Al-Qurtubi - Al-Qasas : 76
اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْ١۪ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِ١ۗ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ
اِنَّ : بیشک قَارُوْنَ : قارون كَانَ : تھا مِنْ : سے قَوْمِ مُوْسٰي : موسیٰ کی قوم فَبَغٰى : سو اس نے زیادتی کی عَلَيْهِمْ : ان پر وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے دئیے تھے اس کو مِنَ الْكُنُوْزِ : خزانے مَآ اِنَّ : اتنے کہ مَفَاتِحَهٗ : اس کی کنجیاں لَتَنُوْٓاُ : بھاری ہوتیں بِالْعُصْبَةِ : ایک جماعت پر اُولِي الْقُوَّةِ : زور آور اِذْ قَالَ : جب کہا لَهٗ : اس کو قَوْمُهٗ : اس کی قوم لَا تَفْرَحْ : نہ خوش ہو (نہ اترا) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْفَرِحِيْنَ : خوش ہونے (اترانے) والے
قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدی کرتا تھا اور ہم نے اسکو اتنے خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں جب اس سے اس کی قوم نے کہا کہ اترائیے مت کہ خدا اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا
ان قارن کان من قوم موسیٰ جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : فما اوتیتم من شیء فمتاع الحیوۃ الدین (الشوریٰ : 36) تو اس امر کو واضح کیا کہ قارون کو مال عطا کیا گیا، اس نے اس کے ساتھ دھوکہ کھایا اور مال و دولت قارون کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ نہیں رکھے گا جس طرح فرعون کو معصوم نہیں رکھے گا۔ اے مشرکو ! تم تعداد اور مال میں قارون اور فرعون سے تعداد میں زیادہ نہیں ہو گے۔ فرعون کو اس کے لشکروں اور اموال نے کوئی فائدہ نہ دیا اور قارون کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رشتہ داری اور مال نے کوئی نفع نہ دیا۔ نخعی قتادہ اور دوسرے علماء نے کہا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نسب موسیٰ بن عمران بن قاہت ہے (1) ابن اسحاق نے کہا : وہحضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ماں، باپ دونوں کی طرف سے چچا تھا (2) ایک یہ کیا گیا ہے : وہ ان کا خالہ زاد تھا۔ یہ عجمہ اور معرفہ ہونے کی وجہ سے منصرف ہے جو فاعول کے وزن پر عجمی ہو اس میں الف، لام اچھا نہیں ہوتا وہ معرفہ ہو تو منصرف نہیں ہوتا اور نکرہ میں منصرف ہوتا ہے۔ اگر اس میں الف لام اچھا ہو تو وہ منصرف ہوگا اگر یہ مذکر کا اسم ہو جس طرح طائوس اور اقود ہے۔ زجاج نے کہا، اگر قارون قرنت الشوء سے ماخوذ ہو تو یہ منصرف ہوگا۔ فبغی علیھم اس کی بغاوت یہ تھی کہ اس نے اپنے کپڑے کی لمبائی ایک بالشت سے زیادہ رکھی ہوئی تھی، یہ شہر بن حوشب کا قول ہے حدیث طیبہ میں ہے : لاینظر اللہ الی من جراز ارہ بطر (1) جس آدمی نے تکبر کرتے ہئے اپنے تہبند کو گھسیٹا اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے اس کی سرکشی سے مراد یہ کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا، یہضحاک کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، اس کیبغی سے مراد اپنے مال اور اولاد کی زیادتی کی وجہ سے لوگوں کو حقیر جاننا، یہ قتادہ کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کی بغی سے مراد اللہ تعالیٰ نے اسے جو خزانے دیئے اس نے انہیں اپنی طرف منسوب کیا کہ اس نے یہ اموال اپنے علم اور حیلہ سے حاصل کئے ہیں، یہ ابن بحر کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، بغی سے مراد اس کا یہ قول ہے جب نبوت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ہے اور مذبح و قربان ہارون کو حاصل ہے تو میرے لئے کیا ہے ؟ یہ روایت بیان کی جاتی ہے، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) انہیں لے کر سمندر سے گزرے اور رسالت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ہوئی اور امامت حضرت ہارون (علیہ السلام) کے لئے ہوئی جو قربانی پیش کرتا ہے اور ان میں سردار ہوتا قربانی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ہوئی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے اپنے بھائی کے لئے مختص کردیا۔ قارون نے دل میں ناراضگی پائی اور ان دونوں سے حسد کیا۔ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا، امر تم دونوں کے لئے ہے میرے لئے کچھ بھی نہیں میں کب تک صبر کروں گا ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔ اس نے کہا : اللہ کی قسم ! میں تیری تصدیق کروں گا یہاں تک کہ تو معجزہ لے آئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نبی اسرائیل کے سرداروں کو حکم دیا کہ ان میں سے ہر ایک اپنا عصا لائے آپ نے ان سب کا گھٹا بنایا اور انہیں اس قبہ میں ڈال دیا جس قبہ میں آپ پر وحی نازل ہوئی تھی وہ رات کو اپنے عصا کی حفاظت کرتے رہے انہوں نے صبح کی تو حضرت ہارون (علیہ السلام) کا عصا ہل رہا تھا اور اس کے سبز پتے بھی تھے۔ وہ اخروٹ کے درخت کا تھا۔ قارون نے کہا : جو کچھ تو کرتا ہے وہ جادو سے زیادہ تعجب کا باعث نہیں تو اس نے یہ کہہ کر ان پر ظلم کیا۔ یحییٰ بن سلام اور ابن مسیب نے کہا : قارون مال دار آدمی تھا وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جانب سے بنی اسرائیل پر عامل تھا اس نے ان پر تعدی کی اور ان پر ظلم کیا وہ ان میں سے ایک تھا۔ ساتواں قول یہ ہے کہ : حضرت ابن عباسنے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے زانی کو رجم کرنے کا حکم دیا تو قارون نے ایک بدکار عورت کا قصد کیا اور اسے مال دیا اور اسے برانگیختہ کیا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر دعویٰ کرے کہ حضرت موسیٰ نے اس کے ساتھ بدکاری کی ہے اور اسے حاملہ کردیا ہے۔ یہ امر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر گراں گزرا آپ نے اس عورت سے اس اللہ کی قسم اٹھوائی جس نے بنی اسرائیل کے سمندر پھاڑا اور جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل کی کہ تو سچ بولے، اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا اس نے کہا، پس گواہی دیتی ہوں کہ تو بری ہے اور قارون نے مجھے مال دیا اور مجھے برانیگختہ کیا کہ میں وہ کہوں جو میں نے کہا، آپسچے ہیں اور قارون جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قارون کا معاملہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سپرد کردیا اور زمین کو حکم دیا کہ تو اس کی اطاعت کر۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آئے جب کہ وہ زمین کو کہہ رہے تھے : اے زمین : اس کو پکڑ لے اے زمین ! تو اس کو پکڑ لے، زمین اسے آہستہ آہستہ پکڑتی رہی جب کہ وہ مدد کے لئے پکار رہا تھا۔ اے موسیٰ ! یہاں تک کہ وہ خود اس کا گھر اور اس کے ساتھی جو اس کے مذہب پر تھے وہ زمین میں دھنس گئے۔ روایت بیان کی گی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی : میرے بندوں نے تجھے مدد کے لئے پکارا تو نے ان پر رحم نہیں کیا اگر وہ مجھے بلاتے تو مجھے اپنے قریب پاتے اور دعا قبول کرنے والا پاتے۔ ابن جریج نے کہا، ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ ہر روز وہ انسان کی قامت کے برابر زمین میں دھنستا رہے گا۔ وہ قیامت تک زمین کی پست ترین سطح تک نہیں پہنچیں گے۔ ابی ابی الدنیا نے کتاب الفرج میں ذکر کیا ہے : ابراہیم بن راشد، دائود بن مہران سے وہ ولید بن مسلم سے وہ مروان بن جناح سے وہ یونس بن میسرہ بن حلبس سے روایت نقل کرتے ہیں قارون حضرت یونس (علیہ السلام) سے سمندر کی تاریکیوں میں ملا تو قارون نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو ندا کی اس نے کہا : اے یونس ! اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرو تو پہلے قدم پر ہی اسے پائے گا کہ وہ تیری طرف رجوع فرمائے گا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے اسے فرمایا : تجھے توبہ سے کس چیز نے روکاڈ اس نے کہا : میری توبہ میرے چچا زاد بھائی کے سپرد کردی گی تو اس نے مجھے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ حدیث میں ہے : قارون جب ساتویں زمین کی قرار گاہ تک پہنچے گا تو حضرت اسرائیل صور میں پھونک دیں گے : اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ سدی نے کہا : اس بدکار عورت کا نام سبرتا ہے، قارون نے اسے دو ہزار ہم دیئے تھے (1) قتادہ نے کہا : قارون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ سمندر طے کیا اس کے حسن صورت کی وجہ سے تورات میں اسے منور نام دیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ کے دشمن نے منافقت کی جس طرح سامری نے منافقت کی۔ واتینہ من الکنوز عطا نے کہا : قارون نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بہت سے خزانے پائے (2) ولید بن مروان نے کہا : وہ کیمیاء گری کا کام کرتا تھا (3) مآ ان مغاتحہ ان اپنے اسم اور خبر سے مل کر ما کا صلہ ہے اور ما آتینا کا صلہ ہے۔ نحاس نے کہا : میں نے علی بنسلیمان کو کہتے ہوئے سنا : کو فیصلہ کے بارے میں جو کتے ہیں وہ کتنی ہی قبیح بات ہے الذی اور اس کے اخوات کا صلہ ان اور ان کے معمول کو بنانا جائز نہیں قرآن حکیم میں ما ان مفاتحہ اس میں مفاتح، مفتح کے جمع ہے۔ مفتح اسے کہتے ہیں جس کے ساتھ تالے کو کھولا جاتا ہے جس نے مفتاح کہا اس نے مفاتیح کہا ہے جس نے کہا : یہ خزانے ہیں تو اس کا واحد مفتح ہے جو میم کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ لتنوآء بالعصبۃ اس بارے میں جتنے بھی اقوال کئے گئے ہیں ان میں سے سب سے بہترین معنی یہ ہے کہ اپنے بوجھ کی وجہ سے ان کو جھکا دے جب باء مفتوحہ ہوگی تو باء داخل ہوگی، جس طرح انہوں نے کہا : مربذھب بالیوس ویذھب البوس تو وہ لتنوآء بالعصبۃ ہوگا (4) یعنی مشقت سے اٹھی، جس طرح تیرا قول ہے : تم بنا یعنی ہمیں یوں بنا دو کہ ہم اٹھیں۔ یوں باب ذکر کیا جاتا ہے ناء ینونوا جب وہ مشکل سے اٹھے۔ شاعر نے کہا : تنئو باخراما فلایا قیامھا وتمشی الھوینی عن قریب فتبھر وہ اپنی سرین کو اٹھاتی ہے تو اس کا قیام دیر سے ہوتا ہے وہ نرمی سے قریب جگہ تک چلتی ہے اور ہانپنے لگتی ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا ، اخذت فلم املک و نوت فلم اقم کانی من طول الزمان مقید میں کوئی چیز پکڑتا ہوں تو اس پر قبضہ نہیں کرسکتا میں اٹھنے کی کوشش کرتا ہوں تو میں اٹھ نہیں پاتا گویا میں طویل عرصہ سے مقید ہوں۔ اناءنی جب اس نے مجھے بوجھل کردیا، یہ ابو زید سے مروی ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : اللہ تعالیٰ کا قول لتنوآء بالعصبۃ اس میں قلب کا قاعدہ جاری ہو رہا ہے۔ لتنوبھا العصبۃ یعنی اس کے ساتھ اٹھتا ہے۔ ابوزید نے کہا : نسوت بالحمل جب میں بوجھ کے ساتھ اٹھا۔ شاعر نے کہا : اذ وجدناخلفا بس الخلف عبدا اذا ما نا بالجمل وقف جب ہم نے خلف پایا تو وہ غلام کتنا برا خلف تھا جب اس نے بوجھ اٹھایا تو چلنے سے رک گیا۔ پہلی تعبیر حضرت ابن عباس ابو صالح اور سدی کے قول کا معنی ہے، یہ فراء کا قول ہے۔ نحاس نے اسے پسند کیا ہے جس طرح یہ جملہ کہا جاتا ہے، ذھبت بہ اذھبتہ جئت بہ واجاتہ نوت بہ واناتہ مجرو حرف جارباء کے ساتھ اور باب افعال سے فعل کا معنی ایک ہی جہاں تک ان کے اس قول کا تعلق ہے : لہ عندی ماساءہ وناءہ تو یہ اتباع کے قاعدہ سے ہے ضروری یہ تھا کہ وہ کہتا : اناءہ اس کی مثل ھنانی الطعام و مرانی ہے میرے لئے کھانا مبارک ہوا۔ واخذہ ما قدم وما حدث پرانا اور نیا اس نے لے لیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : یہ نائی بمعنی بعد سے ماخوذ ہے۔ اس معنی میں شاعر کا قول ہے : یناون عنا وماتنای مودتھم فالقلب فیھم رھین حیثما کا نوا وہ ہم سے دور ہوتے ہیں اور ان کی محبت دور نہیں ہوتی وہ جہاں کہیں بھی ہوں گے دل ان کے قبضہ میں ہے۔ بدیل بن میسرہ نے لینویاء کے ساتھ پڑھا ہے اس وقت اس کا فاعل الواحد یا المذکور ہوگا معنی پر اسے محمول کیا۔ ابو عبیدہ نے کہا، میں نے رئوبتہ بن عجاج سے اس کے اس شعر کے بارے میں کہا : فیھا خطوط من سواد و بلق کا نہ فی الجلد تولیع البھق اس میں سیاہ اور سفید لکیریں ہیں گویا جلد میں برص کے مرض کو پھیلا دیا گیا ہے۔ اگر تو نے خطوط کا ارادہ کیا ہے تو تجھے کہنا چاہئے : کا نھا اگر تو نے سواد اور بلق کا ارادہ کیا تو تو کہہ، کا نھما اس نے کہا : میں نے سب کا ارادہ کیا ہے۔ عصبہ کے معنی میں اختلاف ہے جس سے مراد ایسی جماعت ہے جو ایک دوسرے کے لئے عصبیت کا اظہار کرتی ہے اس کے بارے میں گیارہ قول ہیں (1) تین آدمی، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے، ان سے یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد تین سے لے کر دس تک کے افراد ہیں (1) مجاہد نے کہا : یہاں عصبہ سے مراد پندرہ سے بیس تک کے افراد ہیں (1) ان سے یہ بھی مروی ہے : دس سے لے کر پندرہ تک کے افراد ہیں۔ ان سے یہ بھی مروی ہے : پانچ سے لے کر دس تک کے افراد ہیں۔ پہلا شعبی، دوسرا قول قشیری اور ماوردی کا اور تیسرا قول مہدوی کا ہے۔ ابوصالح، حکم بن عتیبہ، قتادہ اور ضحاک نے کہا : اس سے مراد چالیس افراد ہیں (2) سدی نے کہا : دس سے لے کر چالیس تک کے افراد ہیں، یہ قتادہ کا بھی قول ہے۔ عکرمہ نے کہا : کچھ علماء وہ ہیں جو کہتے ہیں چالیس اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو کہتے ہیں ستر، یہ ابو صالح کا قول ہے کہ عصبہ سے مراد ستر افراد ہیں۔ ماوردی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ پہلا قول ثعلبی نے اس سے ذکر کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد ساٹھ افراد ہیں۔ سعید بن جبیر نے کہا : مراد چھیا سات افراد ہیں۔ عبدالرحمٰن بن زید نے کہا، تین سے لے کر نو تک یہی ” نفر “ ہے۔ کلبی نے کہا : اس سے مراد دس افراد ہیں (3) کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے کہا : ونحن عصبۃ (یوسف : 8) یہ مقاتل کا قول ہے۔ خیثمہ نے کہا : میں نے انجیل میں پایاقارون کے خزانوں کی چابیاں ستر پنج کلیاں خچروں کا وزن تھا۔ وہ ان چابیوں کے بوجھ کی وجہ سے جھک جاتی تھیں ان میں سے کوئی چابی ایک انگلی سے بڑی نہیں تھی۔ ہر چبای کے لئے ایک خزانہ تھا اگر وہ خزانہ اہل بصرہ پر تقسیم کیا جاتا تو انہیں کافی ہوجاتا۔ مجاہد نے کہا : وہ چابیاں اونٹ کے چمڑے سے بنائی گی تھیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ گائے کے چمڑے کی تھیں تاکہ اس کے لئے ہلکی پھلکی ہوں۔ قشیری نے ذکر کیا : جب وہ سفر پر روانہ ہوتا تو وہ ستر خچروں پر لادی جاتیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ پچاس خچروں پر لادی جاتیں، یہ ضحاک کا قول ہے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کی چابیوں سے مراد اس کے برتن ہیں۔ ابو صالح نے اسی طرح کہا ہے کہ مفاتح سے مراد خزانے ہیں، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ اذ قال لہ قومہ بنی اسرائیل کے مومنوں نے اسے کہا : یہ سدی کا قول ہے۔ یحییٰ بن سلام نے کہا : یہاں قوم سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ فراء نے کہا، یہ جمع کا صیغہ ہے مراد واحد ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : الذین قال لھم الناس (آل عمران : 173) یہاں الناس سے مراد نعیم بن مسعودہ جس طرح پہلے گزر چکا ہے۔ لافترح توتکبر نہ کر ان اللہ لایحب الفرحین اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، یہ مجاہد اور سدی کا قول ہے۔ شاعر نے کہا : ولست بمفراج اذ الدھر سرنی جب زمانہ مجھے خوش کرے تو میں تکبر کرنے والا نہیں۔ زجاج نے کہا : معنی ہے تو مال پر خوش نہ ہو کیونکہ مال پر خوش ہونے والا اس کا حق ادا نہیں کرتا۔ بشر بن عبداللہ نے کہا، لا تفرح کا معنی ہے تو فساد برپا نہ کر۔ شاعر نے کہا : اذا انت لم تبرح توذی امانۃ و تحمل اخری افرحتک الودائع جب تو ابھی امانت ادا نہیں کرتا اور دوسری امانت لے لیتا ہے تو ودیعتیں تجھے خراب کریں گی۔ ابو عمرو نے کہا : افرحہ الدین کا معنی ہے قرض نے اسے بوجھل کردیا۔ زجاج نے کہا : الفرحین اور الفارحین دونوں برابر ہیں۔ فراء دونوں میں فرق کیا۔ کہا : الفرحین کا معنی ہے جو خوشی کی حالت میں ہو۔ الفارحین جو زمانہ مستقبل میں خوش ہوں گے اور گمان کیا اسی کی مثل طمع اور طامع ہے میت اور مائت ہے۔ یہ کلام اس کیخلاف دلالت کرتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انک میت وانھم میتون۔ (الزمر) یہاں اللہ تعالیٰ نے مائت نہیں فرمایا۔ مجاہد نے یہ بھی کہا ہے : لاتفرح کا معنی ہے تو بغاوت نہ کر (1) ان اللہ لایحب الفرحین اللہ تعالیٰ بغاوت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ابن بحر نے کہا : اللہ تعالیٰ بخل کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا (2) ۔ وابتغ فیمآ اتک اللہ الدارالاخرۃ اللہ تعالیٰ نے تجھے جو دنیا عطا کی ہے اس میں دار آخرت کو طلب کرے اور دار آخرت سے مرادت جنت ہے۔ مومن کا حق یہ ہے کہ دنیا کو ایسے امور میں صرف کرے جو اسے آخرت میں نفع دیں وہ تکبر اور سرکشی میں دنیا کو صرف نہ کرے۔ ولاتنس نصیبک من الدین ان میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس اور جمہور علماء کا نقطہ نظر ہے (3) تو اپنی عمر ضائع نہ کر کہ تو اپنی دنیا میں عمل صالح نہ کرے کیونکہ آخرت کے لئے عمل کیا جاتا ہے انسان کا نصیب اس کی عمر اور اس میں اس کا عمل صالح ہے۔ اس تاویل کی صورت میں کلام نصیحت میں شدت ہے۔ حضرت حسن بصری اور قتادہ نے کہا : اس کا معنی ہے کہ تو اپنی دنیا میں سے اپنا حصہ ضائع نہ کر جیسے تو حلال سے لطف اندوز ہو اور اس کی طلب کر جب کہ تیری نظر تیری دنیا کی عاقبت کے لئے ہو۔ اس تاویل کی بنا پر کلام میں کچھ نری ہے اور اس امر کے حصول کی تگ و دو کرنا ہے جس کی وہ خواہش کرتا ہے یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کا استعمال نصیحت کے ساتھ واجب ہے تاکہ سختی کی وجہ سے انسان دور ہی نہ ہوجائے، یہ ابن عطیہ کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ دونوں تاویلیں ایسی ہیں جن کو حضرت ابن عمر نے اپنے اس قول میں جمع کردیا ہے : احرث لدنیاک کا نک تعیش ابداو اعمل لاخرتک کا نت تموت غدا اپنی دنیا کے لئے تگ و دو کرو گویا تو ہمیشہ زندہ رہے گا اور اپنی آخرت کے لئے کوشش کر گویا توکل ہی مر جائے گا (14) حضرت حسن بصری سے مروی ہے : زائد کو آگے بھیج دو اور جو ضرورت پوری کرے اس کو روک لو۔ امام مالک نے کہا، اس سے مراد بغیر اسراف کے کھانا اور ینا ہے (5) ایک قول یہ کیا گیا ہے : نصیب سیمراد کفن ہے یہ متصل وعظ ہے، گویا انہوں نے کہا : تو نہ بھول کہ تو اپنا تمام مال چھوڑ جائیگا مگر اپنا حصہ جو کفن ہے۔ اس کی مثل شاعر کا قول ہے : نصیبک مما تجمع الدھر کلہ رداء ان تلوی فیھما و حنوط جو تمام زمانہ جمع کرتا ہے اس میں سے تیرا حصہ دو چادریں ہیں جن میں تجھے لپٹایا جاتا ہے اور تیرا حصہ حنوط ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : ھی القناعۃ لاتبغی بھا بدلا فیھا النعیم وفیھا راحۃ البدن انظر لمن ملک الدنیا باجمعا ھل راح منھا بغیر القطن والکفن یہ قناعت ہے جس کے بدلے تو بدل نہیں چاہتا اس میں نعمتیں ہیں اور اس میں بدن کی راحت ہے اسے دیکھ جو تمام دنیا کا مالک بن گیا۔ کیا اس نے روئی اور کفن کے بغیر کسی چیز سے راحت پائی ؟ ابن عربی نے کہا : اس بارے میں میرے پاس سب سے عمدہ قتادہ کا قول ہے : تو اپنا حلال حصہ نہ بھول، یہ دنیا میں سے تیرا حصہ ہے۔ یہ کتنا اچھا قول ہے ؟ واحسن کمآ احسن اللہ الیک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر اور اس کی عبادت کر جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھ پر انعام کیا ہے اس معنی میں حدیث طیبہ ہے مالاحسان احسان کیا ہے (1) ؟ فرمایا : ان تعبد اللہ کا نک تراہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مساکین کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم ہے۔ ابن عربی نے کہا، اس میں بیشمار اقوال ہیں ان سب کا جامع یہ قول ہے : اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی طاعت میں اسعتمال کرو۔ امام مالک نے کہا : بغیر اسراف کے کھانا اور پینا۔ ابن عربی نے کہا : میرا خیال ہے امام مالک نے ان لوگوں کا رد کرنے کا ارادہ کیا ہے جو عبادت اور بدحالی میں غلو کرتے ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ حلوہ (میٹھی چیز) کو پسند فرماتے، شہد پیتے، بھنی ہوئی چیز استعمال کرتے اور ٹھنڈا پانی پیا کرتے۔ یہ بحث کئی مواقع پر گزر چکی ہے۔ ولاتبغ الفساد فی الارض، ان اللہ لایحب المفسدین نافرمانیاں نہ کیا کرو۔
Top