Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 147
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا لَهْوٌ : سوائے کھیل وَّلَعِبٌ ۭ : اور کود وَاِنَّ : اور بیشک الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر لَھِىَ : البتہ وہی الْحَيَوَانُ ۘ : زندگی لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور (ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے کاش یہ لوگ سمجھتے
حقارتِ دُنیا : 64: وَمَا ہٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ لَہْوٌ وَّلَعِبٌ (اور یہ دنیا کی زندگی تو کھیل تماشا ہے) ۔ یعنی دنیا اہل دنیا کے لئے اپنے سرعت زوال اور انسانوں کے دنیا میں مرجانے سے اسی طرح ہے جیسے کہ بچے تھوڑی دیر کھیلتے ہیں اور پھر منتشر ہوجاتے ہیں اس میں دنیا کی تحقیر اور ان کے معاملے کا معمولی ہونا ظاہر کیا گیا ہے اور کس طرح اللہ تعالیٰ اس کی تحقیر بیان نہ فرمائیں جبکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مچھر کے پر کے برابر وزن نہیں رکھتی۔ لہو ! جس سے انسان تھوڑی دیر تلذد حاصل کرے اور وہ چیز اس کو کچھ دیر غافل کر دے پھر وہ ختم ہوجائے۔ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ (اور بیشک آخرت والا گھر البتہ وہی حقیقی زندگی ہے) ۔ یعنی ایسی زندگی جس میں موت نہیں بلکہ دوام ہے۔ گویا کہ وہ ذاتی اعتبار سے زندگی ہے۔ الحیوان۔ یہ حَیَّ کا مصدر ہے۔ قیاس کا تقاضا یہ تھا حییان۔ پھر یائے ثانیہ کو وائو سے بدل دیا۔ اور اس طرح نہیں کہا۔ لہی الحیاۃ۔ نکتہ : کیونکہ فَعَلان کے وزن میں حرکت و اضطراب کا معنی پایا جاتا ہے اور حیات حرکت اور موت سکون کا نام ہے پس اس کو ایسے وزن پر لایا گیا جو حرکت کے معنی پر دلالت کرتا تھا تاکہ حیات کے معنی میں مبالغہ ظاہر کیا جاسکے۔ الحیوان پر وقف کریں گے۔ کیونکہ تقدیر کلام اس طرح ہے۔ لوکانوا یعلمون حقیقۃ الدارین لما اختاروا اللھو الفانی اختار والفانی علی الحیوان الباقی۔ اگر یہ لوگ جانتے ہوتے کہ دونوں جہاں کی حقیقت کیا ہے تو یہ فانی جہاں کو باقی رہنے والی زندگی پر ترجیح کبھی نہ دیتے۔ اگر وصل کریں تو اس صورت میں یہ الحیوان کا وصف بن جائے گا۔ جو ان کے علم کی شرط سے معلق ہوگا حالانکہ اس طرح نہیں۔ فافہم و تدبر۔
Top