Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 133
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَسَارِعُوْٓا : اور دوڑو اِلٰى : طرف مَغْفِرَةٍ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب وَجَنَّةٍ : اور جنت عَرْضُھَا : اس کا عرض السَّمٰوٰتُ :ٓآسمان (جمع وَالْاَرْضُ : اور زمین اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور جلدی آگے بڑھو مغفرت کی طرف جو تمہارے رب کی طرف سے ہے اور جنت کی طرف جس کا عرج ایسا ہے جیسے تمام آسمان اور زمین، وہ تیار کی گئی ہے متقیوں کے لئے۔
(1) عبد بن حمید وابن جریر ابن المنذر نے عطا بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں نے کہا یا رسول اللہ ! بنو اسرائیل اللہ کے نزدیک ہم سے زیادہ عزت والے تھے جب ان میں سے کوئی گناہ کرتا تھا تو صبح کے وقت اس کے گناہ کا کفارہ لکھا ہوتا تھا اس کے دروازے کی چوکھٹ پر اپنا ناک کاٹ دے یا اپنا کان کاٹ دو یا ایسا ایسا کرو (یہ سن کر) آپ خاموش ہوگئے تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم “ سے لے کر ” والذین اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسہم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبہم “ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو اس سے بہتر کام کے بارے میں نہ بتاؤں یہ تلاوت فرمائیں۔ (2) ابن المنذر نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم “ سے مراد تکبیر اولی ہے (یعنی تکبیر اولی کی طرف جلدی کرو) ۔ (3) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وسارعوا “ سے مراد ہے نیک اعمال میں جلدی کرو اور ” الی مغفرہ من ربکم “ یعنی اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرو اور لفظ آیت ” وجنۃ عرضھا السموت والارض “ یعنی اس کی جنت کا عرض سات آسمان اور سات زمینوں کے برابر ہے ان سب کو آپس میں ملایا جائے تو ان کی لمبائی جنت کی چوڑائی جتنی ہوگی۔ (4) ابن جریر نے سدی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمین آپس میں اس طرح ملائی جائیں گی جیسے بعض کپڑا بعض کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو یہ جنت کا عرض ہوگا (یعنی جنت کی چوڑائی کے برابر ہوگا) ۔ جنت کی چوڑائی کا ذکر (5) سعید بن منصور وابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے کریب (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھے ابن عباس ؓ نے اہل کتاب کے ایک آدمی کے پاس بھیجا کہ میں اس سے اس آیت ” وجنۃ عرضھا السموت والارض “ کے بارے میں سوال کروں اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے اسفار کو نکالا اور ان کو دیکھنا شروع کیا (پھر) کہا کہ سات آسمانوں اور سات زمینوں کو یوں آپس میں ملایا جائے گا جیسے بعض کپڑے کو بعض سے ملایا جایا جاتا ہے یہ جنت کا عرض ہوگا لیکن اس کا طول سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ (6) ابن جریر نے تنوخی سے روایت کیا ہے کہ جو ہرقل کا قاصد تھا اس نے کہا میں رسول اللہ ﷺ کے پاس ہرقل کا خط لے کر آیا اور اس میں یہ (لکھا ہوا) تھا آپ مجھے اس جنت کی طرف بلاتے ہیں جس کا عرض آسمان اور زمین کے برابر ہے جو مقتین کے لیے تیار کی گئی ہے (یعنی) لفظ آیت ” وجنۃ عرضھا السموت والارض اعدت للمتقین “ تو پھر جہنم کہاں ہوگی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سبحان اللہ ! رات کہاں ہوتی ہے جب دن آجاتا ہے ؟ (7) البزار اور حاکم نے اس کو صحیح کہا اور ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا مجھے آپ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” وجنۃ عرضھا السموت والارض “ کے بارے میں بتائیے پھر جہنم کہاں ہوگی ؟ آپ نے فرمایا تو بتا جب رات ہر چیز کو ڈھانک لیتی ہے تو دن کہاں ہوتا ہے ؟ اس نے کہا جہاں اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں آپ نے فرمایا اسی طرح جہاں اللہ تعالیٰ چاہیں گے (جہنم وہی ہوگی) ۔ (8) عبد بن حمید ابن جریر اور ابن المنذر نے طارق بن شہاب (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہود میں سے کچھ لوگوں نے حضرت عمر ؓ سے اس جنت کے بارے میں سوال کیا کہ جس کا عرض آسمان اور زمینیں ہیں تو پھر جہنم کہاں ہوگی ؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا جب رات آدمی آتی ہے تو دن کہاں ہوتا ہے ؟ اور جب دن آجاتا ہے تو رات کہاں ہوتی ہے تو انہوں نے کہا اسی کی مثل تورات میں ہے۔ (9) عبد بن حمید اور ابن جریر نے یزید بن الاصم (رح) سے روایت کیا ہے کہ اہل ادیان میں سے ایک آدمی نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا تم کہتے ہو لفظ آیت ” وجنۃ عرضھا السموت والارض “ پھر آگ کہا ہے ؟ تو ابن عباس ؓ نے فرمایا جب رات آجاتی ہے تو دن کہاں ہوتا ہے ؟ اور جب دن آجاتا ہے تو رات کہاں ہوتی ہے ؟ (تو وہ لاجواب ہوگیا) ۔ (10) مسلم وابن المنذر حاکم نے اس کو صحیح کہا انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن فرمایا۔ کھڑے ہوجاؤ اس جنت کی طرف کہ اس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (کے برابر) ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اس نے کہا واہ کیا بات ہے اللہ کی قسم یا رسول اللہ ضروری ہے کہ میں اس (جنت) کے رہنے والوں میں سے ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا بیشک تو اس کے رہنے والوں میں سے ہے۔ (اس کے بعد) اس نے اپنے تھیلے میں سے کچھ کھجوروں کو نکالا اور اس میں سے کھانا شروع کردیا۔ پھر کہا اگر میں زندہ رہا یہاں تک کہ میں اپنی کھجوروں کو کھالوں تو یہ لمبی زندگی ہوگی۔ (یہ کہہ کر) اس نے کھجوروں کو پھینک دیا جو کچھ اس کے پاس تھیں پھر اس نے (کافروں سے) لڑنا شروع کردیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔
Top