Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 148
لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا
لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا اللّٰهُ : اللہ الْجَهْرَ : ظاہر کرنا بِالسُّوْٓءِ : بری بات مِنَ الْقَوْلِ : بات اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظُلِمَ : ظلم ہوا ہو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًا : سننے والا عَلِيْمًا : جاننے والا
اللہ منہ پھوڑ کر برائی کرنے کو (کسی کے لئے بھی) پسند نہیں کرتا سوا مظلوم کے، اور اللہ تو ہے ہی خوب سننے والا، خوج جاننے والا،379 ۔
379 ۔ آیت نے اخلاق کی اصطلاح میں غیبت وبدگوئی کو اور قانون کی زبان میں ہتک عزت کو بالکل ناجائز قرار دے دیا ہے۔ اور فردو جماعت، شخص وملت دونوں کے ہاتھ میں فلاح واصلاح کی ایک بڑی اصل دے دی ہے۔ (آیت) ” الجھر بالسوٓء من القول “۔ کے تحت میں پس پشت بھی کسی کے عیب کی تشہیر آگئی اور اس کے ردبرد تلخ کلامی بھی۔ بلاضرورت اور بلامصلحت شرعی کسی کی بد گوئی کسی حال میں بھی جائز نہیں، نہ سامنے نہ پیچھے۔ (آیت) ” الامن ظلم “۔ مظلوم البتہ اپنے دل کا بخار بک جھک کر بھی نکال سکتا ہے اور حاکم کے سامنے فریاد بھی لے جاسکتا ہے۔ انسان کے طبعی تقاضوں اور اضطراری یا نیم اضطراری ضرورتوں کا اس حد تک لحاظ بجز شریعت اسلامی کے اور کس نے کیا ہے ؟ فقہاء نے تصریح کردی ہے کہ جھوٹی بات کی شہرت مظلوم کو بھی جائز نہیں۔ لیجئے مظلوموں کے ساتھ ساتھ ظالموں کے حق بھی اسی سچی، فطری، الہی شریعت نے تسلیم کرلیے۔ (آیت) ” سمیعا “۔ اس میں ایک طرف تو ظالم کو تنبیہ ہے کہ مظلوم کہیں فریاد لے کر جائے نہ جائے، اللہ تو بہر صورت اس کی سن ہی رہا ہے۔ اور دوسری طرف مظلوم کو بھی ترغیب دی ہے کہ خلق کے آگے خواہ مخواہ زیادہ روتا گاتا نہ پھرے، یہ یقین رکھے کہ اللہ تو سننے والا ہے ہی۔ (آیت) ” علیما “۔ یہ صفت لا کر بھی ظالم ومظلوم دونوں کو یاد دلا دیا ہے کہ کوئی زبان سے نکالے یا نہ نکالے، اللہ پر تو ہر ظلم کی نوعیت و حقیقت عیاں ہی ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت سے انتقام کی اجازت نکل رہی ہے، جس کی ایک جزوشکایت بھی ہے۔ اور ضعفاء کی اس میں بڑی رعایت ہے کہ اس سے دل کا کینہ دور ہوجاتا ہے۔
Top