Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Qasas : 76
اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْ١۪ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِ١ۗ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ
اِنَّ
: بیشک
قَارُوْنَ
: قارون
كَانَ
: تھا
مِنْ
: سے
قَوْمِ مُوْسٰي
: موسیٰ کی قوم
فَبَغٰى
: سو اس نے زیادتی کی
عَلَيْهِمْ
: ان پر
وَاٰتَيْنٰهُ
: اور ہم نے دئیے تھے اس کو
مِنَ الْكُنُوْزِ
: خزانے
مَآ اِنَّ
: اتنے کہ
مَفَاتِحَهٗ
: اس کی کنجیاں
لَتَنُوْٓاُ
: بھاری ہوتیں
بِالْعُصْبَةِ
: ایک جماعت پر
اُولِي الْقُوَّةِ
: زور آور
اِذْ قَالَ
: جب کہا
لَهٗ
: اس کو
قَوْمُهٗ
: اس کی قوم
لَا تَفْرَحْ
: نہ خوش ہو (نہ اترا)
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
لَا يُحِبُّ
: پسند نہیں کرتا
الْفَرِحِيْنَ
: خوش ہونے (اترانے) والے
قارون موسٰی کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدّی کرتا تھا۔ اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ اُن کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اُٹھانی مشکل ہوتیں جب اس سے اس کی قوم نے کہا کہ اترائیے مت۔ کہ خدا اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا
ان قارون کان من قوم موسیٰ . قارون بلاشبہ موسیٰ کی قوم میں سے تھا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ قارون حضرت موسیٰ کے چچا کا بیٹا تھا۔ حضرت موسیٰ کے باپ کا نام عمران تھا اور قارون کا باپ یصہر تھا اور عمران و یصہر دونوں قاہت بن لادی بن یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔ کذا اخرج ابن المنذر عن ابن جریح۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ قارون حضرت موسیٰ کا چچا اور عمران کا بھائی تھا اور قارون و عمران دونوں یصہر بن قاہت کے بیٹے تھے اور بنی اسرائیل میں کوئی بھی قارون سے زیادہ توریت کا قاری نہ تھا مگر سامری کی طرح یہ بھی منافق ہوگیا۔ جلال الدین محلی نے لکھا ہے کہ قارون حضرت موسیٰ کے چچا کا بیٹا بھی تھا اور خالہ کا بیٹا بھی۔ فبغی علیھم واٰتینہ من الکنوزما ان مفاتحہ لتنواء ا بالعصبۃ اولی القوۃ . پھر وہ قوم پر تکبر کرنے لگا کیونکہ ہم نے اس کو اتنے خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو (اٹھانا) بھاری پڑتی تھیں۔ روایت میں آیا ہے کہ فرعون کی طرف سے قارون کو بنی اسرائیل کا سردار بنا دیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ بنی اسرائیل پر ظلم کرنے لگا (اس تفسیر پر بَغٰی عَلَیْہِمْ کا ترجمہ ہوگا قارون نے ان پر ظلم کیا) ۔ ضحاک نے کہا کہ قارون نے شرک کر کے قوم کے خلاف بغاوت کی۔ بعض لوگوں نے ترجمہ کیا کہ قارون بنی اسرائیل پر تکبر اور غرور کرنے لگا۔ بعض نے کہا : قارون نے ان پر حسد کیا اور سب سے برتروبالا ہونے کا خواستگار ہوگیا۔ عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے بروایت قتادہ بیان کیا ہے کہ قارون موسیٰ کے چچا یعنی موسیٰ کے باپ کے بھائی کا بیٹا تھا اور بنی اسرائیل کے ساتھ دریا کو پار کرنے میں بھی شریک تھا اور بڑا خوش آواز تھا لیکن سامری کی طرح اللہ کا دشمن منافق ہوگیا۔ اللہ نے اس کو غارت کردیا اور کئے کی پوری سزا دی۔ مال و اولاد کی کثرت کی وجہ سے وہ مغرور بن گیا تھا لیکن سورة المؤمن کی آیت وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا اِلٰی فِرْعَوْنَ وَھَامَانَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سَاحِرٌ کَذَّابٌ (ہم نے اپنی طرف سے نشانیاں دے کر موسیٰ کو فرعون اور ہامان اور قارون کے پاس بھیجا تو ان (تینوں) نے کہا کہ تو بڑا پکا جھوٹا جادوگر ہے) دلالت کر رہی ہے کہ فرعون و ہامان کی طرح قارون بھی کافر تھا۔ نہ ظاہر میں ایمان لایا تھا ‘ نہ باطن میں (یعنی منافق نہ تھا کہ ظاہر میں ایمان لے آیا ہو) ۔ شہر بن حوشب نے کہا : (غرور وتکبر کا مظاہرہ کرنے کے لئے) قارون نے اپنے کپڑوں کی لمبائی (دوسروں کے مقابلہ میں) ایک بالشت بڑھائی تھی (یعنی اس کے کپڑے نیچے لٹکتے تھے) ۔ حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص اپنا کپڑا (ازار یعنی تہبند ‘ لنگی یا کرتا ‘ عبا ‘ چغہ وغیرہ) تکبر سے کھینچ کر چلتا ہے ‘ اللہ اس کی طرف (رحمت کی) نظر نہیں کرے گا۔ رواہ البغوی۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی چادر غرور کی وجہ سے کھینچتا چلتا ہے ‘ اللہ (قیامت کے دن رحمت کی) نظر سے اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔ امام احمد اور نسائی نے صحیح سند سے حضرت ابن عباس کی مرفوع روایت نقل کی ہے کہ اللہ (رحمت کی نظر سے) اس شخص کو نہیں دیکھے گا جو اپنی ازار (لنگی یا تہبند) کو گھسیٹتا چلتا ہے۔ مِنَ الْکُنُوْزِ جمع کردہ اموال کے ذخیرے۔ مَفَاتِحَہٗ یعنی مالوں کے صندوق کی کنجیاں۔ مَفَاتِحُ مِفْتَح کی جمع ہے ‘ قتادہ اور مجاہد اور ایک جماعت علماء کا یہی قول ہے۔ بعض نے کہا کہ مَفَاتِح سے مراد خزانے ہیں جیسے اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا ہے : وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ اللہ کے پاس غیب کے خزانے ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ لیکن اس مطلب پر اگلی آیت لَتَنُوْٓءُ ا بالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ سے قارون کے خزانوں کی زیادہ فراوانی ثابت نہ ہوگی کیونکہ چالیس آدمی (جو عصبہ کا معنی کہا جاتا ہے) چار لاکھ درہم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ جریر نے بوساطت منصور خیثمہ کا بیان نقل کیا ہے ‘ خیثمہ نے کہا : میں نے انجیل میں دیکھا تھا کہ قارون کے خزانوں کی کنجیاں ساٹھ خچروں کا بوجھ ہوتی تھیں۔ کوئی کنجی ایک انگلی سے بڑی نہ تھی اور ہر کنجی ایک خزانے کی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قارون جہاں جاتا تھا ‘ اپنے خزانوں کی کنجیاں اپنے ساتھ اٹھا کرلے جاتا تھا اور وہ کنجیاں لوہے کی تھیں۔ جب بوجھ زیادہ ہونے لگا تو اس نے لکڑی کی کنجیاں بنوا لیں پھر ان کنجیوں کا بار بھی زیادہ ہونے لگا تو گائے کے چمڑے کی کنجیاں ایک ایک انگلی کے برابر تیار کرا لیں۔ یہ کنجیاں بھی (اتنی بھاری ہوگئی تھیں کہ) اس کے ساتھ چالیس خچروں پر لد کر جاتی تھیں۔ روایات مذکورہ میں سے کسی روایت کی تائید قرآن سے نہیں ہوتی کیونکہ قرآن مجید میں اَلْعُصْبَۃ کا لفظ ہے اور عصبہ مردوں کی جماعت کو کہتے ہیں ‘ خچروں کی جماعت کو نہیں کہتے۔ بغوی نے لکھا : عُصْبَۃ کی عددی تعیین میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ مجاہد نے کہا : دس سے پندرہ تک کی جماعت کو عصبہ کہتے ہیں۔ ضحاک نے حضرت ابن عباس کا قول بیان کیا ہے کہ تین سے دس تک عصبہ ہوتا ہے۔ قتادہ نے کہا : دس سے چالیس تک کی جماعت عصبہ ہے۔ قاموس میں بھی یہی کہا گیا ہے۔ بعض نے ستر کی تعداد بیان کی ہے۔ حضرت ابن عباس کا ایک قول آیا ہے کہ اس کی کنجیاں چالیس قوی ترین آدمی اٹھایا کرتے تھے اور لَتَنُؤْٓءُ ا بالْعُصْبَۃِ کا مطلب کا یہ ہے کہ ایک جماعت ان کو لے کر چلتی تھی اور جب وہ گروہ ان کو اٹھاتا تھا تو بوجھ کی وجہ سے وہ نیچے کو جھک جاتے تھے۔ ابوعبیدہ نے کہا کہ آیت میں ترکیب مقلوب ہے ‘ اصل عبارت اس طرح تھی : اِنَّ الْعُصْبَۃَ لَتْنُوءُ لَھَا۔ عرب کہتے ہیں : ناء فلاں بکذا فلاں شخص اس بھاری بوجھ کو لے کر اٹھا۔ اذ قال لہ قومہ لاتفرح ان اللہ لا یحب الفرحین . جب قوم نے اس سے کہا کہ خوشی پر مت اترا ‘ اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ فَرْحٌ کا لغوی ترجمہ یہ خوشی اور مرغوب چیز پا کر سینہ کی کشائش۔ جس فرح کی ممانت کی گئی ہے وہ فرح بمعنی غرور ہے۔ جب انسان اپنے کو غنی پاتا ہے تو اترانے لگتا ہے ‘ مغرور ہوجاتا ہے ‘ تکبر کرنے لگتا ہے۔ ایسی فرح کی ممانعت ہے ‘ اللہ نے اسی کو طیغان (پھولنا نہ سمانا ‘ حد سے تجاوز کرنا) فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے : اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی انسان نے اپنے کو غنی پایا تو طغیان (غرور ‘ تکبر) کرنے لگا۔ قاموس میں ہے : فرح کا معنی ہے خوشی اور (اپنے کو) دیکھنا۔ بغوی نے لاَ تَفْرَحُ کا ترجمہ کیا ہے نہ اترا ‘ غرور نہ کر ‘ نہ اکڑ۔ فرح یعنی حصول مقصد سے خوشی تو فطری امر ہے ‘ بندہ کے اختیار کو اس میں دخل نہیں اس لئے اس کی ممانعت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ دنیا ملنے پر خوش ہونا مطلقاً مذموم ہے (خواہ غرور وتکبر پیدا ہو یا نہ ہو) کیونکہ دنیا کی محبت اور دنیا کی پسندیدگی موجب ہے زوال دنیا کی طرف سے غافل ہوجانے کی اور فنا وزوال کی طرف سے غافل ہونا بہرحال مذموم ہے یہ سمجھ لینا کہ دنیا فانی ہے ‘ اس کی ہر لذت زوال پزیر ہے ‘ یہ آنی جانی ہے ‘ انسان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ دنیا سے دل نہ لگائے اسی لئے اللہ نے فرمایا ہے : لاَ تَاْسَوْا عَلٰی مَافَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوْا بِمَا اٰتٰکُمْ جو چیز تم کو نہ ملی اس کا غم نہ کرو اور جو کچھ اللہ نے تم کو عطا فرما دیا ہے اس پر خوش نہ ہو۔ لاَ تَفْرَحْ (یعنی ممانعت فرح) کی علت یہ ہے کہ یہ فرح ہم کو اللہ کی محبت سے روکتی ہے اسی لئے فرمایا۔ اِنَّ اللہ لاَ یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ یعنی جو دنیا کی پرفریب لذتوں سے خوش ہوتے اور غرور وتکبر کرتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے ‘ اللہ ان کو پسند نہیں کرتا۔ بعض اہل تحقیق نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کے اندر متعدد آیات میں فرح کی مذمت کی گئی ہے۔ ایک جگہ فرمایا ہے : وَلَمَّا جَآءَ تْھُمْ رُسُلْنَا بالْبَیِّنَاتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَھُمْ مِّنَ الْعِلْمِ ۔ دوسری جگہ فرمایا ہے : وَفَرِحُوْا بالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔ تیسری جگہ فرمایا ہے : ذٰلِکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَفْرِحُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ۔ ایک اور جگہ فرمایا ہے : حَتّٰی اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوْتُوْا۔ فرح کی اجازت صرف آیت فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا میں اور آیت وَیَوْمَءِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِنَصْرِ اللہ میں دی گئی ہے۔ میرے نزدیک قول فیصل یہ ہے کہ دنیا میں اس نعمت کے ملنے پر جو آخرت میں کام آنے والی ہے ‘ فرح کرنا بہرحال قابل تعریف ہے اور اسی کا حکم آیت فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا میں دیا گیا ہے۔ اور جس دنیاوی نعمت کے ملنے پر اللہ کا شکر بھی ادا کیا جائے اس پر بھی خوش ہونا اچھا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : کھانے والا شکرگزار روزہ دار صابر کی طرح ہے۔ ہاں اگر دنیوی لذتوں کے حصول کے بعد طغیان ‘ سرکشی اور ناشکری پیدا ہوجائے تو قطعاً ایسی نعمت پر خوش ہونا مذموم ہے۔ خوش ہونے کا مذموم یا محمود ہونا شکر اور ناشکری کی بنا پر ہے۔ فی نفسہ بذات خود حصول مطلوب پر خوش ہونا تو فطری امر ہے ‘ انسان کے اختیار کو اس میں دخل نہیں ‘ شریعت کا کوئی حکم ا سے متعلق نہیں (غیراختیاری) چیز کا انسان مکلف نہیں) اگر بندہ کو اللہ سے سچی محبت ہوگی تو وہ اس چیز سے ضرور خوش ہوگا جو اللہ کی خوشنودی حاصل ہونے کا ذریعہ ہو ‘ پس اللہ سے محبت اس کو نہیں ہوسکتی جو اپنے مطلب کے حصول سے صرف اس لئے خوش ہوتا ہے کہ وہ اس کا مطلوب ہے ‘ مرغوب خدا ہونے نہ ہونے کا اس کو کوئی خیال نہیں ہوتا۔
Top