Tafseer-e-Saadi - Al-A'raaf : 88
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ۫
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اسْتَكْبَرُوْا : تکبر کرتے تھے (بڑے بنتے تھے) مِنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم لَنُخْرِجَنَّكَ : ہم تجھے ضرور نکال دیں گے يٰشُعَيْبُ : اے شعیب وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَكَ : تیرے ساتھ مِنْ : سے قَرْيَتِنَآ : ہماری بستی اَوْ لَتَعُوْدُنَّ : یا یہ کہ تم لوٹ آؤ فِيْ : میں مِلَّتِنَا : ہمارے دین قَالَ : اس نے کہا اَوَلَوْ : کیا خواہ كُنَّا : ہم ہوں كٰرِهِيْنَ : ناپسند کرتے ہوں
تو ان کی قوم میں جو لوگ سردار اور بڑے آدمی تھے وہ کہنے لگے کہ شعیب ! یا تو تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائیں ہیں ان کو اپنے شہر سے نکال دیں گے یا تم ہمارے مذہب میں آجاؤ انہوں نے کہا خواہ ہم تمہارے دین سے بیزار ہی ہوں !
آیت 88 (قال الملا الذین استکبروا من قومہ) ” کہا ان سرداروں نے جو متکبر تھے اس کی قوم میں سے “ اس سے مرادان کے اشراف اور بڑے آدمی ہیں جنہوں ن اپنی لذات میں مستغرق ہو کر اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی، جب ان کے پاس حق آیا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ حق ان کی خواہشات نفس کے خلاف ہے تو انہوں نے نہایت تکبر سے حق کو ٹھکرا دیا اور اپنے نبی شعیب اور ان مستضعفین سے کہنے لگے جو حضرت شعیب کے ساتھ تھے۔ (لنخرجنک یشعیب والذین امنوا معک من قریتنا اولتعودن فی ملتنا) ” ہم ضرور نکال دیں گے اے شعیب تجھ کو اور ان کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے اپنے شہر سے، یا یہ کہ تم لوٹ آؤ اپنے دین میں “ انہوں نے حق کے خلاف بہیمانہ قوت استعمال کی اور انہوں نے کسی اصول، کسی حق کی پاسداری نہ کی۔ انہوں نے تو صرف اپنی خواہشات نفس کی رعایت اور ان کی پیروی کی اور اپنی ناقص عقل کے پیچھے لگے جو ان کے قول فاسد پر دلالت کرتی ہے۔ پس شعیب سے کہنے لگے ” یا تو تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ہمارے دین میں واپس لوٹنا ہوگا یا ہم تجھے اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے۔ “ شعیب ان کے ایمان لانے کی امید میں ان کو ایمان کی دعوت دیتے رہے مگر وہ اب تک ایمان نہ لائے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے آنجناب کو دھمکی دی کہ اگر وہ ان کی پیروی نہیں کریں گے تو وہ ان کو ان کے اس وطن سے جلا وطن کردیں گے جس میں رہنے کے شعیب اور ان کے اصحاب زیادہ مستحق ہیں۔ (قال) شعیب نے ان کی اس بات پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا : (اولو کنا کرھین) ” خواہ ہم (تمہارے دین سے) بیزار ہی ہوں۔ “ یعنی کیا ہم ناپسند کرتے ہوئے بھی تمہارے باطل دین اور ملت کی اتباع کریں ؟ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمہارا دین باطل ہے۔ اس دین کی طرف تو صرف اسی کو دعوت دی جاتی ہے جو اس میں کوئی رغبت رکھتا ہو اور وہ شخص جو علی الاعلان لوگوں کو اس دین کی پیروی سے روکتا ہے اور جو کوئی اس دین کی اتباع کرتا ہے اس کو برا کہتا ہے تو وہ کیوں کر اس دین کی دعوت دے سکتا ہے ؟ (قد افترینا علی اللہ کذباً ان عدنا فی ملتکم بعد اذ نجنا اللہ منھا) ” اگر ہم اس کے بعد کہ اللہ ہمیں اس سے نجات بخش چکا ہے، تمہارے مذہب میں لوٹ جائیں تو بیشک ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھ دیا۔ “ یعنی تم گواہ رہو کہ اگر ہم تمہاری ملت اور دین میں واپس لوٹ آپے اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دے دی ہے اور اس کے شر سے ہمیں بچا لیا ہے۔ تو ہم جھوٹے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کرنے والے ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی افتراء پرداز نہیں جو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے حالانکہ وہ ایک، یکتا اور بےنیاز، ہے جس کی کوئی بیوی ہے نہ بیٹا اور نہ اقتدار میں کوئی شریک۔ (وما یکون لنا ان نعود فیھا) ” اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں۔ “ یعنی ہم جیسے لوگوں کے لئے ممکن نہیں کہ ہم اس دین میں پھر لوٹ آئیں کیونکہ یہ بالکل محال ہے۔ جناب شعیب نے متعدد وجوہ سے کفار کو اس بات سے مایوس کردیا کہ وہ ان کی موافقت کریں گے۔ (1) حضرت شعیب اور ان کے اصحاب ان کے دین کو ناپسند کرتے تھے اور اس سے سخت بغض رکھتے تھے کیونکہ ان کا دین شرک پر مبنی تھا۔ (2) شعیب نے ان کے دین کو جھوٹ قرار دیا تھا اور ان کو اس بات پر گواہ بنایا تھا کہ اگر انہوں نے اور ان کے اصحاب نے کفار کے دین کی اتباع کی، تو وہ جھوٹے ہیں۔ (3) انہوں نے علی الاعلان اعتراف کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کفار کے دین سے بچا کر ان پر احسان کیا ہے۔ (4) ان کی استقامت پر مبنی حالت پر غور کریں، ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی جو تعظیم، اس کی عبودیت کا جو اعتراف، نیز اس بات کا اعتراف کہ وہی الہ واحد ہے صرف وہی اکیلا عبادت کے لائق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کا اعلان کہ مشرکین کے گھڑے ہوئے معبود سب سے بڑا باطل اور سب سے بڑا فریب ہیں۔۔۔ ان امور کو دیکھتے ہوئے یہ بات محال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان کو ہدیات سے نوازنے کے بعد وہ ان کے دین میں واپس لوٹیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی عقل سے نوازا ہے جس کے ذریعے سے وہ حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی کو پہچانتے ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تمام مخلوقات میں نافذ اس کے ارادے میں غور کیا جائے، جس سے باہر نکلنا کسی کے لئے ممکن نہیں خواہ پے در پے اسباب مہیا ہو اور قوتیں باہم مواففق ہوں۔۔۔ تو وہ اپنے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ عنقریب فلاں فعل سر انجام دیں گے یا اس کو چھوڑ دیں گے۔ بنا بریں شعیب نے استثناء کا اسلوب استعملا کرتے ہوئے فرمایا : (ومایکون لنا ان نعود فیھا الا ان یشآء اللہ ربنا) اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں، ہاں اللہ جو ہمارا رب ہے وہ چاہے تو۔ “ یعنی ہمارے لئے یا کسی اور کے لئے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے، جو اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی حکمت کے تابع ہے، باہر نکلنا ممکن نہیں (وسیع ربنا کل شیء علما ) ” گھیرے ہوئے ہے ہمارا پروردگار سب چیزوں کو اپنے علم میں “ پس وہ جانتا ہے کہ بندوں کے لئے کیا درست ہے اور کس چیز کے ذریعے سے وہ بندوں کی تدبیر کرے (علی اللہ توکلنا) ” ہمارا اللہ ہی پر بھروسا ہے۔ “ یعنی ہمیں اللہ تعالیٰ پر اعتماد ہے کہ وہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے گا اور جہنم کے تمام راستوں سے ہمیں بچائے گا، کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے وہ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور وہ اس کے دین اور دنیا کے معاملے کو آسان کردیتا ہے۔ (ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق) ” اے ہمارے رب فیصلہ کر ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ “ یعنی ظالم اور حق کے خلاف عناد رکھنے والے کے مقابلے میں مظلوم اور صاحب حق کی مدد فرما۔ (وانت خیر الفتحین) ” اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے “ اپنے بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی دو اقسام ہیں : (1) اللہ تعالیٰ باطل میں سے حق کو، گمراہی میں سے ہدایت کو بیان کر کے نیز یہ واضح کر کے کہ کون صراط مستقیم پر گامزن ہے اور کون اس سے منحرف ہے۔۔۔ فیصلہ کرتا ہے یہ اس کا علمی فیصلہ ہے۔ (2) ظالموں کو سزا دینے اور صالحین کو نجات اور اکرام عطا کرنے کے لئے جو فیصلہ کرتا ہے وہ اس کا جزائی فیصلہ ہے۔ پس اہل ایمان نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ حق اور انصاف کے ساتھ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے اور وہ انہیں ایسی آیات و علامات دکھا دے جو فریقین کے مابین فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں۔ (وقال الملا الذین کفروا من قومہ) ” اور ان کی قوم میں سے سردار لوگ جو کافر تھے کہنے لگے “ یعنی ان کی قوم کے سرداروں نے حضرت شعیب کی اتباع سے ڈراتے ہوئے کہا : (لئن اتبعتم شعیباً انکم اذا الخسرون) ” اگر تم نے شعیب کی پیری کی تو تم نقصان اٹھاؤ گے۔ “ ان کے نفس نے ان کے لئے مزین کو دیا تھا کہ رشد و ہدایت کی اتباع سراسر خسارہ اور شقاوت ہے انہیں یہ معلوم نہیں کہ خسارہ تو تمام تر خود گمراہی میں پڑے رہنے اور دوسروں کو گمراہ کرنے میں ہے اور جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو اس وقت انہیں یہ حقیقت معلوم ہوئی۔ (فاخذتھم الرجفۃ) ” پس ایک شدید زلزلے نے ان کو آلیا۔ “ (فاصبحوا فی درھم جثمین) ” اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ “ یعنی وہ خشک کٹے ہوئے درخت کی مانند پچھاڑے ہوئے مردہ پڑے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی حالت کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا : (الذین کذبوا شعیباً کان لم یغنوا فیھا) ” جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا، گویا کبھی وہ وہاں بسے ہی نہ تھے “ یعنی گویا کہ وہ گھروں میں رہتے ہی نہ تھے اور گویا کہ انہوں نے گھروں کے صحنوں سے کبھی استفادہ کیا تھا نہ ان کی چھاؤں میں کبھی وقت گزارا تھا اور وہ اس دیار کے دریاؤں کے کنارے چراگاہوں میں رہے تھے نہ انہوں نے اس کے درختوں کے پھل کھائے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ کے عذاب نے ان کو آپکڑا اور ان کو لہو و لعب اور لذات کی دنیا سے نکال کر حزن و غم، عقوبت اور ہلاکت کے گڑھوں میں منتقل کردیا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (الذین کذبوا شعیباً کانوا ھم الخسرین) ” جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا، وہی ہوئے خسارہ اٹھانے والے “ یعنی وہ پوری طرح خسارے میں گھرے ہوئے ہیں کیونکہ قیامت کے روز وہ خود اور ان کے گھر والے سخت خسارے میں ہوں گے اور یہی واضح خسارہ ہے نہ کہ وہ جن کو انہوں نے کہا تھا۔ (لئن اتبعتم شعیباً انکم اذا الخسرون) ” اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو بیشک تم خسارے میں پڑگئے۔ “ پس جب وہ ہلاک ہوگئے تو ان کا نبی ان سے منہ پھیر کر چل دیا۔ (وقال) اور ان کی موت کے بعد ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے ان سے مخاطب ہوا : (یقوم لقد ابلغتکم رسلت ربی) ” اے میری قوم ! میں نے تم کو اپنے رب کے پیغام پہنچا دیئے۔ “ یعنی میں نے اپنے رب کا پیغام تم تک پہنچا دیا اور اسے کھول کھول کر بیان کردیا حتی کہ یہ پیغام تمہیں پوری طرح پہنچ گیا اور تمہارے دلوں نے اچھی طرح اسے سمجھ لیا۔ (ونصحت لکم) ” اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی “ مگر تم نے میری خیر خواہی کو قبول کیا نہ تم نے میری بات مانی بلکہ اس کے برعکس تم نے نافرمانی کی اور سرکشی اختیار کی۔ (فکیف اسی علی قوم کفرین) ” تو میں کافروں پر رنج و غم کیوں کروں۔ “ یعنی میں ایسے لوگوں کے انجام پر کیوں کر غمزدہ ہوسکتا ہوں جن میں کوئی بھلائی نہ تھی، بھلائی ان کے پاس آئی مگر انہوں نے اسے ٹھکرا دیا، اسے قبول نہ کیا، یہ لوگ شر کے سوا کسی چیز کے لائق نہ تھے۔ پس یہ اس چیز کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کی ہلاکت پر افسوس کیا جائے بلکہ ان کی ہلاکت اور استیصال پر تو خوش ہونا چاہیے۔ اے اللہ ! فضیحت اور رسوائی سے تیری پناہ ! اس سے بڑھ کر کون سی بدبختی اور سزا ہوسکتی ہے کہ وہ اس حالت کو پہنچ جائیں کہ مخلوق میں سب سے زیادہ خیر خواہ ہستی بھی ان سے برأت کا اظہار کرے۔
Top