضیلت اور کرامت میں شریک فرما باقی رہیں ازواج مطہرات۔ تو خطاب قرآنی میں وہی از اول تا آخر ان کر امات اور عنایات کی اولین مخاطب تھیں اس لئے اس قسم کے اظہار اور تصریح کی ان کے لئے ضرورت نہیں سمجھی گئی واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ فعال لما یرید نے ازواج مطھرات کے لئے اپنے ارادہ کو ظاہر کیا ہے اب اس کے وقوع میں کسی شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ بادشاہ کریم اپنے کسی مقرب اور مصاحب سے یہ کہے کہ میرے پاس اپنے اہل خانہ اور اپنے گھر والوں کو حاضر کرو میں انہیں خاص خلعت دینا چاہتا ہوں اور میرا ارادہ یہ ہے کہ میں ان پر خاص خلعت دینا چاہتا ہوں اور میرا ارادہ یہ ہے کہ میں ان پر خاص نوازش کروں اس مقرب اور مصاحب نے عالی ہمت بادشاہ کے لطف وکرم پر نظر کر کے اپنے اہل خانہ کے سوا کچھ دیگر اعزاء اوراقارب بھی بارگاہ شاہی میں لا حاضر کئے اور کہنے لگا کہ حضور ﷺ یہ سب میرے اہل خانہ ہیں جس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ یہ اعزاء اوراقارب بھی شاہی خلعت اور نوازش سے بہرہ مند ہوں اور ظاہر ہے کہ اس مقرب اور مصاحب کا اس عرض کرنے سے حضور ﷺ یہ سب میرے اہل بیت اور اہل خانہ ہیں۔ یہ مقصد نہیں ہوتا کہ اس کے اہل خانہ اس میں داخل نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اہل خانہ کے ساتھ یہ اعزا بھی شاہی خلعت اور عنایت سے بہرہ مند ہوجائیں اور بادشاہ نے جس لطف وانعام کا میرے اہل خانہ کے لئے ارادہ فرمایا ہے اس میں میرے ان اعزاء و اقارب کا بھی داخل کرلیا جائے اور یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بجائے اہل خانہ کے میرے داماد کو اور اس کی اولاد کو اس خلعت سے نواز دیا جائے۔ خلاصہء کلام : یہ کہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک اہل بیت کے مفہوم عام میں حضور پر نور ﷺ کی ازواج مطہرات اور ذریت اور اولاد اور بنی الاعمام سب داخل ہیں اور سب اس بشارت اور کرامت میں شریک اور داخل ہیں کیونکہ قاعدہ مسلمہ ہے۔ العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب یعنی اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے نہ کہ خصوصی سبب کا۔ آیت کا نزول اصالۃ اگرچہ ازواج مطہرات کے بارے میں ہوا ہے مگر عموم لفظ کی وجہ سے اور حضور پر نور ﷺ کی کوئی بی بی اہل بیت میں داخل نہیں اور حضور ﷺ کی اولاد میں سے سوائے فاطمۃ الزہرا ؓ کے اور کوئی صاحبزادی اہل بیت کے مفہوم میں داخل نہیں حضرت رقیہ ؓ اور حضرت ام کلثوم ؓ اور حضرت زینب ؓ کا آپ ﷺ کی صاحبزادی ہونا حدیث اور تاریخ اور اجماع سے ثابت ہے مگر شیعہ لوگ ان کو حضور ﷺ کی صاحبزادی نہیں سمجھتے اور ان کو حضور ﷺ کے نسب سے خارج سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن سے ثابت ہے کہ حضور پر نور ﷺ کی متعدد صاحبزادیاں تھیں۔ یایھا النبی قل لازواج ربناتک الایۃ بناتک صیغہ جمع ہے جس کا ادنیٰ درجہ تین ہیں جیسا کہ ازواج صیغہ جمع کا ہے اور آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ سے قطعی طور پر یہ ثابت ہے کہ حضور پر نور ﷺ کی متعدد بیبیاں تھیں مگر شیعہ شنیعہ سوائے حضرت خدیجہ ؓ کے کسی اور زوجہ کے قائل نہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن کریم کی جن آیتوں میں ینساء النبی اور یایھا النبی قل لازواجک۔ وازواجہ امھاتہم۔ یایھا النبی انا احللنا لک ازواجک الاتی (الآیات) آیا ہے جن میں صراحۃً لفظ نساء اور لفظ ازواج موجود ہے اور صیغہ جمع ہے اور صراحۃً ازواج کے متعدد ہونے پر دلالت کرتا ہے پس یہ تمام آیتیں مدنی ہیں حضرت خدیجہ ؓ وفات کے عرصہ بعد نازل ہوئی ہیں معلوم ہوا کہ ان آیات میں ازواج سے حضرت خدیجہ ؓ کے سوا اور دوسری بیبیاں مراد ہیں اور اہل تشیع یہ نہیں دیکھتے کہ اس تمام رکوع میں از اول تا آخر تمام خطابات خداوندی ازواج مطہرات ہی کو ہیں اور اس رکوع میں صرف ایک مرتبہ لفظ اہل البیت آیا ہے باقی دوسری جگہ بیوت کی نسبت بھی ازواج مطہرات ہی کی طرف کی گئی ہے فی بیوتکن۔ اور واذکرن ما یتلی فی بیوتکن بیوت بھی صیغہ جمع کا ہے اور کن بھی ضمیر جمع کی ہے معلوم ہوا کہ اصل اہلبیت اور نبی کے اہل خانہ آپ ﷺ کی بیبیاں ہیں۔ قرآن کریم میں جا بجا بیوت کی نسبت عورتوں کی طرف کی گئی ہے۔ ولا تخرجوہن من بیوتہن۔ وراودتہ التی ھو فی بیتھا مگر نہ معلوم کہ شیعوں کی آنکھوں پر کیا پٹی بندھی کہ باجود ان صریح آیتوں کے ازواج مطہرات کو اہل بیت سے خارج سمجھا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اولئک الذین لم یرد اللہ ان یطھر قلوبہم۔ انہی کے لئے ہے۔ شیعوں کی دوسری بات کا جواب ابتداء کلام میں ہم نے آیت تطہیر کے متعلق شیعوں کی دو باتیں ذکر کی تھیں پہلی بات تو یہ تھی کہ یہ آیت حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ اور حسنین ؓ کے بارے میں نازل ہوئی اور لفظ اہل بیت سے صرف یہی چار حضرات مراد ہیں ازواج مطہرات مراد نہیں۔ بحمد للہ شیعوں کی اس بات کا مفصل جواب گذر گیا۔ شیعوں کی دوسری بات اس آیت کے متعلق یہ تھی کہ اس آیت میں اذہاب رجس اور تطہیر سے یعنی گندگی دور کرنے سے اور پاک کرنے سے اہل بیت کو معصوم بنانا اور ان کو عصمت عطا کرنا مراد ہے۔ اہل سنت وجماعت کہتے ہیں کہ اذہاب رجس اور تطہیر سے معصوم بنانا اور عصمت عطا کرنا مراد نہیں بلکہ ازالہ معاصی ونقائص مراد ہے جس کو تزکیہ نفس اور تخلیہ اور تجلیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور تطہیر سے تحلیہء باطن اور تنویر قلب مراد ہے۔ علامہ آلوسی (رح) روح المعانی میں لکھتے ہیں۔ والمعنی انما یرید اللہ لیذھب عنکم الذنوب والمعاصی ویحلیکم بالطاعۃ والتقوی تحلیۃ بلیغۃ فیما امرکم۔ (روح المعانی ص 12 ج 22) اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے خطاؤں اور گناہوں کی گندگی دور کردے اور طاعت اور تقویٰ سے تم کو خوب مزین اور آراستہ کر دے کہ اللہ نے تم کو جو حکم دیا ہے اس میں کمی نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان ہدایتوں اور نصیحتوں سے اللہ کا منشا یہ ہے کہ نبی کے گھر والے ان احکام پر عمل کر کے بالکل پاک اور صاف ستھرے ہوجائیں اور ان کا ظاہر اور باطن ایسا معطر اور مطہر اور منور ہوجائے کہ جو نبی کے گھرانہ کے مناسب اور شایان شان ہو اور ان کی صفائی اور ستھرائی اوروں سے ممتاز اور فائق ہو پس اگر تم نے ہماری ان ہدایتوں اور نصیحتوں پر عمل کیا تو تم برائیوں سے بالکل پاک اور صاف ہوجاؤ گے۔ اور اگر بالفرض بقول شیعہ اذہاب رجس اور تطہیر سے عطاء عصمت یعنی کسی کو معصوم بنانے کے معنی مراد لئے جائیں تو پھر اس سے تو صحابہ بدریین کا بھی معصوم ہونا ثابت ہوجائے گا کیونکہ یہ لفظ صحابہ کرام کے لئے بھی آیا ہے۔ ولکن یرید لیطھرکم ولیتم نعمتہ علیکم لعلکم تشکرون۔ اور حاضرین جنگ بدر کے لئے بھی یہ لفظ آیا ہے۔ ویذھب عنکم رجز الشیطان۔ پس اگر شیعوں کے نزدیک آیت تطہیر اہل بیت کی عصمت کی دلیل ہے تو مذکورہ بالا دو آیتیں تمام صحابہ کی اور خصوصا صحابہ بدریین کی عصمت کی دلیل بنیں گی بلکہ مزید برآں ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے لئے اتمام نعمت یعنی نعمت پورا کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ اتمام نعمت کا مضمون اذہاب رجس اور تطہیر سے بڑھ کر ہے نیز گزشتہ آیت میں یعنی ویذھب عنکم رجز الشیطان۔ میں اہل بدر کے لئے شیطان کے شر سے محفوظ ہونے کا ذکر فرمایا ہے اور شیطان کے شر سے محفوظ رکھنا بدون عطا عصمت کے ممکن نہیں اور اتمام نعمت اس پر مزید اضافہ ہے اس لئے کہ اتمام نعمت کا لفظ تمام فضائل اور کمالات کو حاوی ہے پس شیعوں کو چاہیے کہ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی عصمت کے عموما اور اہل بدر کی عصمت کے خصوصا قائل ہوں۔ جواب دوم (2) نیز اگر آیت تطہیر شیعوں کے نزدیک صرف اہل بیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت ان کی عصمت کی دلیل ہے تو آیت والطیبک للطیبین والطیبون للطیبت بالا جماع عائشہ صدیقہ ؓ کی شان میں نازل ہوئی ہے جس کا شیعہ بھی انکار نہیں کرسکتے اور ظاہر ہے کہ لفظ ” الطیبات “ جس قدر پاکیزگی پر دلالت کرتا ہے۔ لفظ۔ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا۔ اتنا دلالت نہیں کرتا کیونکہ لفظ الطیبات صفت مشبہ ہے جو اصل اور دائمی اور لازمی پاکیزگی پر دلالت کرتا ہے اور لفظ یذھب و یطھر تجدد اور حدوث پر دلالت کرتے ہیں جس سے اس درجہ پاکیزگی ہونا ثابت نہیں ہوتا جتنا کہ صفت مشبہ کے صیغہ سے ثابت ہوتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آیت تطہیر کے بھروسہ پر اہل بیت کو معصوم مانا جائے۔ اور آیت الطیبات سے حضرت عائشہ ؓ اور دیگر ازواج مطہرات کو معصوم نہ مانا جائے کیونکہ آیت الطیبات کا مورد اگرچہ خاص ہے مگر الفاظ تو عموم پر دلالت کرتے ہیں اور ناظرین کرام کو چاہئے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی برات اور نزاہت اور عفت اور طہارت میں شک اور تردد کرنے والوں کے حق میں کیا تہدید اور وعید آئی ہے جو اس امر کی واضح دلیل ہے کہ ازواج مطہرات کی طہارت میں شک اور تردد ایمان کے منافی ہے۔ (3) نیز اگر غور سے دیکھا جائے تو عجب نہیں کہ آیت تطہیر سے عدم عصمت ثابت ہوجائے اس لئے کہ جو پہلے سے معصوم اور طاہر ہو اس کی تطہیر کے ارادہ کے کیا معنی۔ تحصیل حاصل کا ارادہ بھی عقلا قبیح ہے۔ (4) نیز اس آیت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ نزول آیت کے وقت تک ائمہ کو عصمت حاصل نہ تھی بلکہ بعد نزول آیت آئندہ زمانہ میں ان کو عصمت حاصل ہوگی کیونکہ آیت میں صیغہ مضارع کا مستعمل ہوا ہے جو حال یا استقبال میں وقوع پر دلالت کرتا ہے ماضی سے متعلق نہیں اور شیعوں کے نزدیک ائمہ وقت ولادت سے لے کر وقت موت تک کسی وقت بھی عصمت سے خالی نہیں ہوتے ہاں اگر آیت میں بجائے صیغہ مضارع کے صیغہ ماضی ہوتا اور کلام اس طرح ہوتا۔ اذھب عنکم الرجس اھل البیت وطھرکم تطہیرا۔ اے اہل بیت اللہ نے تم سے گندگی کو دور کردیا اور تم کو بالکل پاک کردیا تو شاید شیعوں کا کچھ کام چل جاتا۔ (5) نیز یہ لفظ شیعوں کی حدیثوں میں بھی صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے لئے مستعمل ہوا ہے لہٰذا شیعوں کو چاہئے کہ وہ صحابہ کو بھی معصوم سمجھیں کیونکہ شیعوں کی ایک حدیث میں یہ فضیلت صحابہ کے لئے بصیغہ ماضی وارد ہوئی ہے۔ وہ حدیث طویل ہے جو فروع کافی کلینی جلد اول مطبوعہ نول کشور کتاب الجہاد میں ص 609 سے لے کر ص 613 تک منقول ہے۔ یہ حدیث امام جعفر صادق ؓ سے مروی ہے جو مہاجرین صحابہ کے فضائل اور محامد پر مشتمل ہے جس میں صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متعلق ایک جگہ یہ کہا گیا ہے۔ الذین اخبرعنہم فی کتابہ انہ اذھب عنہم الرجس وطھرہم تطھیرا یعنی ان لوگوں کے متعلق اللہ نے اپنی کتاب میں یہ بیان کیا ہے کہ اللہ نے ان سے ناپاکی کو دور کردیا اور ان کو خوب پاک کردیا بعد ازاں امام جعفر صادق (رح) نے مہاجرین کو آیۃ محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم اور آیت قد افلح ال مومن ون الخ اور آیت التائبون العابدون اور آیت یوم یوم یخزی اللہ النبی والذین امنوا معہ کا مصداق قرار دیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ مہاجرین اور خلفاء ثلاثہ معاذ اللہ ظالم وفاسق نہ تھے۔ حضرات شیعہ کو اس صریح اور واضح حدیث میں جب تاویل کی کوئی گنجائش نہ ملی تو اس کو تقیہ پر محمول کیا لیکن سوال یہ ہے کہ تقیہ کے لئے بھی کوئی موقع اور محل چاہئے کہ جو خوف اور ڈر کی بنا پر کیا جاتا ہے یہاں امام جعفر صادق (رح) کو کیا خوف لاحق تھا جس کی بنا پر آیات قرآنیہ کا حوالہ دے کر مہاجرین کے فضائل بیان کرنے پر مجبور ہوئے۔ نیز شیعوں کے نزدیک امام جعفر صادق (رح) کے لئے تقیہ ممنوع تھا۔ پھر انہوں نے کیسے تقیہ کی بنا پر مہاجرین کے یہ فضائل بیان کئے۔ ہاں اصول شیعہ پر ایک تاویل ممکن ہے وہ یہ کہ اللہ کو بدا واقع ہوا کہ پہلے تو ارادہ صحابہ کی تطہیر کا تھا بعد میں بدل گیا۔
Top