Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 133
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَسَارِعُوْٓا : اور دوڑو اِلٰى : طرف مَغْفِرَةٍ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب وَجَنَّةٍ : اور جنت عَرْضُھَا : اس کا عرض السَّمٰوٰتُ :ٓآسمان (جمع وَالْاَرْضُ : اور زمین اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور مغفرت کی طرف جو تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے، ڈرو اور جنت کی طرف (دوڑو) جس کا عرض سارے آسمان اور زمین ہیں،266 ۔ اور جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے،267 ۔
266 ۔ (اپنے اعمال کے ذریعہ سے) (آیت) ” الی مغفرۃ من ربکم “۔ ہر مومن کا منتہائے عمل اور منزل مقصود یہی مغفرت پروردگار ہونا چاہیے۔ 267 ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام محض ایک سلبی حقیقت کا نام نہیں، محض گناہوں سے بچنا کافی نہیں، بلکہ مسلمانوں کو حکم اس کا بھی ملا ہے کہ اسلام کے ایجابی پہلو کا بھی پورا حق ادا کریں، نیکیوں کی جانب لپکیں اور اس طرح جنت کو حاصل کرکے رہیں جو رضاء الہی کا محل اور ظہور رحمت کامل کا مقام ہے۔ (آیت) ” عرضھا السموت والارض “۔ یعنی وہ بےانتہا وسیع ہے، اس میں سب کی گنجائش ہے۔ وہاں چپقلش اور عدم گنجائش کا احتمال ہی نہیں، جنت کی بجنسہ پیمائش بیان کرنا مقصود نہیں، بلکہ صرف اس کی بےانتہاوسعت اور گنجائش کا اظہار مقصود ہے، عربی محاورہ میں انتہاء وسعت کے اظہار کا یہی پیرایہ ادا ہے۔ کنایۃ عن غایۃ السعۃ بما ھو فی تصور السامعین (روح) المقصود فی وصف سعۃ الجنۃ وذلک لانہ لاشئی عندنا اعرض منھما (کبیر) قال القفال لیس المراد ھھنا ماھو خلاف الطول بل ھو عبارۃ عن السعۃ (کبیر)
Top