Tafseer-e-Madani - Hud : 42
وَ هِیَ تَجْرِیْ بِهِمْ فِیْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ١۫ وَ نَادٰى نُوْحُ اِ۟بْنَهٗ وَ كَانَ فِیْ مَعْزِلٍ یّٰبُنَیَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَ لَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِیْنَ
وَهِىَ : اور وہ تَجْرِيْ : چلی بِهِمْ : ان کو لے کر فِيْ مَوْجٍ : لہروں میں كَالْجِبَالِ : پہاڑ جیسی وَنَادٰي : اور پکارا نُوْحُ : نوح ابْنَهٗ : اپنا بیٹا وَكَانَ : اور تھا فِيْ مَعْزِلٍ : کنارے میں يّٰبُنَيَّ : اے میرے بیٹے ارْكَبْ : سوار ہوجا مَّعَنَا : ہمارے ساتھ وَلَا تَكُنْ : اور نہ رہو مَّعَ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے ساتھ
اور وہ (کشتی) چلی جا رہی تھی ان سب کو لے کر پہاڑوں جیسی موجوں کے درمیان، اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکار کر کہا جب کہ وہ دور ایک فاصلے پر تھا کہ اے میرے بیٹے سوار ہوجا تو ہمارے ساتھ (اس کشتی میں) اور مت ساتھ رہ تو ان کافروں کے (جنہوں نے غرق ہونا ہے)
97 ۔ نوح (علیہ السلام) کے اپنے بیٹے کو پکارنے کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو پکارا جبکہ وہ ایک کنارے پر کھڑا تھا اور اس سے کہا کہ ہمارے ساتھ سوار ہوجا۔ سو نوح کا اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کے لیے پکارنا اور بیٹے کا انکار کرنا بھی اپنے اندر بڑے درسہائے عبرت رکھتا ہے۔ مثلا یہ کہ ہدایت پـیغمبر کے اختیار میں نہیں ہوتی۔ اور یہ کہ جو لوگ ہدایت چاہتے ہی نہیں وہ نور حق و ہدایت سے سرفراز نہیں ہوسکتے۔ اور یہ کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے کہ جو چاہیں کریں ورنہ نوح کا بیٹا اس طرح کفر پر نہ مرتا۔ سبحان اللہ۔ یہ شفقت پدری بھی کیا چیز ہوتی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبر بھی اپنے نافرمان اور باغی بیٹے کو آخر وقت تک اس طرح پکارتے ہیں تاکہ وہ بچ جائے۔ لیکن نافرمان اور بدبخت بیٹا ہے کہ پھر بھی نہیں مانتا۔ یہاں تک کہ غرقاب ہو کر اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہا مگر اس کے باوجود بدعتی ملاں کا کہنا اور ماننا ہے کہ پیغمبر مختار کل ہوتا ہے۔ سو پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے کہ جو چاہیں کریں ورنہ حضرت نوح کا اپنا حقیقی اور صلبی بیٹا اس انجام سے دوچار نہ ہوتا۔ پس مختار کل اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ اس کی صفت و شان میں دوسرا کوئی بھی اس کا شریک وسہیم نہیں ہوسکتا۔ اس میں کسی اور کو اس کا شریک ماننا شرک ہوگا جو کہ ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللہ۔ 98 ۔ نوح کے اپنے بیٹے کو کافروں کی معیت سے روکنے کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ نوح نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تو کافروں کے ساتھ مت رہ۔ بلکہ ایمان لاکر ان سے الگ ہوجا اور ان سے کٹ کر ہمارے ساتھ شامل ہوجا صدق دل سے۔ کیونکہ اصل رشتہ تو بہرحال دین و ایمان ہی کا رشتہ ہے۔ سو نجات سچ میں اور سچوں کے ساتھ رہنے میں اور سچوں کا ساتھ دینے میں ہے۔ اس لئے معیت ہمیشہ سچوں ہی کی اختیار کرنی چاہئے اور ساتھ ہمیشہ ایسے سچے اور پاکیزہ انسانوں کا دینا چاہئے جن کے سینے ایمان و یقین کے نور سے منور و معمور ہوں۔ اللہ سب کو نصیب فرمائے۔ سو ان لوگوں سے دور و نفور رہنا چاہئے جن کے دل کفران و نکران کی سیاہی میں گھر چکے ہوں کہ ان کا انجام ہلاکت و بربادی اور دائمی خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو کوئی مانے یا نہ مانے اور تسلیم کرے یا نہ کرے حق اور حقیقت بہرحال یہی اور صرف یہی ہے کہ سلامتی کی راہ ایمان و یقین رکھنے اور ایمان والوں کی معیت ہی میں ہے۔ والعیاذ باللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید۔
Top