Madarik-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 133
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَسَارِعُوْٓا : اور دوڑو اِلٰى : طرف مَغْفِرَةٍ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب وَجَنَّةٍ : اور جنت عَرْضُھَا : اس کا عرض السَّمٰوٰتُ :ٓآسمان (جمع وَالْاَرْضُ : اور زمین اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور اپنے پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمان اور زمین کے برابر ہے اور جو (خدا سے) ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے
مسارعت مغفرت و جنت : 133۔ 134: وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآ ئِ وَالضَّرَّآ ئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ (اور تم تیزی سے بڑھو اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف) مدنی اور شامی نے وائو کے بغیر سَارِعُوْٓا پڑھا ہے اور جملہ مستانفہ قرار دیا۔ دیگر قراء نے وائو کو قائم رکھ کر ماقبل پر عطف کیا ہے۔ المسارعۃ الی المغفرۃ والجنۃ کا مطلب ایسے اعمال کی طرف متوجہ ہونا جو ان دونوں تک لے جانے والے ہوں۔ پھر ان اعمال میں کئی اقوال ہیں۔ نمبر 1۔ پانچوں نمازیں نمبر 2۔ تکبیر اولیٰ ۔ نمبر 3۔ اطاعت۔ نمبر 4۔ اخلاص۔ نمبر 5۔ توبہ نمبر 6۔ جمعہ۔ نمبر 7۔ جماعات۔ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ (اس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے) جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ ( الحدید۔ 21) اصل مقصود اس کی وسعت و پھیلائو کو بیان کرنا ہے۔ اس لئے لوگوں کے علم میں جو سب سے بڑی وسیع چیز ہے۔ اسکے ساتھ تشبیہ دی۔ اور عرض کو خصوصاً ذکر کیا کیونکہ وہ طول سے عادۃً چھوٹا ہوتا ہے تاکہ مبالغہ ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے۔ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیئے جائیں تو جنت کا عرض بنے گا۔ روایاتِ جنت کی عمدہ تطبیق : اور یہ جو روایات میں وارد ہے کہ جنت ساتویں آسمان میں ہے۔ یا چوتھے آسمان میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جنت اس جہت میں واقع ہے یہ مطلب نہیں کہ وہ چوتھے یا ساتویں آسمان میں ہے۔ جیسا کہ کہا جائے، فی الدار بستانٌ جبکہ وہ اس سے بڑا ہو کیونکہ اس کا مقصد باغ کے دروازہ کا مکان کی طرف ہونا مراد ہے۔ اُعِدَّتْ (تیار کی گئی) یہ جنت کی صفت ہونے کی بناء پر موضع جر میں واقع ہے۔ یعنی وسیع تیار شدہ جنت، لِلْمُتَّقِیْنَ (وہ متقین کیلئے) ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ جنت و دوزخ دونوں مخلوق ہیں۔ المتقی سے مراد۔ نمبر : 1 شرک سے بچنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ ٰامَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ۔ (الحدید : 21) اور جنت جس کا عرض آسمان و زمین کے عرض کی طرح ہے وہ ان لوگوں کیلئے بنائی گئی جو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسولوں پر ایمان لائے۔ نمبر 2۔ دوسرا قول گناہوں سے بچنے والا متقی ہے۔ پس اگر دوسرا قول مراد ہو تو پھر بغیر عقوبت جنت میں جانا مراد ہوگا۔ اور اگر اول مراد لی جائے تو وہ بھی انجام کار ہوگی۔۔ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآ ئِ وَالضَّرَّآئِ (جو خرچ کرتے ہیں فراغت میں اور تنگی میں) ۔ قراءت و نحو : اگر وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً پر عطف ڈال کر الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآ ئِ وَالضَّرَّآئِ کو مبتداء قرار دیا جائے اور اولٰٓئککو خبر بنایا جائے۔ تو یہاں وقف ہوگا۔ اور سرّاء، ضراء میں خرچ سے مراد تنگدستی و خوشحالی میں خرچ کرنا ہوگا۔۔ نمبر 2۔ اگر۔ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ کو متقین کی صفت قرار دیا جائے اور وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا کا عطف اس پر ڈالا جائے۔ پھر وقف نہ ہوگا اور مطلب آیت کا یہ بنے گا وہ جنت متقین اور تائبین کے لئے تیار کی گئی ہے۔ ایک سوال کا جواب : سوال : آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت تو متقین اور تائبین کیلئے بنائی گئی ہے اصرار کرنے والوں کیلئے نہیں۔ جواب : یہ درست ہے کہ ان دونوں قسم کے لوگوں کیلئے تیار کی گئی ہو پھر محض فضل و عفو الٰہی سے دوسرے بھی داخل ہوجائیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے اُعِدّتْ ھذہ المائدۃ للامیر کہ یہ دستر خوان امیر کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ پھر بعض اوقات اسکے پیروکار بھی اس کو کھالیتے ہیں۔ کیا اس ارشاد خداوندی کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ واتقوا النار التی اعدت للکافرین۔ (آل عمران۔ 131) کہ تم اس آگ سے بچو جو کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔ پھر بالاتفاق ثابت ہے کہ کافروں کے علاوہ عصاۃ مومن بھی اس میں داخل ہونگے۔ نکتہ : یہاں اللہ تعالیٰ نے انفاق کا تذکرہ پہلے فرمایا۔ کیونکہ نفس پر یہ انتہائی گراں چیز ہے۔ اور اسکے اخلاص کی نشاندہی کرنے والا ہے۔ اور اس زمانہ میں دشمن سے جہاد کے سلسلہ میں عظیم ترین اعمال میں سے تھا۔ اور مسلمان فقراء کی ہمدردی کے پیش نظر بھی اس کی شدید حاجت تھی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے ہر قسم کے حالات میں انفاق مراد ہے۔ کیونکہ ایسا انفاق تنگدستی و خوشحالی ہر دو مواقع کو شامل ہوگا۔ غصہ پینے والے کا مرتبہ : وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ (اور غصے کو پی جانے والے) یعنی پورا کرنے کی بجائے غصے کو روکنے والے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کظم القربۃ۔ جبکہ وہ مشک کو بھر لے اور اسکے منہ کو مضبوطی سے باندھ دے۔ اور اسی سے کظم الغیظ بنا ہے۔ غصے کو صبر کی وجہ سے تھام لے اور اس کا اثربالکل ظاہر نہ ہو۔ الغیظ دل کی حرارت کا غصہ سے بڑھکنا۔ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔ جس نے اپنے غصے کو روک لیا ایسی حالت میں کہ وہ اس کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اسکے دل کو امن و ایمان سے بھر دیتے ہیں۔ ( رواہ ابو دائو والترمذی وابن ماجہ) معافی کی فضیلت : وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (اور وہ لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں) یعنی جب ان کے ساتھ کوئی زیادتی کرتا ہے تو وہ اس سے مؤاخذہ نہیں کرتے۔ روایت میں آیا ہے جس کو بیہقی نے نقل کیا کہ قیامت کے دن ایک منادی آواز دے گا۔ وہ لوگ کہاں ہیں جن کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ پس معاف کرنے والوں کے سواء اور کوئی نہ اٹھے گا۔ ( بیہقی فی الشعب) ابن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے رشید کیلئے روایت بیان کرنی شروع کی۔ اس کو دیکھا کہ وہ ایک آدمی پر غضبناک ہے۔ پس اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (اور اللہ تعالیٰ کو احسان کرنے والے پسند ہیں) نحو : الْمُحْسِنِیْنَ میں الف لام جنسی ہے۔ ان مذکورہ بالا اور تمام محسنین کو شامل ہے۔ یا الف لام عہد کا ہے۔ اس سے انہی مذکورہ بالا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت سفیان ثوری (رح) نے فرمایا۔ برائی کرنے والے سے بھلائی کرنا احسان ہے۔ اور بھلائی کا بدلہ بھلائی سے دینا تو تجارت ہے۔
Top