Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 88
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ۫
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اسْتَكْبَرُوْا : تکبر کرتے تھے (بڑے بنتے تھے) مِنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم لَنُخْرِجَنَّكَ : ہم تجھے ضرور نکال دیں گے يٰشُعَيْبُ : اے شعیب وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَكَ : تیرے ساتھ مِنْ : سے قَرْيَتِنَآ : ہماری بستی اَوْ لَتَعُوْدُنَّ : یا یہ کہ تم لوٹ آؤ فِيْ : میں مِلَّتِنَا : ہمارے دین قَالَ : اس نے کہا اَوَلَوْ : کیا خواہ كُنَّا : ہم ہوں كٰرِهِيْنَ : ناپسند کرتے ہوں
اور اس کی قوم کے بڑوں نے ‘ جنھوں نے تکبر کیا ‘ کہا کہ اے شعیب ! ہم تم کو اور جو تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال کے رہیں گے یا تم ہماری ملت میں پھر آجائو۔ اس نے کہا کیا جب کہ ہم اس سے نفرت کرتے ہوں
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ط قَالَ اَوَلَوْ کُنَّا کٰرِھِیْنَ ۔ قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللہِ کَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰنَا اللہ ُ مِنْھَا ط وَمَا یَکُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْھَآ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللہ ُ رَبُّنَا ط وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا ط عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا ط رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ ۔ (الاعراف : 88، 89) ” اور اس کی قوم کے بڑوں نے ‘ جنھوں نے تکبر کیا ‘ کہا کہ اے شعیب ‘ ہم تم کو اور جو تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال کے رہیں گے یا تم ہماری ملت میں پھر آجاؤ۔ اس نے کہا کیا جب کہ ہم اس سے نفرت کرتے ہوں تب بھی ! ہم اللہ پر جھوٹ تہمت باندھنے والے ٹھہریں گے اگر ہم تمہاری ملت میں لوٹ آئیں بعد اس کے کہ اللہ نے ہمیں اس سے نجات دی۔ یہ ہم سے تو ہونے کا نہیں کہ ہم اس ملت میں لوٹ آئیں مگر یہ کہ اللہ ہمارے رب ہی کی مشیت ہو تو اور بات ہے۔ ہمارے رب کا علم ہر شے کو محیط ہے۔ ہم نے اپنے رب پر بھروسہ کیا۔ اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے۔ تو بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے “۔ آیتِ کریمہ میں مضمر حقائق آیت کریمہ کے الفاظ پر غور کیجیے تو کئی حقیقتیں کھل کر سامنے آتی ہیں سب سے پہلی بات یہ کہ حضرت شعیب اور ان کے ساتھیوں کو جو لوگ ڈرا دھمکا رہے ہیں اور ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں وہ عام لوگ نہیں بلکہ اس قوم کا متکبر طبقہ ہے جن کی خوشحالی اور امارت نے ان کے دماغ میں خناس بھر دیا ہے وہ باقی قوم سے اپنے آپ کو الگ اور مراعات یافتہ طبقہ سمجھتے ہیں آج کی زبان میں یہ اس دور کے وی ۔ آئی ۔ پی لوگ ہیں۔ ان کی سوچ ‘ ان کی معاشرت ‘ ان کے طور اطوار ‘ ان کے تعلقات قوم کے دوسرے لوگوں سے بالکل الگ ہوتے ہیں۔ ان کی آبادیاں بھی دوسروں سے جدا ہوتی ہیں ان کی تقریبات میں غریب کو بار نہیں ملتا بلکہ ان کے اپنے جیسے اس میں مدعو کیے جاتے ہیں۔ اس لیے جب کوئی عوام میں سے اٹھ کر ان کی ہدایت کے لیے کوشش کرتا ہے اور ان کی غلطیوں پر انھیں ٹوکتا ہے تو شروع شروع میں تو وہ اسے درخور اعتناء نہیں سمجھتے لیکن رفتہ رفتہ جب یہ دعوت زور پکڑنے لگتی ہے تو پھر وہ سنجیدگی سے اس کا قلع قمع کرنے کے لیے تل جاتے ہیں۔ ایک تو وہ اپنی زندگی پر تنقید برداشت نہیں کرسکتے اور دوسری بات جو ان کو مشتعل کرتی ہے وہ یہ کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس پیغمبر کی دعوت نے پسماندہ طبقے میں زندگی کی حرارت پیدا کردی ہے وہ لوگ جو کبھی ان کے نام سے کانپتے تھے اور ان کے پائوں کی چاپ سے ان کی جان ہوا ہونے لگتی تھی وہی ان کے سامنے کھڑے ہو کر دوبدو باتیں کرنے لگے ہیں۔ انھیں حیرانی ہوتی ہے کہ یہ لوگ جو ہر طرح ہمارے دست نگر ہیں اور جنھوں نے ہمارے مظالم پر کبھی اف کرنا نہیں سیکھا آج انھیں کیا ہوگیا ہے کہ حقوق آشنائی کے ساتھ ساتھ ان کی آنکھوں میں معرفتِ ذات کے دیئے جلنے لگے ہیں اور ان کے لہجے سے جرأت اور استقامت بولنے لگی ہے یہ چیز انھیں اور پریشان کردیتی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری خاص حیثیت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے یہ طبقاتی تقسیم اب شاید باقی نہیں رہے گی اور یہ معصوم سا انقلاب اگر برپا ہوگیا تو آج کا بالادست طبقہ کل کو زیردستوں کے ساتھ کھڑا ہوگا یہ احساس انھیں ہضم نہیں ہوتا اور یہی اصل وہ سبب ہے جس کی وجہ سے وہ پیغمبر اور اہل ایمان کو برداشت کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پیغمبر انھیں نیکی کی دعوت دیتے ہیں اور لوگ نیکی کے راستے پر چلنا نہیں چاہتے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بالادست طبقہ اور مراعات یافتہ گروہ اپنی حیثیت سے دستبردار ہونا نہیں چاہتا۔ انھوں نے جس طرح سے اپنے جیسے انسانوں کو ایک مدت سے غلام بنا کر رکھا ہے وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ آج کے غلام کل کے آقا بن سکتے ہیں۔ آل فرعون کا کوئی فرد کس طرح اپنے آپ کو بنی اسرائیل کے برابر سمجھ سکتا ہے۔ شودر پڑھ کے ہزار لائق ہوجائے لیکن برہمن کبھی اسے اپنے برابر قبول کرنے کو تیار نہیں ہوسکتا۔ ایک جاگیردار اور ہاری ‘ ایک وڈیرہ اور مزارع ‘ مالک اور مزدور ‘ امیر اور غریب یہ ایک ایسی تقسیم ہے جسے ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں اور اللہ کے رسول اسی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔ محروم طبقہ جب ان کی دعوت میں اپنی محرومیوں کا مرہم دیکھتا ہے تو وہ ان کے گرد اکٹھا ہونے لگتا ہے اور امراء کا طبقہ اسی اجتماعیت میں اپنے لیے موت محسوس کرتا ہے۔ حقیقت میں یہی کشمکش ہے جو بظاہر دین کے حوالے سے چلتی ہے لیکن حقیقت میں یہ معاشرتی اور سماجی کشمکش ہے۔ اس آیت کریمہ میں اسی کشمکش کی طرف اشارہ ہے کہ قوم کے بڑے لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ دعوت روز بروز نفوذ پیدا کرتی جا رہی ہے اور غریب لوگ اس کے گرد جمع ہو رہے ہیں انھوں نے آنے والے خطرے کو محسوس کر کے آخری اقدام کا فیصلہ کر ڈالا۔ فرق صرف یہ ہے کہ بجائے قتل کے فیصلے کے انھوں نے ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت شعیب کی قوم مختلف قبائل کا مجموعہ تھی قبائلی زندگی میں کسی ایک قبیلے کے کسی فرد کو قتل کردینا بہت مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ کوئی قبیلہ اپنے کسی آدمی کے مارے جانے پر قصاص لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھتا اور قبائل کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ دین کے اختلاف کے باوجود بھی قبیلے آپس میں ایک دوسرے سے تعاون جاری رکھتے ہیں اور جب ایک لڑائی ایک قبیلے سے دوسرے قبیلے تک متعدی ہوتی ہے تو پھر اس کے اثرات اور وسعت کو روکنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اس لیے قبائل کے سردار ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی قبیلے کا کوئی آدمی دوسرے قبیلے والے کے ہاتھوں نہ مارا جائے اور اگر ایسا ہو تو قصاص یا دیت سے یہ معاملہ حل ہوجائے تو بہتر ہے ورنہ اس آگ کو پھیلنے سے روکنا بہت مشکل ہوجاتا ہے یہ سبب تھا جس کی وجہ سے ان لوگوں نے حضرت شعیب اور آپ پر ایمان لانے والوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس سے پہلے دھمکی دیتے ہوئے یہ بات کی کہ دو راستے تمہارے سامنے ہیں یا تو تم اس نئے دین سے لاتعلقی کا اظہار کردو اور اپنے پرانے دین میں واپس آجاؤ اور اگر یہ منظور نہیں تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے۔ غور فرمایئے کہ حضرت شعیب کی قوم دو مطالبے پیش کر رہی ہے۔ دین سے برگشتگی یعنی ارتداد ورنہ ملک بدری۔ ان دونوں میں سے ہر سوچنے والا یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ دین کا معاملہ زیادہ آسان ہے۔ قبول کرنے کے بعد چھوڑا بھی جاسکتا ہے اور چھوڑ کر قبول بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ملک چھوٹ جانا یہ ایک بہت بڑا حادثہ ہے وطن تو انسان کی زندگی ہے اور وطن کی محبت انسان کی شریانوں میں دوڑتی ہے اس سے نکل جانے کا تصور بھی انسان کے لیے نہایت ہولناک ہے اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ حضرت شعیب سب سے پہلے اس مطالبے پر بات کرتے کہ بھٔی نظریاتی بحثیں تو چلتی رہیں گی میں نے تمہارے سامنے جو دعوت پیش کی ہے تم اسے قبول نہ کرو لیکن اس کو لڑائی تک پہنچا دینا تو کوئی عقلمندی کی بات نہیں۔ لیکن جہاں تک تعلق ہے ملک سے نکالنے کا تو یہ تو نہایت نامناسب بات ہے۔ ہم ایک مدت دراز سے اس ملک میں اکٹھے رہ رہے ہیں ہماری آپس میں بیسیوں نسبتیں ہیں تو کیا تم کسی نسبت کا بھی خیال کیے بغیر ہمیں ملک سے نکال دو گے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ آپ نے ملک اور وطن سے حوالے سے کوئی بات نہیں کی بلکہ اس مطالبے کو مکمل طور پر نظر انداز فرمایا اور اگر کوئی بات کہی تو دین اور ملت کے حوالے سے کہی کہ تمہاری ملت اور تمہارا دین اگر قابل قبول ہوتا اور ہم اسے اس قابل سمجھتے کہ وہ اللہ کے یہاں قابل قبول ہوسکتا ہے تو ہم اسے پہلے ہی کیوں چھوڑتے۔ اب جبکہ ہم اسے غلط سمجھ کر چھوڑ چکے ہیں اور اس کے مقابلے میں اللہ کی طرف سے نازل کردہ سچے دین کو قبول کرچکے ہیں تو اب اگر اس سچے دین سے ہم پھرجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس سچ کی خاطر ہم نے جھوٹ کو چھوڑا تھا وہ سچ حقیقت میں سچ نہیں تھا ہم نے بلاوجہ اس کی نسبت اللہ کی طرف کی تھی یہ سراسر ایک جھوٹی دعوت تھی جو میں تمہارے سامنے پیش کرتا رہا ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ آج تک میں نے جو کچھ کہا وہ سراسر اللہ پر ایک بہتان اور تہمت تھی ظاہر ہے یہ بات میں کسی طرح بھی کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا بلکہ میں تو اس پر اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آنے کی ہمت عطا فرمائی۔ جس غلط زندگی سے اللہ نے ہمیں نجات بخشی ہے تو تم کیا سمجھتے ہو کہ میں اللہ کے اس احسان کو رد کر کے دوبارہ اندھیروں کا مسافر بن جاؤں اس لیے میں تم سے صاف کہتا ہوں کہ تم کبھی اس کا تصور بھی نہ کرو کہ میں اور میرے ساتھی دوبارہ کبھی تمہارے باطل دین کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ اپنے اس عزم بالجزم کا اظہار کرنے کے بعد ایک عجیب بات فرمائی کہ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمارا عزم تو راسخ ہے اس میں تو کسی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتالیکن میں اس عزم پر کلیۃً اعتماد نہیں کرتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ انسان اپنی ساری خود اعتمادی کے باوجود نہایت کمزور واقع ہوا ہے۔ اگر اللہ کسی کام کو نہ چاہے تو انسان کے سارے ارادے دھرے رہ جاتے ہیں اس لیے اللہ ہی نے ہمیں یہ بات سکھائی ہے کہ جب تم کسی بات کے لیے عزم کرو تو ہمیشہ اس پر اللہ کی توفیق مانگو اور ساتھ ہی یہ ضرور کہو کہ میں تو یہ کام کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی اللہ پر حقیقی اعتماد کا اظہار بھی کرتا ہوں۔ ایمان اصل میں انہی دونوں چیزوں کا نام ہے ایک عزم بالجزم کا دوسرا تفویض الی اللہ کا کہ آدمی اس بات کا پابند ہے کہ وہ ارادے کی پختگی کے ساتھ اور جسم و جان کی پوری توانائی کے ساتھ باطل سے ترک تعلق کرے اور حق سے اپنا رشتہ باندھے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات کا بھی پابند ہے کہ اپنے ارادوں کی باگ دوڑ پوری طرح اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کرے بلکہ ہر بات کا اصل رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ میں جانے اور اسی پر بھروسہ کرے یعنی اس کا یقین یہ ہونا چاہیے ؎ کیا فائدہ فکرِ بیش و کم سے ہوگا ہم کیا ہیں جو کوئی کام ہم سے ہوگا جو ہوا ‘ ہوا کرم سے تیرے جو ہوگا ترے کرم سے ہوگا ارادے کی پختگی اور اللہ سے توفیق کی طلب کے بعد جب آپ نے محسوس کیا کہ میری قوم میری باتوں سے کوئی اثر لینے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس کی دشمنی اور نامرادی اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ وہ آخری اقدام کیے بغیر رکنے والی نہیں تو پھر آپ نے اللہ سے دعا مانگی کہ یا اللہ میں اپنی امکانی کوششیں کرچکا ہوں میری قوم پر پوری طرح اتمام حجت ہوچکا اب میری قوم کو صرف آپ کی طرف سے فیصلے کا انتظار ہے اس لیے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ یہ اب قوت استعمال کرنے پر تل گئے ہیں میری بظاہر قوت ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی اب تو آپ کی طرف سے آنے والا فیصلہ ان کی قسمتوں کا فیصلہ کرے گا کیونکہ آپ ہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔ ایک اشتباہ کا جواب اس آیت کریمہ میں ہم نے دیکھا ہے کہ اپنے دین کو چھوڑ کر دوبارہ ان کے دین باطل میں داخل ہونے سے حضرت شعیب اپنی اور مسلمانوں کی طرف سے انکار فرما رہے ہیں اس کا مطلب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آپ پر ایمان لانے والے کفر سے نکل کر اسلام میں آئے تھے کیا حضرت شعیب بھی اسی طرح کفر سے نکل کر اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے تھے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ آپ کی زندگی میں کبھی کوئی وقت ایسا بھی گزرا ہے جب آپ بھی کفر اور شرک کا اعتبار کرتے تھے حالانکہ اللہ کا نبی معصوم پیدا ہوتا ہے وہ نبوت سے پہلے بھی فطرت کی راہنمائی کے مطابق زندگی گزارتا ہے اس لیے وہ کبھی کفر یا شرک میں آلودہ نہیں ہوتا تو یہاں حضرت شعیب کا یہ کچھ فرمانا جس کا ہم نے ذکر کیا ہے آخر اس کا کیا مطلب ہے۔ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ حضرت شعیب اپنی طرف سے نہیں بلکہ اپنے اوپر ایمان لانے والوں کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے یہ باتیں فرما رہے ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اگرچہ نبوت سے پہلے کبھی کفر یا شرک میں آلودہ نہیں ہوتا لیکن وہ مشرکوں کی کسی بات پر تنقید بھی نہیں کرتا وہ خود نہایت پاکیزہ زندگی گزارتا ہے لیکن نبوت سے پہلے پاکیزگی کا درس نہیں دیتا۔ اس صورت حال کی وجہ سے اس کی قوم یہ سمجھتی رہتی ہے کہ وہ شاید ہمارا ہم مذہب ہے، اس لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم کے خیال کے مطابق اہل ایمان کی طرف سے بات کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان سے الگ نہیں کیا اور مجموعی طور پر وہ بات کہہ دی جو ان کی دھمکی کے جواب میں کہی جانی چاہیے اور اپنے جواب میں اس کو پوری طرح واضح کردیا کہ تم وطن سے نکالنے کی دھمکی دے کر یہ سمجھتے ہو کہ ہم وطن کی خاطر دین چھوڑ دیں گے حالانکہ ہمارے نزدیک اصل حیثیت دین کی ہے وطن تو بدلا جاسکتا ہے۔ مومن کے لیے وطن کی حقیقت ایک مومن کا وطن اصل میں وہ ہے جہاں اس کی زندگی محفوظ ہے اور جہاں اس کے دین کو خطرات لاحق ہوجائیں وہ پوری طرح اللہ کی بندگی انفرادی اور اجتماعی سطح پر کرنے کا موقع نہ پاتا ہو تو پھر اسے وطن کی قربانی دینا پڑتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر پیغمبر دین کی خاطر ہجرت کرتا رہا اس نے ہمیشہ دین کی خاطر وطن چھوڑا ہے وطن کی خاطر دین کبھی نہیں چھوڑا اور یہی وہ بات ہے جس کو ہمارے قومی شاعر نے مختلف مواقع پر واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دنوں میں لوگوں کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل ہو رہا تھا کہ محض اسلامی زندگی گزارنے کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے جبکہ عبادات کی ادائیگی کی سہولت تویہاں بھی میسر ہے ؟ وہ دراصل اس بات میں فرق نہیں کر رہے تھے کہ اللہ کی بندگی اور عبادت صرف نماز نہیں بلکہ اجتماعی زندگی میں اللہ کے قانون کی بالادستی کا نام ہے جس طرح اللہ اور اس کے احکام کو بالادستی مسجد میں حاصل ہونی چاہیے اسی طرح اللہ کے دین کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ اس کا فرمان حکومت کے ایوانوں سے جاری ہو ‘ عدالت کی کرسی سے اس کے مطابق فیصلے ہوں ‘ ملک کے ذرائع ابلاغ اس کی تبلیغ و دعوت کے ساتھ ساتھ اسی کے احکام کے دائرے میں رہتے ہوئے لوگوں کو تفریح مہیا کریں ‘ تعلیمی ادارے اسی کے مطابق ذہنی اور فکری تعمیر کا کام کریں ‘ غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے پر اللہ کے دین کی بالادستی ‘ یہ اصل مقصود ہے۔ اسی کی طرف اقبال نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ؎ ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد اور دین کو وطن پر قربان کرنے کے تصور پر تنقید کرتے ہوئے اقبال نے کہا ؎ ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے حضرت شعیب (علیہ السلام) کے اس مایوس کن اور دنداں شکن جواب کے بعد قوم آپ سے تو مایوس ہوگئی البتہ انھوں نے آپ پر ایمان لانے والوں کو وارننگ دی۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی کا ذکر فرمایا جا رہا ہے :
Top