Tafseer-e-Majidi - Hud : 72
قَالَتْ یٰوَیْلَتٰۤى ءَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ هٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا١ؕ اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ
قَالَتْ : وہ بولی يٰوَيْلَتٰٓى : اے خرابی (اے ہے) ءَاَلِدُ : کیا میرے بچہ ہوگا وَاَنَا : حالانکہ میں عَجُوْزٌ : بڑھیا وَّھٰذَا : اور یہ بَعْلِيْ : میرا خاوند شَيْخًا : بوڑھا اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَشَيْءٌ : ایک چیز (بات) عَجِيْبٌ : عجیب
بولیں ہائے خاک پڑے کیا (اب) میں بچہ جنوں درآنحالیکہ میں بوڑھی ہوچکی اور یہ میرے میاں (بھی بالکل) بوڑھے یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے،107۔
107۔ (بہ اعتبار اسباب ظاہر کے) حضرت سارہ ؓ کا یہ خوشخبری سن کر اسباب ظاہری ومادی کے لحاظ سے اس پر تعجب کرنا بالکل قدرتی تھا۔ وھو استعجاب من حیث العادۃ دون القدرۃ (بیضاوی) اور یہیں سے ہمارے محققین نے کہا ہے کہ کسی واقعہ پر اسباب ظاہر کے لحاظ سے تعجب کرنا مسبب الاسباب پر یقین کامل رکھنے کے منافی نہیں، توریت میں اس موقع پر ہے :۔ ابراہام اور سرہ بوڑھے اور بہت دن کے تھے اور سرہ سے عورتوں کی معمولی، عادت موقوف ہوگئی تھی تب سرہ نے اپنے دل میں ہنس کر کہا کہ بعد اس کے کہ میں ضعیف ہوگئی اور میرا خاوند بھی بوڑھا ہوا کیا مجھ کو خوشی ہوگی ؟ “ (پیدائش 18: 11۔ 12) (آیت) ” یویلتی “۔ عربی میں یہ اظہارحیرت وتعجب کے موقع پر بولتے ہیں۔ تقولھا العرب عند التعجب من الشیء (ابن جریر) اردو میں یہ ترجمہ یہاں کی زنانہ بول چال کے مطابق مفسر تھانوی (رح) کا کیا ہوا۔
Top