Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 133
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَسَارِعُوْٓا : اور دوڑو اِلٰى : طرف مَغْفِرَةٍ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب وَجَنَّةٍ : اور جنت عَرْضُھَا : اس کا عرض السَّمٰوٰتُ :ٓآسمان (جمع وَالْاَرْضُ : اور زمین اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور دوڑو تم لوگ (ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر) اپنے رب (مہربان و غفور) کی بخشش اور ایسی جنت کی طرف، جس کا عرض (اور پھیلاؤ) آسمانوں اور زمین کے (عرض و پھیلاؤ) کے برابر ہے، جسے تیار کیا گیا ہے ان متقی (اور پرہیزگار) لوگوں کیلئے
268 اہل ایمان کے لیے مسابقۃ اور مسارعۃ کے اصل میدان کی نشاندہی : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اہل ایمان کے لیے مسابقہ کا اصل میدان دنیاوی زندگی اور اس کا متاع فانی اور حطام زائل نہیں۔ بلکہ آخرت کی زندگی اور وہاں کی نعیم مقیم ہے کہ اس سے سرفرازی ہی اصل سرفرازی اور وہاں کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے نہ کہ حیات دنیا کے ان خزف ریزوں کو سمیٹنا جن کی آخرت کے مقابلے میں کوئی حقیقت اور حیثیت ہی نہیں۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ تم اپنے رب کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر دوڑو : کیونکہ { سَارِعُوْا } " مُسَارَعَۃٌ " سے امر کا صیغہ ہے، جو کہ مصدر ہے باب مفاعلہ کا۔ اور اس کا مفہوم یہی ہے کہ مقابلہ اور دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ پس آخرت کی کامیابی کی دھن مومن پر اس طرح سوار رہنی چاہیئے کہ وہ ہر وقت اس کے لئے سرگرم و کوشاں رہے۔ اور کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے ۔ فَاِیَّاکَ نَسْأَلُ اللّٰہُمَّ التَّوْفِیْقَ وَالسِّدَادَ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی وَمَا یُقَرِّبُنَا اِلٰی مَرْضَاتِکَ وَنِعِیْم الْجَنَان یَاَ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔ سو مومن کے لئے مسابقہ اور مقابلہ کا میدان اصل میں یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی رضا و خوشنودی اور اس کی مغفرت و بخشش کی طرف آگے بڑھنے کی کوشش کرے نہ کہ دنیاوی مال و دولت کے جمع کرنے اور جوڑنے میں کہ یہ طریقہ یہودی ساہوکاروں اور مہاجنوں کا ہے جن کے نزدیک متاع فانی اور حطام زائل ہی سب کچھ ہے جب کہ مسلمان کے نزدیک اصل چیز آخرت وہاں کی کامیابی ہے جو کہ مقابلہ اور مسابقہ کا اصل میدان ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ { وفِیْ ذالِکَ فَلْیِتَنَافِس المُتَنَافِسُوْنَ } سو اس حقیقت کو فراموش کردینا بڑے خسارے کا سودا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے زیغ و زلل سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔ 269 جنت کی وسعت کا تصور : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس کا عرض یعنی چوڑائی اور پھیلاؤ آسمانوں اور زمین کے عرض اور پھیلاؤ کے بر ابر ہے۔ اور جس کا عرض اور پھیلاؤ اس قدر ہوگا اس کا طول کس قدر ہوگا اور وہ کس قدر عظیم الشان چیز ہوگی ؟ اور یہ بھی محض سمجھانے کیلئے اور تقریب الی الافہام کے طور پر فرمایا گیا ہے کہ انسان کے سامنے آسمان و زمین کے طول و عرض کے سوا کسی اور وسعت کا تصور ہی نہیں ہوسکتا۔ ورنہ جنت اور آخرت کا معاملہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے اور اس کی حقیقی وسعت و عظمت تو خداوند قدوس ہی جانے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو سود کے ذریعے اگر تم لوگ بہت تیر مارو گے تو سود کے ساتھ دس بیس فیصد کما لو گے یا دو گنا ہی کما لو گے اور بس۔ اور وہ سب بھی یہیں رہ جائے گا اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں نہ صرف یہ کہ یہ تمہارا کچھ کام نہیں آئے گا بلکہ وہاں پر تمہارا یہ سارا اندوختہ تمہارے جلانے کے لئے دوزخ کا ایندھن بنے گا ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم وَالْعِیَاذ باللّٰہ ۔ اور اس کے برعکس اگر تم اپنا مال اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے خرچ کرو گے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ تو اس کے صلے میں تم لوگ خدا کی رحمت و بخشش اور اس کی اس عظیم الشان جنت کے وارث بنو گے ۔ وَباللّٰہ التَّوْفِیْق -
Top