Urwatul-Wusqaa - Ar-Ra'd : 15
وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ ظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ۩  ۞
وَلِلّٰهِ : اور اللہ ہی کو يَسْجُدُ : سجدہ کرتا ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْهًا : یا ناخوشی سے وَّظِلٰلُهُمْ : اور ان کے سائے بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام
اور آسمان و زمین میں جو کوئی ہے اللہ ہی کے آگے سجدہ میں گرا ہوا ہے خوشی سے ہو یا مجبوری سے اور ان کے سائے صبح و شام گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں
آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کے آگے سجدہ ریز ہے خوشی سے یا مجبوری سے 27 ؎ ساری کی ساری مخلوقات اللہ ہی کے قانون تکوینی کی مطیع و منقاد ہے۔ ” وللہ یسجد “ اس ترکیب کے اقتضاء سے معنی یہ پیدا ہوئے کہ اللہ ہی کی مطیع و منقاد ہے نہ کسی اور کی ” جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے “۔ مراد ہے ساری مخلوق اور سجدہ سے مراد وہ شرعی سجدہ نہیں بلکہ اپنے اصل اور لغوی معنی میں ہے یعنی سب کے سب اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور اس کی مشیت کے مطیع و منقاد ہیں۔ (راغب) چیزوں کے سائے گھٹتے بڑھتے ہیں تو یہ بھی توحید کا درس دے رہے ہیں 28 ؎ تمام مخلوق اس کے سامنے جھکی ہوئی ہے کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ہر آنکھ دیکھ سکتی ہے کہ حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں۔ تم جو احکام الٰہی سے سرتابی کرنا چاہتے ہو خود اپنے سائے ہی کو دیکھ لو کہ جو اندازہ اس بارے میں بنا دیا گیا ہے اس سے کبھی وہ باہر نہیں جاسکتا۔ صبح کو چڑھتی دھوپ میں اس کا ایک خاص ڈھنگ ہوتا ہے شام کو ڈھلتی دھوپ میں ایک خاص ڈھنگ۔ اگر غور کرو تو قدرت الٰہی کے احکام و قوانین کے آگے ٹھیک اسی طرح تمہاری ہستیاں بھی مسخر ہیں خواہ تم کو انکار ہو یا اقرار اور سائے کی یہ ترتیب اس رب ذوالجلال والاکرام کی توحید کا سبق دے رہی ہے۔ سایہ کیا ہے ؟ سایہ ایک عدی اور سلبی شے ہے جس کا اطلاق اس حال پر ہوتا ہے جب روشنی کسی جسم کثیف کے توسط سے دور ہوجائے … جیسے رات کا اطلاق دن کے عدم پر ہوتا ہے۔ یہاں پر اگر یہ لفظی معنی لئے جائیں جب کوئی اشکال نہیں۔ مراد یہ ہوگی کہ اشیاء موجود فی الخارج اور ان کے اظلال سب ہی قادر مطلق کے مطیع و منقاد ہیں۔ وحشی قوموں میں ” سایہ “ کو عالم بالا کی کوئی چیز سمجھ کر اس سے بہت ڈرا گیا ہے۔ قرآن کریم نے بتایا کہ رموجود شے کی طرح اس کا سایہ بھی محض مخلوق ہے اور ہر کثیف چیز کے ساتھ لازم ہے۔ یہ جو تصور دیا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا سایہ نہیں تھا بلکل ایک تصوری بات ہے جس کی حقیقت سوائے جہالت کے کچھ بھی نہیں۔ جیسے یوں کہا جائے کہ کائنات میں جو کچھ ہے وہ سب کی سب آپ ﷺ ہی کے سایہ سے ہے تو خوش ہوجائیں گے اور اگر یہ کہا جائے گا کہ آپ ﷺ کا سایہ نہ تھا تو منہ چڑھانے لگیں ۔ اندھی عقیدت میں جو عقیدہ طے پا گیا بس وہ لوہے پر لکیر ہے۔ اصلیت اس کی موجود ہو یا نہ ہو ہماری بلا ہے۔
Top