Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 76
اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْ١۪ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِ١ۗ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ
اِنَّ : بیشک قَارُوْنَ : قارون كَانَ : تھا مِنْ : سے قَوْمِ مُوْسٰي : موسیٰ کی قوم فَبَغٰى : سو اس نے زیادتی کی عَلَيْهِمْ : ان پر وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے دئیے تھے اس کو مِنَ الْكُنُوْزِ : خزانے مَآ اِنَّ : اتنے کہ مَفَاتِحَهٗ : اس کی کنجیاں لَتَنُوْٓاُ : بھاری ہوتیں بِالْعُصْبَةِ : ایک جماعت پر اُولِي الْقُوَّةِ : زور آور اِذْ قَالَ : جب کہا لَهٗ : اس کو قَوْمُهٗ : اس کی قوم لَا تَفْرَحْ : نہ خوش ہو (نہ اترا) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْفَرِحِيْنَ : خوش ہونے (اترانے) والے
قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تھا،96۔ سو اس نے ان کے مقابلہ میں گھمنڈ اختیار کیا،97۔ اور ہم نے اسے کتنے خزانے دے رکھے تھے کہ اس کی کنجیاں زور آوروں کی ایک جماعت کو گرانبار کردیتی تھیں،98۔ جب کہ اس کی قوم نے اس سے کہا کہ اترا مت بیشک اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا،99۔
96۔ یعنی اسرائیلی تھا، قبطی نہ تھا۔ اور صرف اسرائیلی ہی نہیں بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ہم جد اور عزیر قریب بھی تھا۔ توریت میں نام قرح کرکے آیا ہے اور نسب نامہ یوں درج ہے۔ قرح بن اظہار بن قحات بن لادی بن اسرائیل۔ ہمارے ہاں کے نسب ناموں میں املاء یوں آیا ہے۔ قارون بن یصہر بن تاہث بن لادی بن یعقوب، تاہث پر جاکر موسیٰ بن عمران کا بھی نسب نامہ مل جاتا ہے اور تاہث بن لادی جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جدامجد تھے اسی طرح قارون کے بھی تھے۔ اس رشتہ سے قارون آپ کے سگے چچا کا لڑکا ٹھہرتا ہے۔ 97۔ (اپنی دولت وتمول کی بناء پر) یعنی اس نے جماعت اسرائیل کے مقابلہ میں شیوۂ تمردو طغیان اختیار کیا اپنی دولت پر نازاں ہوکر۔ بکثرۃ مالہ (ابن جریر۔ عن قتادۃ) بغی علی کے ایک معنی حسد کرنیکے بھی آتے ہیں۔ چناچہ یہاں یہ معنی بھی لیے گئے ہیں۔ توریت میں ہے کہ اس کو اصلی حسد وعناد حضرت ہارون وحضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھا اور اسرائیلیوں کی ایک چھوٹی سی ٹکڑی، کوئی 250 افراد کی اس کے ساتھ بھی تھی، اور وہ اور بنی اسرائیل میں سے بعض لوگ یعنی اڑھائی سو شخص جو سرگروہ اور نامی اور جماعت کے مشہور تھے، موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں اٹھے اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کی مخالفت پر جمع ہوئے (گنتی۔ 16: 2، 3) 98۔ یعنی وہ اتنا بڑا سرمایہ دار اور مہاجن تھا کہ ایک مستقل عملہ اس کے ہاں کنجی برداروں ہی کا تھا۔ مختلف تہ خانوں، چور دروازوں، کمروں، الماریوں، ان کے مختلف خانوں، تجوریوں، صندوقچیوں کی کنجیوں کی تعداد اگر پچاسوں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں ہو تو اس میں استبعاد ذرا سا بھی نہیں آج بھی ہر کروڑ پتی سیٹھ ساہوکار کے ہاں منشیوں، خزانچیوں، سیاہہ نویسوں، محاسبوں اور ان کے نائبوں، مددگاروں، چپراسیوں، پہرہ داروں کا کتنا بڑا عملہ کام کرتارہتا ہے۔ کنجیاں ظاہر ہے کہ مختلف اہل کار مزدوروں کی طرح سر پر رکھ کر تو چلتے نہ ہوں گے، جیبوں ہی میں رکھتے یا کمر میں باندھتے ہوں گے، پھر اگر سو دو سو کنجیاں دس بیس آدمیوں کے عملہ پر تقسیم ہوں تو اس میں استبعاد کا شائبہ ہی کیا ہے ؟ روایات یہود میں آتا ہے کہ یہ کنجیاں تین سو خچروں پر لد کر چلتی تھیں۔ ملاحظہ ہو تفسیر انگریزی۔ (آیت) ” مفاتح “۔ کے اصلی معنی تو کنجی ہی کے ہیں۔ جمع مفتح وھو ما یفتح بہ (بیضاوی) وھو الذی یفتح بہ الابواب (ابن جریر) لیکن بعض نے اس سے مراد خزانہ بھی لی ہے۔ وقال بعضھم عنی بالمفاتح فی ھذا الموضع الخزائن لتثقل العصبۃ (ابن جریر) قیل بل عنی بالمفاتح الخزائن انفسھا (راغب) (آیت) ” مفاتح “ کے اگر یہ مجازی معنی لیے جائیں تو مراد یہ ہوگی کہ اس کے خزانہ کے حسابات، حفاظت وانتظام کے ماہرین (اولو القوۃ) کا ایک بڑا عملہ موجود تھا۔ 99۔ اتراہٹ یہی ہے کہ گھمنڈ کے نشہ میں انسان خدا اور بندوں کے حقوق واجب کی ادائی میں غافل ہوجائے اور یہاں تو اس کی کم ضرفی اسے پیغمبر برحق سے سرکشی پر ابھار لائی تھی۔
Top