Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ankaboot : 64
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا لَهْوٌ : سوائے کھیل وَّلَعِبٌ ۭ : اور کود وَاِنَّ : اور بیشک الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر لَھِىَ : البتہ وہی الْحَيَوَانُ ۘ : زندگی لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا ۔ اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے ، کاش یہ لوگ جانتے
وما ھذہ الحیوۃ ۔۔۔۔۔ لو کانوا یعلمون (29: 64) ” ۔ یہ زندگی عمومی لحاظ سے تو ایک کھیل تماشا ہی ہے۔ خصوصاً اس وقت جب یہ اس طرح گزر رہی ہے کہ آخرت کی کوئی فکر نہ ہو اور یہی دنیا لوگوں کا مقصد اعلیٰ ہو اور اس دنیا کا سازوسامان ہی غایت زندگی ہو۔ رہی آخرت کی زندگی تو وہ حقیقی زندگی ہے اور اس میں نہایت ہی اعلیٰ معیار ہوگا۔ وہی حقیقی زندگی ہے۔ وہ بھرپور ہے اور اس میں حقیقی حیات اور نشاط ہے۔ یہ کہہ کر قرآن یہ تعلیم بھی نہیں دیتا کہ دنیا کو ترک کردیا جائے یا اس کے متاع کو دور پھینک دیا جائے یا زندگی کی سرگرمیوں سے فرار اختیار کرکے رہبانیت اختیار کی جائے۔ یہ نہ اسلام کی روح ہے اور نہ اسلام زندگی کا یہ رخ اختیار کرتا ہے بلکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اصل ہدف آخرت ہو اور حدود اللہ کا لحاظ رکھا جائے۔ اس زندگی پر سربلندی حاصل کر کے اسے اپنے قبضہ قدرت میں رکھا جائے اور انسان اس دنیا کے متاع کا اسیر نہ بن جائے۔ انسان زندگی کے فرائض پورے کرے اور اس سے فرار اخٹیار نہ کرے۔ غرض اصل مسئلہ صحیح سوچ اور صحیح قدر کا ہے۔ انسان کو اس دنیا کی بھی صحیح قدروقیمت معلوم ہونا چاہئے اور آخرت کی بھی صحیح قدروقیمت معلوم ہونی چاہئے۔ مومنین کو ان اقدار کا صحیح شعور ہونا ضروری ہے۔ اس طرح جب ایک باشعور مومن دنیا سے معاملہ کرے گا تو اس کا نقطہ نظر معتدل ہوگا کہ دنیا تو کھیل تماشا ہے مختصر وقت کے لیے ہے اور آخرت اس طرح سنجیدگی کے لائق ہے جس طرح کھیل تماشے اور میلے ٹھلے کے بعد انسان سنجیدگی سے اس دنیا کے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ فکر و نظر کی اس درستگی کے بعد اب بتایا جاتا ہے کہ کفار کے فکر و نظر میں کیا کیا تضادات ہیں۔
Top