Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 133
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَسَارِعُوْٓا : اور دوڑو اِلٰى : طرف مَغْفِرَةٍ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب وَجَنَّةٍ : اور جنت عَرْضُھَا : اس کا عرض السَّمٰوٰتُ :ٓآسمان (جمع وَالْاَرْضُ : اور زمین اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اپنے رب کی بخشائش کی طرف تیزگام ہوجاؤ اور اس جنت کی طرف بھی جس کے پھیلاؤ کا یہ حال ہے کہ تمام آسمان و زمین کی چوڑائی ایک طرف اور اس کا پھیلاؤ ایک طرف جو پرہیزگار انسانوں کے لیے تیار کی گئی ہے
بھلائیوں کی طرف دوڑو کہ بھلائی ہی جنت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے : 246: جنت کیا ہے ؟ انعام الٰہی۔ ظاہر ہے کہ انعام کسی کام کے صلہ میں ہی دیا جاتا ہے۔ جس کام کے صلہ کا یہ انعام ہے وہ کام کیا ہوگا ؟ وہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری جس کا پچھلی آیت میں ذکر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا ” الی الاسلام “ اور حضرت عکرمہ نے فرمایا ” الی التوبۃ “ اور حضرت علی ؓ نے فرمایا : ” ادائے فرض “ اور مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔ کیونکہ سب کی مراد تو یہی ہے کہ ” اعمال صالحہ “ جن سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے اور رحمت کے سائے میں پہنچنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ پھر سب کا ماحصل کیا ہوا ؟ وہی رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سات امور سے پہلے اچھے اعمال کرلو۔ وہ سات امور ہیں۔ 1۔ ایسا اخ (رح) اص ہے جو ہرچیز کو فراموش کردینے والا ہے۔ 2۔ ایسی مالداری جو سرکش بنا دینے والی ہو۔ 3۔ ایسی بیماری جو نظام صحت کو بگاڑ دینے والی ہو۔ 4۔ ایسا بڑھاپا جو چب کچھ جاننے کے بعد کچھ نہ جاننے والا کر دے۔ 5۔ اچانک آجانے والی موت جو چلتے پھرتے انسان کو دبوچ لے۔ 6۔ قیامت کہ وہ عظیم ترین مصیبت ہے اور نہایت ہی تلخ چیز یا فرمایا کہ دجال ہے جو بدترین انتظار کی چیز ہے۔ ” جنت کا پھیلاؤ آسمانوں اور زمین کے پھیلاؤ کے برابر ہے۔ “ گویا یہ کلام تمثیل ہے حقیقت مراد نہیں۔ چونکہ انسانی ذہن میں زمین و آسمان کی وسعت بہت زیادہ ہے اس لیے جنت کا پھیلاؤ ان کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جس طرح دوسری جگہ اس طرح تشبیہ دی کہ ” خَالِدِیْنَ فِیْھَا مَادَامَتِ السَّمٰوٰاتُ وَالْاَرْضُ “ یہ جنت میں گویا رہنے کی تشبیہ ہے جو دوام سکونت پر دال ہے۔ اور یہ بھی عام انسانوں کی نظر مں آسمان و زمین سے زیادہ کسی چیز کی مدت کا بقاء نہیں ہے۔ اسی طرح انسانوں کے خیالات کے مطابق اس جگہ بھی تشبیہ دی گئی ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے کسی نے پوچھا کہ جنت آسمانوں میں ہے یا زمین میں فرمایا کس زمین و آسمان میں جنت کی سمائی ہو سکتی ہے ؟ مطلب یہ کہ اس کا عرض آسمانوں و زمین سے بہت زیادہ ہے اور پھر جو وسعت بھی بیان ہوگی خیالی ہوگی۔ جنت کیوں ہے ؟ فرمایا وہ کامل متقی لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے اور کامل متقی وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی چیز سے وابستگی نہیں رکھتے اور جو کچھ کرتے ہیں اس میں اصل مطلوب ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا ہوتی ہے۔ جن متقین کے لیے جنت تیار کی گئی ہے اب ان کی نشاندہی فرمائی جا رہی ہے تاکہ متقی بننے کے لیے انہی نشانات راہ پر چلنا آسان ہوجائے۔
Top