Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 55
لِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْ١ؕ فَتَمَتَّعُوْا١۫ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ
لِيَكْفُرُوْا : تاکہ وہ ناشکری کریں بِمَآ : اس سے جو اٰتَيْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا فَتَمَتَّعُوْا : تو تم فائدہ اٹھا لو فَسَوْفَ : پس عنقریب تَعْلَمُوْنَ : تم جان لو گے
تاکہ (اس طرح) وہ ناشکری کریں ان نعمتوں کی جو ہم نے انکو دی ہوتی ہیں، سو مزے کرلو تم لوگ کچھ عرصہ کیلئے، آگے چل کر تمہیں خود معلوم ہوجائے گا،1
106۔ مشرک انسان کی احسان فراموشی اور بےانصافی کا ایک نمونہ ومظہر : کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کرم اور اس کی رحمت و عنایت سے چھٹکارا پاتے ہی شرک کرنے لگتا ہے۔ چناچہ ارشاد فرما گیا کہ پھر یکایک ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ جس کی بنا پر کوئی اس نعمت کو اپنی کسی دیوی دیوتا اور اپنے بتوں میں سے کسی بت کی طرف منسوب کرتا ہے۔ کوئی اسے اپنی کسی دوسری خود ساختہ سرکار کی کارستانی قرار دیتا ہے۔ کوئی اسے اور کسی درگاہ اور آستانے کا فیض بتاتا ہے اور کوئی اسے اور کسی زندہ یا مردہ ہستی کی حاجت روائی ومشکل کشائی کا ثمرہ قرار دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر ایسے مشرک لوگ اپنے اس منعم حقیقی اور واہب مطلق۔ جل جلالہ۔ کی بجائے اپنے ان ہی فرضی معبودوں اور من گھڑت دیویوں، دیوتاؤں اور خود ساختہ سرکاروں کی طرف رجوع کرتے اور ان کو خوش کرنے کے لئے ان کے نام کی نذریں مانتے نیازیں دیتے چڑھاوے چڑھاتے، دیگیں پکاتے اور جھوٹے من گھڑت اور بناوٹی قصے بناتے اور پھیلاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اس رب غفور ورحیم نے اپنے حلم وکرم بےپایاں اور اپنی رحمت بےنہایت سے اس انسان کو ڈھیل دے رکھی ہے۔ فسبحانہ وتعالیٰ اکرم الاکرمین وارحم الراحمین۔ سو کس قدر بےانصاف، ظالم اور ناشکرا ہے یہ انسان جو کہ اپنے خالق ومالک سے منہ موڑ کر اس طرح کی فرضی اور وہمی چیزوں کے آگے جھکتا اور اپنی تذلیل و تحقیر کا سامان خود کرتا ہے۔ اور اپنے رب کے حق بندگی سے غفلت برتتا ہے فصدق اللہ القآئل (ان الانسان لربہ لکنود) یعنی بلاشبہ انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 107۔ منکرین کے لئے ایک تنبیہ و تذکیر : سو ارشاد فرمایا گیا اور منکرین و مشرکین کو خطاب کرکے ان کی تنبیہ و تذکیر کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ یعنی دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں جو کہ بہرحال عارضی اور فانی ہے۔ اور اصل اور حقیقی زندگی تو بہرحال آخرت ہی کی زندگی ہے۔ جس کو نہ فنا ہے نہ زوال اور جس کی نعمتیں دائمی اور ابدی ہیں۔ اور اس کے مقابلے میں دنیائے دوں کی یہ فانی زندگی کچھ بھی نہیں۔ خواہ یہ کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہوجائے آخرت کے مقابلے میں بہرحال قلیل اور اتنی قلیل ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سو بڑے ہی خسارے میں ہیں وہ لوگ جو آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی کے مقابلے میں دنیائے فانی کی اس عارضی زندگی کو ہی اپنا مقصود اور نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اس ارشاد سے مشرکوں کے شرک کا نتیجہ بیان فرمایا گیا ہے اس طرح ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئے نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کرکے کفران نعمت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اور اپنے خود ساختہ مشکل کشاؤں اور من گھڑت حاجت رواؤں کی کارستانیوں سے متعلق من گھڑت اور جھوٹے قصے سنا سنا کر اپنے کاروبار کفر و شرک کو اور بڑھاتے پھیلاتے ہیں۔ اپنی دکانیں چمکاتے اور طرح طرح کے فائدے اٹھاتے ہیں۔ سو فرمایا گیا کہ تم لوگ یہ چند روزہ فائدے اٹھالو کہ حیات دنیا کی یہ فرصت خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو آخرت کی ابدی زندگی کے مقابلے میں یہ ہیچ اور نہ ہونے کے برابر ہے عن قریب تم کو خود معلوم ہوجائے گا کہ تمہارے ان کرتوتوں کا نتیجہ وانجام کیا نکلتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 108۔ منکرین کا معاملہ ان کے انجام کے حوالے : سو منکرین و مشرکین سے فرمایا گیا کہ دنیا کی عارضی، فانی اور ناقص وبے حقیقت لذتوں اور شہوتوں کے پیچھے لگ کر اور آخرت کی حقیقی اور دائمی نعمتوں کو بھلا کر تم نے اپنا کس قدر نقصان کیا تھا۔ والعیاذ باللہ۔ اور اس طرح تم لوگوں نے کتنے بڑے خسارے کا سودا کیا تھا اور متاع زندگی کو تم نے کس قدر غلط اور ناقص مقصد میں لگایا تھا مگر اس وقت کے اس علم سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا سوائے آتش حسرت و افسوس میں اضافے کے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ علامہ جمال القاسمی الدمشقی فرماتے ہیں کہ اس ابہام میں بہت بڑی ہولناکی مضمر ہے کہ اس میں اس طرف اشارہ اور تعریض سے کہ غیب میں پوشیدہ وہ انجام اتنا ہولناک ہوگا کہ الفاظ کہ و کلمات اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ (محاسن التاویل) ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے۔ آمین۔
Top