Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 12
وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَئِمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر نَّكَثُوْٓا : وہ توڑ دیں اَيْمَانَهُمْ : اپنی قسمیں مِّنْۢ بَعْدِ : کے بعد سے عَهْدِهِمْ : اپنا عہد وَطَعَنُوْا : اور عیب نکالیں فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَقَاتِلُوْٓا : تو جنگ کرو اَئِمَّةَ الْكُفْرِ : کفر کے سردار اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَآ : نہیں اَيْمَانَ : قسم لَهُمْ : ان کی لَعَلَّهُمْ : شاید وہ يَنْتَهُوْنَ : باز آجائیں
اور اگر توڑ دیں یہ لوگ اپنی قسموں کو اپنے عہد کے بعد، اور طعنہ زنی کریں تمہارے دین میں، تو تم لڑو کفر کے ان پیشواؤں سے، کوئی اعتبار نہیں ان کی قسموں کا، (اور ان سے لڑو) تاکہ یہ باز آجائیں (اپنے کفر و باطل سے)
25 کفر کے پیشواؤں کیخلاف جنگ کرنے کا حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ توڑ دیں اپنی قسموں کو اپنے عہد کے بعد تو لڑو تم کفر کے ان پیشواؤں سے جو کہ نور ایمان کے مقابلے میں ظلمت کفر کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور دنیا کو نور حق و ہدایت سے محروم کرنے کے درپے ہیں۔ سو تم لڑو ان سے تاکہ کمر ٹوٹے کفر و باطل کی اور راستہ صاف ہوجائے حق اور اہل حق کا۔ سو یہاں پر کفر کے پیشواؤں سے لڑنے کا حکم دیا گیا۔ کیونکہ ایسے ہی لوگ حق اور اہل حق کیخلاف جنگ کی پیشوائی کرتے ہیں۔ اور ان کا زور توڑنے سے ان کی جنگ کا بھی خاتمہ ہوجائے گا اور ائمہ کفر کا لفظ اگرچہ عام ہے اور یہ سب ہی پیشوایان کفر کو شامل ہے لیکن اس کے اولین مصداق کفار قریش ہی ہیں کیونکہ دین کے معاملے میں سارا عرب ان ہی کے تابع تھا۔ اور اس ضمن میں ان کو پیشوائی اور سرداری کا ایک خاص مرتبہ و مقام حاصل تھا۔ سو جب یہ لوگ سارے کفر اور کفار کے امام اور سرغنہ ہیں تو تم ان سے لڑو کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سب فتنوں کی قیادت یہی لوگ کرتے ہیں۔ پس ان کی پیشوائی کا خاتمہ ان فتنوں کا خاتمہ ہے۔ 26 غداروں کی قسموں کو کوئی اعتبار نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ کوئی اعتبار نہیں ان کی قسموں کا کہ ان کی نیت اپنی ان قسموں سے وعدہ وفائی اور عہد برآئی کی نہیں بلکہ دھوکہ دہی اور فریب کاری کی ہوتی ہے۔ اور جس قرأت میں " اِیمان " یعنی ھمزہ کی زیر سے پڑھا گیا ہے اس کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چونکہ ان کا سرے سے ایمان ہی نہیں اس لئے یہ کسی حفظ وامان کے بھی مستحق بھی نہیں۔ پس معلوم ہوا کہ دین کے کسی حکم میں طعنہ زنی کرنا اور اس کا مذاق اڑانا کفر ہے۔ (قرطبی وغیرہ) ۔ اور یہ ایسا کفر ہے کہ اس کے بعد ایسے لوگوں کے نہ کسی دعوائے ایمان کا کوئی اعتبار ہے اور نہ ان کی کسی قسم اور قول وقرار کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ الا یہ کہ ایسے لوگ سچے دل سے توبہ کر کے حق کی طرف رجوع کرلیں ورنہ ان کی قسموں کا نہ کوئی وزن ہے نہ اعتبار۔ اس لیے ان کا قول وقرار نہ ہونے کے برابر ہے۔ " ان کے دلوں میں کچھ ہوتا ہے اور زبانوں پر کچھ اور "۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد ہے { یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ } ان کو جونہی موقعہ ملتا ہے اپنی قسموں کو توڑ دیتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 27 اسلامی جہاد و قتال رحمت خداوندی کا ایک مظہر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے لڑو تاکہ یہ لوگ باز آجائیں اپنے کفر و باطل سے اور اس طرح یہ بچ جائیں اس ہولناک انجام سے جس کی طرف یہ اپنے کفر و انکار کی بناء پر بڑھے چلے جارہے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ اسلامی جہاد و قتال سے مقصود دراصل کفار و مشرکین اور دوسرے بندگان خدا ہی کی خیر خواہی ہے کہ اس طرح یہ لوگ یہ کفر و شرک سے باز آ کر دوزخ کے دائمی عذاب سے بچ سکیں۔ سو اسلامی جہاد و قتال بھی دراصل ایک مظہر ہے خدائے رحمن و رحیم کی اس عظیم الشان رحمت و عنایت کا جو اس کی طرف سے اس کے بندوں کے لئے ہر چار سو پھیلی ہوئی ہے ۔ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی وَتَبَارَکَ وَتَقَدَّسَ ۔ سو اسلامی جہاد و قتال سراسر رحمت و خیر ہے۔ اس کا دنیاوی مال و دولت کے حصول یا اتباع ہویٰ وغیرہ سے کچھ تعلق نہیں ہوتا اور نہ یہ کسی قومی، علاقائی یا لسانی عصبیت کی بنیاد پر ہوتا ہے بلکہ یہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا، بندگان خدا کی بہتری و خیرخواہی اور کلمہ حق کی سربلندی کے لیے ہوتا ہے " لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیٰا "۔ سو یہ جہاد اسلامی کی ایک امتیازی شان ہے کہ یہ صرف حق کی سربلندی کے لیے ہوتا ہے اور بس ۔ والحمد للہ جل وعلا -
Top