Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 88
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ۫
قَالَ
: بولے
الْمَلَاُ
: سردار
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
اسْتَكْبَرُوْا
: تکبر کرتے تھے (بڑے بنتے تھے)
مِنْ
: سے
قَوْمِهٖ
: اس کی قوم
لَنُخْرِجَنَّكَ
: ہم تجھے ضرور نکال دیں گے
يٰشُعَيْبُ
: اے شعیب
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
مَعَكَ
: تیرے ساتھ
مِنْ
: سے
قَرْيَتِنَآ
: ہماری بستی
اَوْ لَتَعُوْدُنَّ
: یا یہ کہ تم لوٹ آؤ
فِيْ
: میں
مِلَّتِنَا
: ہمارے دین
قَالَ
: اس نے کہا
اَوَلَوْ
: کیا خواہ
كُنَّا
: ہم ہوں
كٰرِهِيْنَ
: ناپسند کرتے ہوں
اور اس کی قوم کے بڑوں نے ‘ جنھوں نے تکبر کیا ‘ کہا کہ اے شعیب ! ہم تم کو اور جو تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال کے رہیں گے یا تم ہماری ملت میں پھر آجائو۔ اس نے کہا کیا جب کہ ہم اس سے نفرت کرتے ہوں
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ط قَالَ اَوَلَوْ کُنَّا کٰرِھِیْنَ ۔ قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللہِ کَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰنَا اللہ ُ مِنْھَا ط وَمَا یَکُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْھَآ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللہ ُ رَبُّنَا ط وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا ط عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا ط رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ ۔ (الاعراف : 88، 89) ” اور اس کی قوم کے بڑوں نے ‘ جنھوں نے تکبر کیا ‘ کہا کہ اے شعیب ‘ ہم تم کو اور جو تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال کے رہیں گے یا تم ہماری ملت میں پھر آجاؤ۔ اس نے کہا کیا جب کہ ہم اس سے نفرت کرتے ہوں تب بھی ! ہم اللہ پر جھوٹ تہمت باندھنے والے ٹھہریں گے اگر ہم تمہاری ملت میں لوٹ آئیں بعد اس کے کہ اللہ نے ہمیں اس سے نجات دی۔ یہ ہم سے تو ہونے کا نہیں کہ ہم اس ملت میں لوٹ آئیں مگر یہ کہ اللہ ہمارے رب ہی کی مشیت ہو تو اور بات ہے۔ ہمارے رب کا علم ہر شے کو محیط ہے۔ ہم نے اپنے رب پر بھروسہ کیا۔ اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے۔ تو بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے “۔ آیتِ کریمہ میں مضمر حقائق آیت کریمہ کے الفاظ پر غور کیجیے تو کئی حقیقتیں کھل کر سامنے آتی ہیں سب سے پہلی بات یہ کہ حضرت شعیب اور ان کے ساتھیوں کو جو لوگ ڈرا دھمکا رہے ہیں اور ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں وہ عام لوگ نہیں بلکہ اس قوم کا متکبر طبقہ ہے جن کی خوشحالی اور امارت نے ان کے دماغ میں خناس بھر دیا ہے وہ باقی قوم سے اپنے آپ کو الگ اور مراعات یافتہ طبقہ سمجھتے ہیں آج کی زبان میں یہ اس دور کے وی ۔ آئی ۔ پی لوگ ہیں۔ ان کی سوچ ‘ ان کی معاشرت ‘ ان کے طور اطوار ‘ ان کے تعلقات قوم کے دوسرے لوگوں سے بالکل الگ ہوتے ہیں۔ ان کی آبادیاں بھی دوسروں سے جدا ہوتی ہیں ان کی تقریبات میں غریب کو بار نہیں ملتا بلکہ ان کے اپنے جیسے اس میں مدعو کیے جاتے ہیں۔ اس لیے جب کوئی عوام میں سے اٹھ کر ان کی ہدایت کے لیے کوشش کرتا ہے اور ان کی غلطیوں پر انھیں ٹوکتا ہے تو شروع شروع میں تو وہ اسے درخور اعتناء نہیں سمجھتے لیکن رفتہ رفتہ جب یہ دعوت زور پکڑنے لگتی ہے تو پھر وہ سنجیدگی سے اس کا قلع قمع کرنے کے لیے تل جاتے ہیں۔ ایک تو وہ اپنی زندگی پر تنقید برداشت نہیں کرسکتے اور دوسری بات جو ان کو مشتعل کرتی ہے وہ یہ کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس پیغمبر کی دعوت نے پسماندہ طبقے میں زندگی کی حرارت پیدا کردی ہے وہ لوگ جو کبھی ان کے نام سے کانپتے تھے اور ان کے پائوں کی چاپ سے ان کی جان ہوا ہونے لگتی تھی وہی ان کے سامنے کھڑے ہو کر دوبدو باتیں کرنے لگے ہیں۔ انھیں حیرانی ہوتی ہے کہ یہ لوگ جو ہر طرح ہمارے دست نگر ہیں اور جنھوں نے ہمارے مظالم پر کبھی اف کرنا نہیں سیکھا آج انھیں کیا ہوگیا ہے کہ حقوق آشنائی کے ساتھ ساتھ ان کی آنکھوں میں معرفتِ ذات کے دیئے جلنے لگے ہیں اور ان کے لہجے سے جرأت اور استقامت بولنے لگی ہے یہ چیز انھیں اور پریشان کردیتی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری خاص حیثیت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے یہ طبقاتی تقسیم اب شاید باقی نہیں رہے گی اور یہ معصوم سا انقلاب اگر برپا ہوگیا تو آج کا بالادست طبقہ کل کو زیردستوں کے ساتھ کھڑا ہوگا یہ احساس انھیں ہضم نہیں ہوتا اور یہی اصل وہ سبب ہے جس کی وجہ سے وہ پیغمبر اور اہل ایمان کو برداشت کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پیغمبر انھیں نیکی کی دعوت دیتے ہیں اور لوگ نیکی کے راستے پر چلنا نہیں چاہتے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بالادست طبقہ اور مراعات یافتہ گروہ اپنی حیثیت سے دستبردار ہونا نہیں چاہتا۔ انھوں نے جس طرح سے اپنے جیسے انسانوں کو ایک مدت سے غلام بنا کر رکھا ہے وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ آج کے غلام کل کے آقا بن سکتے ہیں۔ آل فرعون کا کوئی فرد کس طرح اپنے آپ کو بنی اسرائیل کے برابر سمجھ سکتا ہے۔ شودر پڑھ کے ہزار لائق ہوجائے لیکن برہمن کبھی اسے اپنے برابر قبول کرنے کو تیار نہیں ہوسکتا۔ ایک جاگیردار اور ہاری ‘ ایک وڈیرہ اور مزارع ‘ مالک اور مزدور ‘ امیر اور غریب یہ ایک ایسی تقسیم ہے جسے ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں اور اللہ کے رسول اسی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔ محروم طبقہ جب ان کی دعوت میں اپنی محرومیوں کا مرہم دیکھتا ہے تو وہ ان کے گرد اکٹھا ہونے لگتا ہے اور امراء کا طبقہ اسی اجتماعیت میں اپنے لیے موت محسوس کرتا ہے۔ حقیقت میں یہی کشمکش ہے جو بظاہر دین کے حوالے سے چلتی ہے لیکن حقیقت میں یہ معاشرتی اور سماجی کشمکش ہے۔ اس آیت کریمہ میں اسی کشمکش کی طرف اشارہ ہے کہ قوم کے بڑے لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ دعوت روز بروز نفوذ پیدا کرتی جا رہی ہے اور غریب لوگ اس کے گرد جمع ہو رہے ہیں انھوں نے آنے والے خطرے کو محسوس کر کے آخری اقدام کا فیصلہ کر ڈالا۔ فرق صرف یہ ہے کہ بجائے قتل کے فیصلے کے انھوں نے ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت شعیب کی قوم مختلف قبائل کا مجموعہ تھی قبائلی زندگی میں کسی ایک قبیلے کے کسی فرد کو قتل کردینا بہت مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ کوئی قبیلہ اپنے کسی آدمی کے مارے جانے پر قصاص لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھتا اور قبائل کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ دین کے اختلاف کے باوجود بھی قبیلے آپس میں ایک دوسرے سے تعاون جاری رکھتے ہیں اور جب ایک لڑائی ایک قبیلے سے دوسرے قبیلے تک متعدی ہوتی ہے تو پھر اس کے اثرات اور وسعت کو روکنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اس لیے قبائل کے سردار ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی قبیلے کا کوئی آدمی دوسرے قبیلے والے کے ہاتھوں نہ مارا جائے اور اگر ایسا ہو تو قصاص یا دیت سے یہ معاملہ حل ہوجائے تو بہتر ہے ورنہ اس آگ کو پھیلنے سے روکنا بہت مشکل ہوجاتا ہے یہ سبب تھا جس کی وجہ سے ان لوگوں نے حضرت شعیب اور آپ پر ایمان لانے والوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس سے پہلے دھمکی دیتے ہوئے یہ بات کی کہ دو راستے تمہارے سامنے ہیں یا تو تم اس نئے دین سے لاتعلقی کا اظہار کردو اور اپنے پرانے دین میں واپس آجاؤ اور اگر یہ منظور نہیں تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے۔ غور فرمایئے کہ حضرت شعیب کی قوم دو مطالبے پیش کر رہی ہے۔ دین سے برگشتگی یعنی ارتداد ورنہ ملک بدری۔ ان دونوں میں سے ہر سوچنے والا یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ دین کا معاملہ زیادہ آسان ہے۔ قبول کرنے کے بعد چھوڑا بھی جاسکتا ہے اور چھوڑ کر قبول بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ملک چھوٹ جانا یہ ایک بہت بڑا حادثہ ہے وطن تو انسان کی زندگی ہے اور وطن کی محبت انسان کی شریانوں میں دوڑتی ہے اس سے نکل جانے کا تصور بھی انسان کے لیے نہایت ہولناک ہے اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ حضرت شعیب سب سے پہلے اس مطالبے پر بات کرتے کہ بھٔی نظریاتی بحثیں تو چلتی رہیں گی میں نے تمہارے سامنے جو دعوت پیش کی ہے تم اسے قبول نہ کرو لیکن اس کو لڑائی تک پہنچا دینا تو کوئی عقلمندی کی بات نہیں۔ لیکن جہاں تک تعلق ہے ملک سے نکالنے کا تو یہ تو نہایت نامناسب بات ہے۔ ہم ایک مدت دراز سے اس ملک میں اکٹھے رہ رہے ہیں ہماری آپس میں بیسیوں نسبتیں ہیں تو کیا تم کسی نسبت کا بھی خیال کیے بغیر ہمیں ملک سے نکال دو گے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ آپ نے ملک اور وطن سے حوالے سے کوئی بات نہیں کی بلکہ اس مطالبے کو مکمل طور پر نظر انداز فرمایا اور اگر کوئی بات کہی تو دین اور ملت کے حوالے سے کہی کہ تمہاری ملت اور تمہارا دین اگر قابل قبول ہوتا اور ہم اسے اس قابل سمجھتے کہ وہ اللہ کے یہاں قابل قبول ہوسکتا ہے تو ہم اسے پہلے ہی کیوں چھوڑتے۔ اب جبکہ ہم اسے غلط سمجھ کر چھوڑ چکے ہیں اور اس کے مقابلے میں اللہ کی طرف سے نازل کردہ سچے دین کو قبول کرچکے ہیں تو اب اگر اس سچے دین سے ہم پھرجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس سچ کی خاطر ہم نے جھوٹ کو چھوڑا تھا وہ سچ حقیقت میں سچ نہیں تھا ہم نے بلاوجہ اس کی نسبت اللہ کی طرف کی تھی یہ سراسر ایک جھوٹی دعوت تھی جو میں تمہارے سامنے پیش کرتا رہا ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ آج تک میں نے جو کچھ کہا وہ سراسر اللہ پر ایک بہتان اور تہمت تھی ظاہر ہے یہ بات میں کسی طرح بھی کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا بلکہ میں تو اس پر اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آنے کی ہمت عطا فرمائی۔ جس غلط زندگی سے اللہ نے ہمیں نجات بخشی ہے تو تم کیا سمجھتے ہو کہ میں اللہ کے اس احسان کو رد کر کے دوبارہ اندھیروں کا مسافر بن جاؤں اس لیے میں تم سے صاف کہتا ہوں کہ تم کبھی اس کا تصور بھی نہ کرو کہ میں اور میرے ساتھی دوبارہ کبھی تمہارے باطل دین کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ اپنے اس عزم بالجزم کا اظہار کرنے کے بعد ایک عجیب بات فرمائی کہ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمارا عزم تو راسخ ہے اس میں تو کسی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتالیکن میں اس عزم پر کلیۃً اعتماد نہیں کرتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ انسان اپنی ساری خود اعتمادی کے باوجود نہایت کمزور واقع ہوا ہے۔ اگر اللہ کسی کام کو نہ چاہے تو انسان کے سارے ارادے دھرے رہ جاتے ہیں اس لیے اللہ ہی نے ہمیں یہ بات سکھائی ہے کہ جب تم کسی بات کے لیے عزم کرو تو ہمیشہ اس پر اللہ کی توفیق مانگو اور ساتھ ہی یہ ضرور کہو کہ میں تو یہ کام کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی اللہ پر حقیقی اعتماد کا اظہار بھی کرتا ہوں۔ ایمان اصل میں انہی دونوں چیزوں کا نام ہے ایک عزم بالجزم کا دوسرا تفویض الی اللہ کا کہ آدمی اس بات کا پابند ہے کہ وہ ارادے کی پختگی کے ساتھ اور جسم و جان کی پوری توانائی کے ساتھ باطل سے ترک تعلق کرے اور حق سے اپنا رشتہ باندھے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات کا بھی پابند ہے کہ اپنے ارادوں کی باگ دوڑ پوری طرح اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کرے بلکہ ہر بات کا اصل رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ میں جانے اور اسی پر بھروسہ کرے یعنی اس کا یقین یہ ہونا چاہیے ؎ کیا فائدہ فکرِ بیش و کم سے ہوگا ہم کیا ہیں جو کوئی کام ہم سے ہوگا جو ہوا ‘ ہوا کرم سے تیرے جو ہوگا ترے کرم سے ہوگا ارادے کی پختگی اور اللہ سے توفیق کی طلب کے بعد جب آپ نے محسوس کیا کہ میری قوم میری باتوں سے کوئی اثر لینے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس کی دشمنی اور نامرادی اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ وہ آخری اقدام کیے بغیر رکنے والی نہیں تو پھر آپ نے اللہ سے دعا مانگی کہ یا اللہ میں اپنی امکانی کوششیں کرچکا ہوں میری قوم پر پوری طرح اتمام حجت ہوچکا اب میری قوم کو صرف آپ کی طرف سے فیصلے کا انتظار ہے اس لیے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ یہ اب قوت استعمال کرنے پر تل گئے ہیں میری بظاہر قوت ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی اب تو آپ کی طرف سے آنے والا فیصلہ ان کی قسمتوں کا فیصلہ کرے گا کیونکہ آپ ہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔ ایک اشتباہ کا جواب اس آیت کریمہ میں ہم نے دیکھا ہے کہ اپنے دین کو چھوڑ کر دوبارہ ان کے دین باطل میں داخل ہونے سے حضرت شعیب اپنی اور مسلمانوں کی طرف سے انکار فرما رہے ہیں اس کا مطلب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آپ پر ایمان لانے والے کفر سے نکل کر اسلام میں آئے تھے کیا حضرت شعیب بھی اسی طرح کفر سے نکل کر اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے تھے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ آپ کی زندگی میں کبھی کوئی وقت ایسا بھی گزرا ہے جب آپ بھی کفر اور شرک کا اعتبار کرتے تھے حالانکہ اللہ کا نبی معصوم پیدا ہوتا ہے وہ نبوت سے پہلے بھی فطرت کی راہنمائی کے مطابق زندگی گزارتا ہے اس لیے وہ کبھی کفر یا شرک میں آلودہ نہیں ہوتا تو یہاں حضرت شعیب کا یہ کچھ فرمانا جس کا ہم نے ذکر کیا ہے آخر اس کا کیا مطلب ہے۔ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ حضرت شعیب اپنی طرف سے نہیں بلکہ اپنے اوپر ایمان لانے والوں کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے یہ باتیں فرما رہے ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اگرچہ نبوت سے پہلے کبھی کفر یا شرک میں آلودہ نہیں ہوتا لیکن وہ مشرکوں کی کسی بات پر تنقید بھی نہیں کرتا وہ خود نہایت پاکیزہ زندگی گزارتا ہے لیکن نبوت سے پہلے پاکیزگی کا درس نہیں دیتا۔ اس صورت حال کی وجہ سے اس کی قوم یہ سمجھتی رہتی ہے کہ وہ شاید ہمارا ہم مذہب ہے، اس لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم کے خیال کے مطابق اہل ایمان کی طرف سے بات کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان سے الگ نہیں کیا اور مجموعی طور پر وہ بات کہہ دی جو ان کی دھمکی کے جواب میں کہی جانی چاہیے اور اپنے جواب میں اس کو پوری طرح واضح کردیا کہ تم وطن سے نکالنے کی دھمکی دے کر یہ سمجھتے ہو کہ ہم وطن کی خاطر دین چھوڑ دیں گے حالانکہ ہمارے نزدیک اصل حیثیت دین کی ہے وطن تو بدلا جاسکتا ہے۔ مومن کے لیے وطن کی حقیقت ایک مومن کا وطن اصل میں وہ ہے جہاں اس کی زندگی محفوظ ہے اور جہاں اس کے دین کو خطرات لاحق ہوجائیں وہ پوری طرح اللہ کی بندگی انفرادی اور اجتماعی سطح پر کرنے کا موقع نہ پاتا ہو تو پھر اسے وطن کی قربانی دینا پڑتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر پیغمبر دین کی خاطر ہجرت کرتا رہا اس نے ہمیشہ دین کی خاطر وطن چھوڑا ہے وطن کی خاطر دین کبھی نہیں چھوڑا اور یہی وہ بات ہے جس کو ہمارے قومی شاعر نے مختلف مواقع پر واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دنوں میں لوگوں کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل ہو رہا تھا کہ محض اسلامی زندگی گزارنے کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے جبکہ عبادات کی ادائیگی کی سہولت تویہاں بھی میسر ہے ؟ وہ دراصل اس بات میں فرق نہیں کر رہے تھے کہ اللہ کی بندگی اور عبادت صرف نماز نہیں بلکہ اجتماعی زندگی میں اللہ کے قانون کی بالادستی کا نام ہے جس طرح اللہ اور اس کے احکام کو بالادستی مسجد میں حاصل ہونی چاہیے اسی طرح اللہ کے دین کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ اس کا فرمان حکومت کے ایوانوں سے جاری ہو ‘ عدالت کی کرسی سے اس کے مطابق فیصلے ہوں ‘ ملک کے ذرائع ابلاغ اس کی تبلیغ و دعوت کے ساتھ ساتھ اسی کے احکام کے دائرے میں رہتے ہوئے لوگوں کو تفریح مہیا کریں ‘ تعلیمی ادارے اسی کے مطابق ذہنی اور فکری تعمیر کا کام کریں ‘ غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے پر اللہ کے دین کی بالادستی ‘ یہ اصل مقصود ہے۔ اسی کی طرف اقبال نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ؎ ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد اور دین کو وطن پر قربان کرنے کے تصور پر تنقید کرتے ہوئے اقبال نے کہا ؎ ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے حضرت شعیب (علیہ السلام) کے اس مایوس کن اور دنداں شکن جواب کے بعد قوم آپ سے تو مایوس ہوگئی البتہ انھوں نے آپ پر ایمان لانے والوں کو وارننگ دی۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی کا ذکر فرمایا جا رہا ہے :
Top