Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 31
وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَاۤ اَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ١ۙ وَ اَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیْمًا
وَمَنْ : اور جو يَّقْنُتْ : اطاعت کرے مِنْكُنَّ : تم میں سے لِلّٰهِ : اللہ کی وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَتَعْمَلْ : اور عمل کرے صَالِحًا : نیک نُّؤْتِهَآ : ہم دیں گے اس کو اَجْرَهَا : اس کا اجر مَرَّتَيْنِ ۙ : دوہرا وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا لَهَا : اس کے لیے رِزْقًا كَرِيْمًا : عزت کا رزق
اور جو کوئی تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار رہے گی اور عمل صالح کرتی رہے گی تو ہم اس کا اجر دوہرا دیں گے، اور ہم نے اس کے لئے ایک (مخصوص) عمدہ نعمت تیار کر رکھی ہے،58۔
58۔ یہ صلہ جنت میں ازواج نبی کے لئے مخصوص ہوگا۔ (آیت) ” رزقا “۔ رزق پر حاشیہ کہیں پہلے گزر چکا ہے۔ کہ اس سے مراد محض کھانے پینے ہی کی نہیں، بلکہ ہر قسم کی نعمتیں ہوتی ہیں۔ عربی میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے (آیت) ” اجرھا مرتین “۔ اہل خصوصیت کا عصیان بھی اوروں کے عصیان سے اشد ہوتا ہے، اس طرح ان کی طاعت بھی اوروں کی طاعت سے زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ بس وعدہ ووعید دونوں میں وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ اور خصوصا مقام کلام میں یہ کہنا ممکن ہے کہ حضرات امہات المومنین سے خدمت اطاعت کا صدور حضور ﷺ کے قلب کو راحت افزا زیادہ ہوگا۔ اور اسی طرح اس کے خلاف کا صدور آپ ﷺ کے لیے کلفت افزازیادہ ہوگا “۔ (تھانوی (رح) (آیت) ” اعتدنا “۔ میں اضافت تشریفی ہے۔ یعنی خود ہم نے تیار کیا ہے۔ (آیت) ” منکن “۔ من یہاں بھی بیانیہ ہے۔ تبعیضیہ نہیں، وہ رزق کریم کیا ہے ؟ اس کا تعین حد انسانی سے ماوراء ہے۔ بہرحال کوئی ایسا صلہ ہوگا جو دوسرے عطیوں سے ممتاز تر ہے۔
Top