Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 60
وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَا١ۚ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور جو دی گئی تمہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز فَمَتَاعُ : سو سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَزِيْنَتُهَا : اور اس کی زینت وَمَا : اور جو عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر وَّاَبْقٰى : اور باقی رہنے والا۔ تادیر اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : سو کیا تم سمجھتے نہیں
اور جو بھی کچھ تمہیں دیا گیا ہے اے لوگو ! تو وہ سب محض دنیاوی زندگی کا چند روزہ سامان اور اس کی زینت ہے اور بس اور جو کچھ اللہ کے پاس اس جہان میں رکھا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر اچھا بھی ہے اور ہمیشہ رہنے والا بھی تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟ (1)
83 متاع دنیا سب فانی اور عارضی : سو ابنائے دنیا کو ایک صاف اور کھلی تنبیہ و تذکیر کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ جو بھی کچھ تمہیں دیا گیا ہے اے لوگو وہ سب اس دنیاوی زندگی ہی کا چند روزہ سامان ہے اور بس۔ سو کتنے کوتاہ نظر اور محروم و بدنصیب ہیں وہ لوگ جو دنیا کے اس چند روزہ سامان زیست اور اس کی عارضی اور فانی ٹیپ ٹاپ اور زیب وزینت میں الجھ کر رہ جائیں اور اپنے انجام کو اور اپنی آخرت کی حقیقی اور ابدی زندگی کو بھول جائیں۔ اور اس طرح وہ ابدی خسارے کا شکار ہوجائیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ایسے لوگوں کو براہ راست خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یہ دنیاوی مال و دولت اور رفاہت و خوشحالی جو بھی کچھ تمہیں حاصل ہے اے لوگو وہ اسی دنیائے فانی کا چند روزہ سامان ہے اور بس۔ سو اس متاع فانی اور عارضی زیب وزینت اور چہل پہل پر ریجھ کر اپنی آخرت کی حقیقی اور ابدی زندگی اور اس کے تقاضوں سے غافل و لاپرواہ نہ ہوجانا کہ یہ خساروں کا خسارہ اور ہلاکتوں کی ہلاکت ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 84 عقل سے کام لینے کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا اور غافلوں کے ضمیروں کو جھنجوڑنے کے لیے استفہام کے اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟ "۔ کہ آخرت کی حقیقی اور ابدی زندگی اور اس کی بےمثل نعمتوں سے منہ موڑ کر اور ان کو بھول کر دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی ہی کے لئے جیتے اور اسی کے لیے مرتے ہو۔ اور اسی کے عیش و عشرت کو اپنا مقصد حیات بناتے ہو ؟ ۔ والعیاذ باللہ مِنْ کُلِّ سُوْئٍ وَّزَیْغ ۔ حالانکہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ " خیر " بھی ہے اور " ابقیٰ " بھی۔ یعنی وہ کم و کیف ہر اعتبار سے دنیاوی زندگی کی ان تمام نعمتوں سے کہیں بڑھ کر بہتر اور عمدہ بھی ہے اور ہمیشہ رہنے والا بھی۔ پھر دنیا کی ان عارضی، فانی اور وقتی نعمتوں کی بنا پر اس سے غافل و لاپرواہ ہوجانا کتنے بڑے خسارے کا سودا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کیا کسی عقلمند کی عقل اگر وہ صحیح و سلامت ہو ایسے خسارے کو گوارہ کرسکتی ہے ؟ جب نہیں اور یقینا نہیں تو پھر دنیا کو آخرت پر ترجیح کس طرح دی جاسکتی ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top