Mutaliya-e-Quran - Al-Hadid : 29
لِّئَلَّا یَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَلَّا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
لِّئَلَّا يَعْلَمَ : تاکہ نہ جان پائیں اَهْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اَلَّا يَقْدِرُوْنَ : کہ نہیں وہ قدرت رکھتے عَلٰي شَيْءٍ : اوپر کسی چیز کے مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ : اللہ کے فضل سے وَاَنَّ الْفَضْلَ : اور بیشک فضل بِيَدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاتھ میں ہے يُؤْتِيْهِ : دیتا ہے اس کو مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس کو چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ : بڑے فضل والا ہے
(تم کو یہ روش اختیار کرنی چاہیے) تاکہ اہل کتاب کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کے فضل پر اُن کا کوئی اجارہ نہیں ہے، اور یہ کہ اللہ کا فضل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور وہ بڑے فضل والا ہے
[لِئَلَّا يَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ : تاکہ نہ جانیں اہل کتاب ][ اَلَّا يَــقْدِرُوْنَ : کہ وہ قدرت نہیں رکھتے ][عَلٰي شَيْءٍ : کسی چیز پر ][ مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ : اللہ کے فضل میں سے ][ وَان الْفَضْلَ : اور یہ کہ کل کا کل فضل ][ بِيَدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاتھ میں ہے ][يُؤْتِيْهِ : وہ دیتا ہے اسے (فضل کو)][مَنْ يَّشَاۗءُ : اس کو جسے وہ چاہتا ہے ][وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ : اور اللہ عظیم فضل والا ہے ] نوٹ۔ 4 آیت ۔ 29 ۔ میں اَھْلُ الْکِتٰبِ سے مراد یہود و نصاریٰ دونوں ہی ہوسکتے ہیں لیکن قرینہ دلیل یہ ہے کہ یہاں اس سے مراد یہود ہیں۔ کیونکہ وہ ہی اس خبط میں مبتلا تھے (اور ہیں) کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام کے وارث صرف وہ ہیں۔ ان سے باہر نہ کسی کو نبوت مل سکتی ہے اور نہ ان کے سوا کوئی دوسرا اللہ کے ہاں کسی اجروثواب کا حق دار ہے۔ اسی سبب سے وہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے شدید مخالف تھے اور آپ ﷺ اور اہل ایمان سے حسد میں مبتلا تھے۔ اس پس منظر میں اہل ایمان سے اس آیت میں جو بات فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایمان لانے والے اللہ کے آخری نبی پر ایمان لا کر خود کو دہرے اجر کا حقدار بنائیں اور حاسد یہودیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ اس بات کو اس طرح کہنے کے بجائے کہ یہودیوں کو ان کی حسد میں جلنے دو ، بات اس طرح کہی گئی ہے کہ یہود کو ان کی اس جہالت میں مبتلا رہنے دو کہ وہ خود کو اللہ کے تمام انعامات کا حق دار سمجھتے رہیں۔ اس اسلوب میں بات کہنے کا فائدہ یہ ہوا کہ یہود کی اصل بیماری بھی واضح ہوگئی، بیماری کا اصل سبب بھی معلوم ہوگیا اور کلام میں کوئی تلخی بھی پیدا نہیں ہونے پائی۔ (تدبر قرآن) اس آیت میں لِئَلاَّ میں لاَ کو زائدہ مان کر لِاَنْ یَّعْلَمَ سے بھی ترجمہ کیا گیا ہے کہ تاکہ اہل کتاب جان لیں… لیکن یہاں لَا کو زائدہ ماننے کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا سوائے اس کے کہ آیت کو ایک مخصوص معنی پہنانے کے لیے لَا کو زائدہ مانا جائے۔ اس لیے میرے ذہن نے اس بات کو قبول نہیں کیا (مرتب)
Top