Tafseer-e-Majidi - Ar-Ra'd : 15
وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ ظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ۩  ۞
وَلِلّٰهِ : اور اللہ ہی کو يَسْجُدُ : سجدہ کرتا ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْهًا : یا ناخوشی سے وَّظِلٰلُهُمْ : اور ان کے سائے بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام
اور اللہ ہی کے آگے جھکے رہتے ہیں (سب) جتنے آسمانوں میں ہیں اور (جتنے) زمین میں ہیں28۔ (کوئی) ارادۃ (تو) اور (کوئی) جبرا (تو)29۔ اور ان کے سائے بھی صبح وشام کے وقت،30۔
28۔ یعنی ساری کی ساری مخلوقات اللہ ہی کی قانون تکوینی کی مطیع ومنقاد ہے۔ (آیت) ” وللہ یسجد “۔ اس ترکیب کے اقتضاء سے معنی یہ پیدا ہوئے کہ اللہ ہی کی مطیع ومنقاد ہے نہ کسی اور کی اے للہ وحدہ یخضع وینقاد ولا بشیء غیرہ (روح) (آیت) ” من فی السموت والارض “۔ مراد جمیع مخلوق سے ہے۔ المراد ما یشمل اولئک وغیرھم والتعبیر بمن للتغلیب (روح) (آیت) ” یسجد “۔ سجدہ یہاں باصطلاح شرعی نہیں بلکہ اپنے اصلی ولغوی معنی میں ہے یعنی سب کے سب اللہ کے آگے جھکے ہوئے اور اس کی مشیت کے مطیع ومنقاد ہیں۔ السجود اصلہ التطامن والتذلل۔۔۔ وذلک ضربان سجود باختیار ولیس ذلک الا للانسان و سجود تسخیر وھو للانسان والحیوانات والنبات وعلی ذلک قولہ وللہ یسجد من فی السموت والارض (راغب) السجود وعبارۃ عن الانقیاد والخضوع وعدم الامتناع وکل من فی السموت والارض ساجد للہ بھذہ المعنی لان قدرتہ ومشیئتہ نافذۃ فی الکل (کبیر) اے ینقاد انہ لاحداث ما ارادۂ فیھم من افعالہ (کشاف) 29۔ یعنی افعال اختیاری میں توقصد واختیار سے اور امور غیر اختیاری میں اضطرارا۔ 30۔ یعنی علی الدوام ہر حال میں، ہر وقت، ب یہاں فی کے مرادف ہے۔ والمراد بھا الدوام (بیضاوی) الباء بمعنی فی (روح) (آیت) ” وظلھم “۔ سایہ ایک عدمی اور سلبی شے ہے جس کا اطلاق اس حال پر ہوتا ہے جب روشنی کسی جسم کثیف کے توسط سے دور ہوجائے، جیسے رات کا اطلاق دن کے عدم پر ہوتا ہے، یہاں پر اگر یہ لفظی معنی لیے جائیں جب بھی کوئی اشکال نہیں، مراد یہ ہوگی کہ اشیاء موجود فی الخارج اور ان کے اظلال سب ہی قادر مطلق کے مطیع ومنقاد ہیں، وحشی قوموں میں ” سایہ “ کو عالم بالا کی کوئی چیز سمجھ کر اس سے ڈرا گیا ہے قرآن مجید نے بتایا کہ ہر موجود شے کی طرح اس کا سایہ بھی محض مخلوق اور منقاد مشیت الہی ہے، لیکن محققین ہی سے ایک قول اور بھی منقول ہے، ہو یہ کہ اظلال سے مراد آثار وتوابع ہیں، اس صورت میں مطلب یہ ہوا کہ ہر موجود بذات خود بھی مطیع وسربسجود ہے اور اس کے آ ثار و خواص وافعال بھی
Top