Tafseer-e-Madani - Al-Hadid : 29
لِّئَلَّا یَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَلَّا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
لِّئَلَّا يَعْلَمَ : تاکہ نہ جان پائیں اَهْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اَلَّا يَقْدِرُوْنَ : کہ نہیں وہ قدرت رکھتے عَلٰي شَيْءٍ : اوپر کسی چیز کے مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ : اللہ کے فضل سے وَاَنَّ الْفَضْلَ : اور بیشک فضل بِيَدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاتھ میں ہے يُؤْتِيْهِ : دیتا ہے اس کو مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس کو چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ : بڑے فضل والا ہے
(اور ایمان پر یہ انعامات اور ان کی اس طرح پیشگی خبر اس لئے دی جا رہی ہے کہ) تاکہ اہل کتاب یہ نہ سمجھیں کہ (اللہ کے فضل پر ان کا کوئی اجارہ ہے اور) مسلمان اللہ کے فضل میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے اور یہ کہ فضل تو بلاشبہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑا ہی فضل والا ہے۔
[ 111] دین حق پر ایمان کی ترغیب اور یہود پر تعریض کا ذکر وبیان : یہاں پر اہل الکتاب کا لفظ اگرچہ عام ہے جو اپنے ظاہر اور عموم کے اعتبار سے یہود اور نصاریٰ دونوں کو شامل ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ یہاں پر اس سے مراد یہود من حیث الجماعت ہیں کیونکہ اصل میں یہی لوگ اس خبط میں مبتلا تھے کہ یہی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے انعام کے وارث ومورث اور اس کے اجارہ دار ہیں اور ان کا گمان یہ تھا کہ نبوت اور رسالت ہمارا موروثی حق ہے، ہمارے سوا اور کسی کو یہ شرف مل سکتا ہی نہیں اور اسی زعم و گھمنڈ اور پندار کی بناء پر انہوں نے آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار کیا، بلکہ یہ اس کے سخت مخالف بن گئے اور جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی مخالفت کے علی الرغم حق کی یہ دعوت بڑھتی اور پھیلتی پھولتی جارہی ہے اور یہاں تک کہ ان کی اپنی صفوں سے بھی بہت سے اخیار ٹوٹ کر اس کو قبول کرتے اور اس کے جان نثار بنتے جا رہے ہیں تو ان پر حسد کا ایسا بخار چڑھا جو ان کو ہلاکت و تباہی کے انتہائی ہولناک گڑھے میں اتار کر ہی رہا، حالانکہ نبوت و رسالت اور سیادت و امانت اللہ تعالیٰ کی بخشش و عطا، اور اس کا انعام و احسان ہے، وہ جس کو چاہے اس سے نوازے، اس سے متعلق کسی کے جلنے مرنے اور سوال و اعتراض کا کیا موقع ہوسکتا ہے۔ " واللّٰہ یختص برحمتہ من یشائ " سو ایسے میں سچے نصاریٰ کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ سچے سل سے حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لے آئیں کہ اس فضل عظیم سے بہرہ مند ہوں جو آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے پر موقوف و منحصر ہے، اور یہود کو ان کے حسد کی آگ میں جلتا چھوڑ دیں اور اس طرح یہ اس دوہرے اجر کے مستحق بنیں جو اس پر ان کو ملنے والا ہے اور یہود اگر اپنے حسد اور حماقت ہی میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں وہ اپنے کیے کرائے کا مزہ خود چکھ لینگے اور اس کا بھگتان وہ خود بھگتیں گے سو اپنے آپ کو محض خاندانی اور نسلی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی تمام سرفرازیوں کا حقدار سمجھنا خرابیوں کی خرابی، اور محرومیوں کی محرومی ہے، اسی چیز نے یہود کو اس قدر ہولناک انجام سے دوچار کیا۔ اور اس کے نتیجے میں نور حق و ہدایت سے محروم ہو کر اللہ کے غضب کے مستحق ٹھہرے اور " مغضوب علیہم " قرار پائے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، [ 112] اللہ کے فضل و کرم کی عظمت شان کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ بڑا ہی فضل والا ہے اور وہ وحدہٗ لاشریک جل جلالہ اس قدر عظیم الشان فضل و کرم والا ہے کہ اس کی بخشش اور اس کے فضل وعطاء کی کوئی حد ہے نہ کنارہ، وہ جس کو جو چاہے اور جتنا چاہے اور جیسے چاہے عطا فرمائے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ چناچہ امام احمد (رح) نے اپنی مسند میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ یہود و نصاریٰ اور اہل ایمان کی شان اور ان کے باہمی فرق و تفاضل کو واضح کرنے کے لئے ارشاد فرمایا کہ تمہاری [ اے مسلمانوں ] اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسے ہے جیسا کہ ایک شخص نے کچھ مزدوروں کو کام پر لگایا، اور ان سے کہا کہ جو میرے لئے صبح سے دوپہر تک کام کرے گا اس کو ایک ایک قیراط مزدوری دی جائے گی، تو یہود نے ایسے کیا، اور کہا کہ جو میرے لئے ظہر سے عصر تک کام کریں گے نا کو بھی ایک ایک قیراط مزدوری ملے گی تو نصاریٰ نے اس کے مطابق کام کیا، اور کہا کہ جو عصر سے مغرب تک کام کریں گے ان کو دو و دو قیراط دے جائیں گے، سو وہ تم ہو [ اے مسلمانو !] اس پر یہود و نصاریٰ نے غصے ہو کر اعتراض کیا کہ ہم نے کام بھی زیادہ کیا اور مزدوری بھی کم ملی، ایسے کیوں ؟ تو اس پر ان سے کہا گیا کہ کیا ہم نے تم سے کوئی زیادتی کی ؟ اور تمہارا کوئی حق مارا ؟ انہوں نے کہا نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی تو اس شخص نے کہا کہ پھر تمہیں کوئی اعتراض کس طرح ہوسکتا ہے یہ تو میرا فضل اور میری مہربانی ہے میں جس کو چاہوں عطا کروں، [ ابن کثیر، ابن جریر، مراغی وغیرہ ] یہ روایت امام احمد (رح) کی ہے اور امام بخاری (رح) کی روایت میں اس مضمون کو بھی اور زیادہ وضاحت سے بیان فرمایا گیا ہے، جس کو طوالت کے خدشے کی بناء پر یہاں ذکر نہیں کیا جاسکتا، انشا اللہ اس کو اپنی مفصل تفسیر میں ذکر کریں گے۔ وباللّٰہ التوفیق وھو الموفق لکل خبرٍ ، والمیسر لکل عسیر، فللّٰہ الحمد ولہۃ الشکر، قبل کل شیئٍ وبعد کل شیئ، اللّٰہم یا ارحم الراحمین ویا اکرم الاکرمین، عاملنا بلطفک واحسانک، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، ولا تکلنا الیٰ انفسنا طرفۃ عینٍ ، ولا الیٰ من خلقک بحال من الاحوال، یا ذا الجلال والاکرام، یامن بیدہ ملکوت کل شیئٍ ، وھو یجیر ولا یجار علیہ، یامن رحمتہٗ وسعت کل شیئٍ ، ولا حد لجودہٖ وکرمہٖ واحسانہٖ ،
Top