Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 60
وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَا١ۚ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور جو دی گئی تمہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز فَمَتَاعُ : سو سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَزِيْنَتُهَا : اور اس کی زینت وَمَا : اور جو عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر وَّاَبْقٰى : اور باقی رہنے والا۔ تادیر اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : سو کیا تم سمجھتے نہیں
اور تمہیں جو بھی کوئی چیز دی گئی ہے سو وہ دنیاوی زندگی کا سامان ہے اور زینت ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے سو وہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے کیا تم نہیں سمجھتے ہو۔
پھر فرمایا (وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُھَا وَ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی) (اور تمہیں جو بھی کوئی چیز دی گئی ہے سو دنیاوی زندگی کا سامان ہے اور زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے سو وہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے۔ ) چونکہ دنیاوی زندگی اور اس میں کام آنے والا مال و متاع اہل کفر کو ایمان لانے سے روکتا تھا اور اتنی بھاری تعداد میں ایسے کافر و مشرک ہیں جو رسول اللہ ﷺ کو واقعی اللہ تعالیٰ کا رسول سمجھتے ہیں اور یہ یقین کرتے ہیں کہ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے لیکن دنیاوی اموال اور اغراض اور تھوڑی سی دیر کی دنیاوی عزت اور جاہ کو دیکھتے ہوئے ایمان قبول نہیں کرتے۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ تمہیں دنیا میں جو کچھ دیا گیا ہے یہ سب دنیا والی زندگی میں کام آنے والی چیز ہے اور اسی دنیا کی زیب وزینت ہے یہ سب کچھ موت کے ساتھ ختم ہوجائے گا تھوڑی سی دیر کی چیزیں ہیں۔ ان کی وجہ سے ایمان نہ لا کر آخرت کی نعمتوں سے کیوں محروم ہوتے ہو، وہاں جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گا وہ اس سب سے بہتر ہوگا اور دائمی ہوگا، کفر کی وجہ سے اس سے محرومی ہوگی اور دوزخ میں داخل ہو گے حقیر فانی دنیا کے لیے وہاں کی دائمی اور بہتر در بہتر نعمتوں سے محروم ہونا اور دائمی عذاب میں جانا کوئی سمجھداری کی بات نہیں۔ اسی کو فرمایا ( اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) کیا تم سمجھتے نہیں۔ حرم شریف میں ہر قسم کے ماکولات مشروبات اور مصنوعات ملتے ہیں جس میں (یُجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْءٍ ) کا مظاہرہ ہے۔ حرم کے بارے میں جو یہ فرمایا کہ جہاں ہر چیز کے پھل لائے جاتے ہیں اس سے بعض حضرات نے یہ استنباط کیا ہے کہ لفظ ثمرات پھلوں کو تو شامل ہے ہی دوسری مصنوعات کو بھی شامل کیا ہے جو فیکٹریاں اور ملوں اور کارخانوں کے ثمرات ہیں۔ چناچہ ہمیشہ اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر کی ہونے والی غذائیں اور ہر براعظم کی مصنوعات بڑی تعداد میں فراوانی کے ساتھ مکہ معظمہ میں ملتی ہیں۔ حج کے موقع پر لاکھوں افراد بیک وقت جمع ہوجاتے ہیں سب کو رزق ملتا ہے اور دنیا بھر کی چیزیں مکہ مکرمہ میں اور منیٰ میں بڑی وافر مقدار میں ملتی ہے۔ اور مدینہ منورہ میں بھی اس کا مشاہدہ ہے بلکہ وہاں مکہ مکرمہ سے زیادہ غذائیں اور دوائیں اور انسانی ضرورت کی چیزیں ملتی ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی دعا کا اثر ہے آپ نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا اللّٰھُمَّ اجْعَلْ بالْمَدِیْنَۃِ ضِعْفٰی مَا جَعَلْتَ بِمَکَّۃَ اے اللہ مکہ میں جو برکت آپ نے رکھی ہے، مدینہ میں اس کی دگنی برکت رکھ دیجیے۔ (رواہ البخاری)
Top