Urwatul-Wusqaa - Hud : 72
قَالَتْ یٰوَیْلَتٰۤى ءَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ هٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا١ؕ اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ
قَالَتْ : وہ بولی يٰوَيْلَتٰٓى : اے خرابی (اے ہے) ءَاَلِدُ : کیا میرے بچہ ہوگا وَاَنَا : حالانکہ میں عَجُوْزٌ : بڑھیا وَّھٰذَا : اور یہ بَعْلِيْ : میرا خاوند شَيْخًا : بوڑھا اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَشَيْءٌ : ایک چیز (بات) عَجِيْبٌ : عجیب
وہ بولی تعجب مجھ پر ! کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میرے اولاد ہو حالانکہ میں بڑھیا ہوگئی ہوں اور میرا شوہر بھی بوڑھا ہے ، یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے
سارہ ؓ نے بیٹے کی خبر سن کر تعجب کیا کہ ہاں ! میرے ہاں بیٹا ؟ 95 ؎ سارہ ؓ تعجب سے بولیں کہ کیا میرے ہاں اولاد ہوگی جب کہ میں بوڑھ بانجھ ہوچکی ہوں اور میرا خاوند بھی بوڑھا ہوچکا ہے ؟ یہ بات واقعی بڑی تعجب انگیز ہے اور یہ تعجب ازراہ مدت نکاح تھا نہ کہ قدرت الٰہی پر کیونکہ نکاح کے بعد سال دو سال نہیں بلکہ بیسیوں سال گزر چکے تھے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ اب اولاد کے قابل نہ رہی تھیں بلکہ اصلیت یہی ہے کہ شادی کو اتنا لمبا عرصہ گزر چکا تھا کہ عام حالات میں اتنی مدت گزرنے تک انسان ایک طرح سے مایوس ہوجاتا ہے کہ اب اولاد جب کہ اولاد کی عمر سمجھی جاتی تھی اس وقت تو اولاد نہیں ہوئی اور عرصہ دراز گزرنے کے بعد کیسے ؟ اور ” ویلتی “ ویلتی تھا قاعدہ کے مطابق ی کو الف سے بدل دیا ” ویل “ کے اصلی معنی تو ہلاکت اور افسوس کے ہیں لیکن اس جگہ بطور بددعا نہیں بلکہ بطور تعجب و حیرت ہے اور عورتوں کی عادت میں بھی اس طرح کے جملے داخل ہیں مثلاً ہمارے ہاں کی اکثر عورتیں بات بات پر کہہ دیں گی ” ہا ہائے نی میں مر جائوں “ اور پھر ایسے کلمات عین خوشی کے موقع پر بھی بولے جاتے ہیں جب کہ عام حالت میں زیادہ خوشی کی بات نظر آئے۔ بہرحال یہ تو حالت خود بتا رہی ہے کہ یہاں کوئی افسوس اور ہلاکت کی بات نہیں بلکہ نہایت ہی خوشی کی بات ہے۔
Top