Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 88
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ۫
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اسْتَكْبَرُوْا : تکبر کرتے تھے (بڑے بنتے تھے) مِنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم لَنُخْرِجَنَّكَ : ہم تجھے ضرور نکال دیں گے يٰشُعَيْبُ : اے شعیب وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَكَ : تیرے ساتھ مِنْ : سے قَرْيَتِنَآ : ہماری بستی اَوْ لَتَعُوْدُنَّ : یا یہ کہ تم لوٹ آؤ فِيْ : میں مِلَّتِنَا : ہمارے دین قَالَ : اس نے کہا اَوَلَوْ : کیا خواہ كُنَّا : ہم ہوں كٰرِهِيْنَ : ناپسند کرتے ہوں
ان کی قوم کے متکبر رودار لوگ بولے کہ اے شعیب (علیہ السلام) ہم تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں، ان کو اپنی بستی سے نکال کر رہیں گے،118 ۔ یا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ (شعیب (علیہ السلام) نے) کہا کہ اگرچہ ہم (اس سے) بیزار ہی ہوں ؟ ،119 ۔
118 ۔ گفتگو میں لاجواب ہو کر اب قوم شعیب (علیہ السلام) جبر وتشدد پر اتر آئی ہے۔ اور پیغمبر اور ان کے رفیقوں کو شدید دھمکیاں دے رہی ہے۔ 119 ۔ (آیت) ” لتعودن فی ملتنا “۔ عاد کے ایک معنی تو صار کے ہیں قال غیر واحد ان تو تعودبمعنی تصیر کما اثبتہ بعض النحاۃ واللغویین (روح) ای لتصیرن الی ملتنا وقال الزجاج یجوز ان یکون العود بمعنی الابتداء (قرطبی) یہ معنی لے کر تو فقرہ کا مطلب صرف اس قدر ہوا کہ تم ہمارے مذہب میں آجاؤ یا ہمارے دین میں شامل ہوجاؤ۔ اور اس پر کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا لیکن عود کے عام معنی لوٹ آنے، پلٹ آنے کے ہیں۔ العود الرجوع الی الشیء بعد الانصراف عنہ (راغب) اس پر یہ اشکال پیش کیا گیا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) بہ حیثیت نبی ہونے کے ہمیشہ ہی سے مومن تھے۔ پھر ان سے ملت کفر کی طرف واپس آنے کی فرمایش کے کیا معنی ؟ لیکن یہ اشکال کچھ یونہی سا ہے پیغمبر ظاہر ہے کہ بعثت سے قبل اپنے یہاں کے موروثی مذہب کی مخالفت نہیں کرتا اور اس لیے وہ قدرۃ اسی میں سمجھا ہی جاتا ہے۔ یہ تو جوں جوں اس کا شعور بیدار ہوتا جاتا ہے ہو گردوپیش کی خرابیوں پر توجہ کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ منصب نبوت پر آجانے کے بعد علانیہ مخالفت اپنے آبائی مذہب کی کرنے لگتا ہے۔ بعض اکابر تفسیر نے بھی شعیب (علیہ السلام) کے قبل بعثت کے مذہب کی تعبیر سکوت سے کی ہے۔ یراد بعود شعیب فی الملۃ حال سکوتہ عنھم قبل ان یبعث (بحر) حضرت شعیب (علیہ السلام) کے قول کا حاصل یہ ہوا کہ جب ہم بہ دلیل اور علی وجہ البصیرت مذہب جاہلیت کو لغو و باطل سمجھ رہے ہیں۔۔ اور اس سے ہمارا ذوق اور ہماری عقل بیزار ہے تو ہم اسے اختیار کیسے کرلیں ؟
Top