Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 80
اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ١ؕ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
اِسْتَغْفِرْ : تو بخشش مانگ لَهُمْ : ان کے لیے اَوْ : یا لَا تَسْتَغْفِرْ : بخشش نہ مانگ لَهُمْ : ان کے لیے اِنْ : اگر تَسْتَغْفِرْ : آپ بخشش مانگیں لَهُمْ : ان کے لیے سَبْعِيْنَ : ستر مَرَّةً : بار فَلَنْ يَّغْفِرَ : تو ہرگز نہ بخشے گا اللّٰهُ : اللہ لَهُمْ : ان کو ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا بِاللّٰهِ : اللہ سے وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان (جمع)
آپ ان کے لئے استغفار کریں خواہ ان کے لئے استغفار نہ کریں، اگر آپ ان کے لئے ستر بار (بھی استغفار کریں گے جب بھی اللہ نہیں بخشے گا،147 ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا،148 ۔
147 ۔ (اس لئے کہ مغفرت کی بنیاد یعنی ایمان ہی سرے سے مفقود ہے اور منافقین کے حق میں دعا اور عدم دعادونوں عدم نفع کے لحاظ سے یکساں ہیں) (آیت) ” سبعین مرۃ “۔ ستر سے مراد یہاں عدد کامل یا کثرت استغفار ہے اور ستر تحدید کے لئے نہیں صرف تکثیر کے لئے آیا ہے جیسا کہ محاورۂ عرب میں اکثرآتا ہے۔ والسبعون جار مجری المثل فی کلامھم للتکثیر (کشاف) ذکر السبعین علی وجہ المبالغۃ فی الیاس من المغفرۃ (جصاص) لان العرب فی اسالیب کلامھم تذکر السبعین فی مبالغۃ کلامھا ولا ترید التحدید بھا (ابن کثیر) روایتوں میں آتا ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول منافقین مدینہ کا رئیس وسردار تھا۔ اس کا لڑکا مومن مخلص تھا۔ باپ کے مرنے پر آکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں درخواست جنازہ پڑھانے کی کی۔ آپ کھڑے ہوگئے حضرت عمر ؓ نے دامن پکڑا کہ آپ تو نماز سے منع کردیئے گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے کہ مجسمہ رحمت و شفقت تھے اور منافقین ومنکرین کی تالیف قلوب کی مصلحت بھی آپ کی نگاہ دور رس میں تھی، باوجود اہل زبان ہونے کے آیت میں تاویل فرمالی اور لفظی گنجائش نکال کر ارشاد فرمایا کہ مجھے تو اختیار دیا گیا ہے چاہوں استغفار کروں چاہوں نہ کروں ستر بار تک مغفرت نہ ہوگی میں اس سے زیادہ استغفار کروں گا چناچہ آپ ﷺ نے نماز پڑھا دی۔ آیت (آیت) ” ولا تصل علی احد منہم مات ابدا “۔ اس کے بعد اتری۔ آیت پر سوال یہ ہوا کہ آپ ﷺ نے منافق کے کفر کے باوجود اس کیلئے استغفار کیسے کردیا، جواب یہ دیا گیا کہ اس کے کفر کا علم قطعی تو آپ ﷺ کو اس آیت کے نزول کے بعد ہی ہوا نہ کہ اس کے قبل سے تھا محققین نے آیت اور اس کے شان نزول دونوں سے یہ مستنبط کیا ہے کہ مجتہد کو چاہیے کہ آیات عذاب میں تاویل اور وعدہ ہائے انعام میں توسیع کرتا رہے۔ (آیت) ” استغفرلھم “۔ آپ ﷺ کا یہ استغفار اگر ہوتا تو فرط رحمت و شفقت کی بنا پر ہوتا، (آیت) ” اولا تستغفرلھم “۔ آپ ﷺ کا یہ عدم استغفار اصل ضابطہ شریعت اور استغفار کی عدم نافعیت کی بنا پر ہوتا۔ کفر ایسی سخت چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے پیغمبر برحق ﷺ تک کی سفارش بےاثر رہتی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ فیہ اخبار بان استغفار النبی ﷺ لھم لا یوجب لھم المغفرۃ (جصاص) 148 ۔ چناچہ یہ لوگ کفر ہی پر قائم رہے اور کفر ہی پر ختم رہے۔ (آیت) ” ذلک بانھم کفروا باللہ ورسولہ “۔ فقہاء نے یہیں سے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ کافر کے لئے استغفار اور اس کی نماز جنازہ درست نہیں، آیت میں استغفار رسول ﷺ کی عدم نافعیت کی وجہ بیان کردی کہ وہ کفر ہے اور اس مانع کا دفعیہ عدد استغفار کی کمی زیادتی سے نہیں ہوسکتا۔ بین ان العلۃ التی لاجلھا لاینفعھم استغفار الرسول وان بلغ سبعین مرۃ کفرھم وفسقھم وھذا المعنی قائم فی الزیادۃ علی السبعین (کبیر) (آیت) ” الفسقین “۔ یہ وہ نافرمان لوگ ہیں جو ایمان وحق کی طلب ہی نہیں کرتے، محض گنہگار ہونا مراد نہیں، بلکہ ایمان سے خارج ہونا مراد ہے۔ اے الخارجین من الایمان (مدارک) (آیت) ” ذلک “۔ یعنی یہ مغفرت کی طرف سے قطعی محرومی ومایوسی۔ اشارۃ الی الیاس من المغفرۃ (مدارک)
Top